کسی واقعے پر اپنی رائے دینا آسان ہوتا ہے کہ ایسا ہوتا تو ایسا ہوجاتا، مگر جن گزرے وقتوں میں جنم لینے والے واقعات پر ہم بڑے فلسفیانہ طریقے سے بات کر رہے ہوتے ہیں وہ ایسے ہی ہونے تھے، کیونکہ کوئی بھی کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کو وقت کے میدان میں ہار نصیب ہو کیونکہ میدان میں ہار کے لیے قدم رکھا ہی نہیں جاتا۔
مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب 2 حقائق آمنے سامنے آئیں گے تو ایک کو ہارنا ہی پڑے گا۔ جب ٹکراؤ اپنے عروج پر ہوتا ہے تب کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے سر پر ناکامی کی سیاہ چڑیا آ بیٹھے مگر غلطی تو کسی ایک سے ہونی ہی ہے اور ہم اس غلطی کو غلط پلاننگ کا نام دیتے ہیں کیونکہ ایک شاندار تجزیاتی پلاننگ ہی، جنگ کے میدان میں کامیابی کے نقارے پر چوٹ لگاتی ہے۔
مغل سلطنت ڈگمگانے کے بعد اب مسمار ہونے لگی تھی۔ یہاں تک کہ 1835ء تک مغل سلطنت کا سکہ بھی چلنا بند ہوگیا۔ ویلیم چہارم کے زمانے میں کمپنی کا پہلا سکہ ہندوستان کے بازاروں میں کھنکتا نظر آتا۔ سکھ حکومت نے کشمیر کو اپنی حکومت کا حصہ بنانے کے بعد 1837ء میں پشاور پر قبضہ کیا۔ افغان پشاور اور دوسرے علاقوں سے سکھوں کے قبضے میں آئے ہوئے علاقوں کو چھڑوانے کی کوشش میں سرگرداں تھے۔
بارکزئی، کمپنی کی حکومت کو ماننے کے لیے تیار تھے۔ شاہ شجاع جو 1834ء میں یورپی ایشیائی ارینجمنٹ کی مدد سے قندھار پر قبضہ کرچکا تھا۔ وہ اس زمانے (1838ء) میں جھیل کے پرندے کی مانند کبھی لاہور اور کبھی لدھیانہ میں اپنے شب و روز گزارتا تھا۔ کبھی وہ رنجیت سنگھ کا مہمان بن جاتا تھا اور رنجیت سنگھ نے اس سے ’کوہِ نور‘ ہیرا کس طرح حاصل کیا اس واقعے کی تفصیل ہم پہلے ہی اپنی ایک تحریر میں بیان کر چکے ہیں۔ شجاع اس کوشش میں تھا کہ کوئی اس کی مالی مدد اور لشکر کی طاقت بڑھانے میں معاونت کرے تاکہ وہ اپنے کھوئے ہوئے علاقے پھر سے حاصل کرسکے۔
ان زمانوں میں جو عالمی منظرنامہ تھا اس کے مطابق روس کو ہندوستان اور اطراف کے علاقوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے ایک بفرزون کی شدید ضرورت تھی اور وہ افغانستان ہی ہوسکتا تھا۔ اس طرح پہلی اینگلو افغانستان جنگ کی تیاریاں ہونے لگیں، جس کے نتیجے میں بادشاہت کا سہرا شاہ شجاع کے سر پر سجنے والا تھا۔
16ویں صدی میں دریائے سندھ کے ایک جزیرے پر تعمیر کیا ہوا بکھر کا قلعہ 19ویں صدی میں بھی اچھی حالت میں تھا۔ یہ مشرق سے مغرب میں 800 گز اور چوڑائی میں 300 گز پر پھیلا ہوا تھا جبکہ اس کی دیواریں 30 سے 35 فٹ تک بلند تھیں۔ یہ 1838ء کے ابتدائی مہینوں کا ذکر ہے جب جاڑے کے دن تھے اور موسم ہر طرح سے خوشگوار تھا۔ البتہ سندھ اور اس قلعے کے آسمان سے اچھے دن ویرانیوں میں بدلنے لگے تھے، جس طرح جاڑوں کے اختتام پر ٹھنڈے علاقوں سے آئے ہوئے پرندے جھیلوں کو ویران کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔ یہاں بھی اچھے نصیبوں کے دن پرندوں کی ڈاروں کی طرح غائب ہونے لگے تھے۔
اگر تاریخ کی تحریروں کو پڑھا جائے تو اس قلعے سے متعلق بہت ساری کہانیاں ملتی ہیں۔ ایسے ایسے لوگ آکر اس قلعے کے مہمان بنے کہ تاریخ جن کے ناموں سے جگمگاتی ہے۔ مگر وقت وقت کی بات ہے، اور اب یہ وقت آیا کہ قلعے کے رکھوالوں کی آنکھوں میں بے بسی کی ریت چمکتی ہے۔ اب خیرپور میرس کے میر، قلعے کے برجوں پر برطانوی سرکار کا جھنڈا جھولتا دیکھ رہے ہیں کہ اب کمپنی کی سرکار طاقت اور شاطرانہ چالوں سے اس پر قبضہ کرچکی ہے۔
دریائے سندھ کے اُس پار 18 ہزار کے قریب گوری سرکار کی فوج موجود ہے، جس میں 6 ہزار شاہ شجاع کا لشکر بھی ساتھ ہے۔ اس لشکر میں ایک ایسا سپاہی بھی موجود ہے جس نے اس پہلی افغانی جنگ میں حصہ لیا اور تمام واقعات کو قلمبند کرکے ’تاریخِ افغانستان و سندھ‘ نامی کتاب میں یکجا کیا۔ یہ محترم سید فدا حسین بخاری تھے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہندوستان میں بنائی گئی ’برٹش آرمی‘ میں ’جمعدار‘ تھے۔ وہ میرٹھ چھاؤنی سے لے کر ’انڈس لشکر‘ (بمبئی سے آنے والی برٹش فوج) کا حصہ رہے، جو پہلی اینگلو انڈین جنگ کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ چونکہ سید فدا حسین خود اسی جنگی لشکر میں شامل تھے اور جنگ کے اختتام تک زندہ سلامت رہے۔ ہم فی الوقت شاہ شجاع کے اقتدار پر بیٹھنے تک انہی صاحب کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔
یہ لشکر 3 نومبر 1838ء میں شاہ جہان آباد سے نکلا تھا۔ ابھی 3 منزلیں ہی طے کی تھیں کہ ’کالرا‘ کے مرض نے حملہ کیا اور 500 کے قریب سپاہیوں کی سانس کی ڈوریاں ٹوٹ گئیں۔ یہ شاید ایک پیغام تھا کہ مستقبل قریب میں کچھ اچھا نہیں ہونے والا تھا۔ مگر وقت کی دھیمی آواز حال کے شور میں کم ہی سنائی دیتی ہے۔ یہ جب ’فیروزپور‘ پہنچے تو ان سے ’لارڈ آکلینڈ‘ بھی دوسرے فوجی اٹالوں کے ساتھ آ پہنچا۔ جن میں: 16 نمبر ریجمنٹ، 7 نمبر لال کُڑتی ریجمنٹ، 3 نمبر تُرک سواروں اور گوروں کا رسالہ، 22 نمبر پلٹن (100 جوانوں پر مشتمل پیادہ فوج کا دستہ) کا ایک رسالہ (800 یا ہزار گُھڑ سوار فوج کا دستہ)، ہندوستانی و دیگر رسالے، اور 6 توپ خانے کے رسالے بھی شامل تھے۔
یہ لشکر فیروزپور سے باہر دریا کے کنارے ٹھہرا جہاں لاہور کا والی مہاراجا رنجیت سنگھ اور اس کا بیٹا کھڑک سنگھ 20 ہزار کے لشکر کے ساتھ آکر پہنچے اور رنجیت سنگھ نے ہر ایک فوجی کو ایک ایک روپیہ انعام میں دیا اور ساتھ میں لارڈ آکلینڈ کو ایک ہاتھی اور 7 شاندار نسل کے گھوڑے تحفے میں دیے، جو سونے کے نمائشی زیورات سے سجے ہوئے تھے۔
لارڈ آکلینڈ نے بھی اس کو بدلے میں ’گنگا‘ اور ’جمنا‘ نام کی توپیں تحفے کے طور پر دیں۔ رنجیت سنگھ زمانہ شناس انسان تھا اسے پتا تھا کہ حالات کو کس طرح اپنی طرف کرنا چاہیے کہ سونے اور آکاس بیل کا رنگ ایک جیسا اس لیے ہے کہ یہ دیکھنے میں کتنے بھی آنکھوں کو اچھے لگیں مگر جن کو بھی بھلے لگے ان کو نہ اِس دنیا کا چھوڑا نہ اُس دنیا کا۔ آکاس بیل اس درخت کو چاٹ جاتی ہے جس پر وہ پنپتی ہے۔ سونے کی کہانی بھی اس سے کچھ زیادہ الگ نہیں۔
کچھ پلٹنوں اور توپ خانوں کو یہاں چھوڑ کر باقی فوج گھوڑوں، اونٹوں اور بیلوں والے توپ خانے، عنقریب تخت نشین ہونے والے بادشاہ شاہ شجاع کے ساتھ مل کر بہاولپور کی طرف روانہ ہوئے۔ بہاولپور سے متعلق تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ، یہ ایک خوبصورت چھوٹا سا شہر ہے، جس کے بازار تازہ اور خشک میوے سے بھرے رہتے ہیں۔ یہاں جو باغات ہیں ان کی خوبصورتی کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہاں نواب بہاول خان کے بیٹے نے اس لشکر کا استقبال کیا اور کوشش کی کہ کمپنی بہادر کو اس سے کوئی شکایت نہ ہو۔ مگر لشکر میں شامل اونٹوں اور دیگر جانوروں نے ان کے باغات کا ستیاناس کردیا تھا۔
اس کے بعد وہ ’احمد پور‘ اور پھر ’خانپور‘ پہنچے اور پھر وہ وہاں سے ’روہڑی‘ کے لیے نکل پڑے۔ روہڑی آنے سے پہلے وہ ایک انتہائی گھنے جنگل میں پھنس گئے تھے۔ اس گھنے جنگل سے متعلق میں نے جب پنوں عاقل کے ادیب ڈاکٹر محمد علی محمدی صاحب سے پوچھا تو جواب آیا، ’اس لشکر نے ضرور کچے کا علاقہ (کچہ دریا کی کنارے والی اس زمین کو کہتے ہیں جہاں اکثر بارشوں اور پانی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے دریا کا پانی پھیل جاتا ہے۔ کچے کی زمین انتہائی زرخیز بھی ہوتی ہے کہ، جن دنوں کا ہم ذکر کر رہے ہیں ان دنوں ڈیم یا بیراج وغیرہ نہیں تھے تو دریائے سندھ میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ 150 ایم اے ایف سے بھی زیادہ پانی آتا تھا اور ساتھ میں وہ پانی اپنے ساتھ زرخیز مٹی بھی لاتا تھا۔ تو ان موسموں میں دریا کے بہاؤ کا پاٹ کئی میلوں تک بڑھ جاتا اور پھر جیسے دھیرے دھیرے پانی کم ہوتا جاتا تو اس زمین پر لئی، کیکر اور دوسرے درخت اُگ پڑتے اور اس طرح دریا کے دونوں اطراف گھنا جنگل وجود میں آجاتا) پار کیا ہوگا۔ خاص کر روہڑی سے پہلے یہ شاہ بیلو سے گزرے ہوں گے‘۔
اس گھنے جنگل نے اس لشکر کو بہت پریشان کیا۔ آخر وہ روہڑی پہنچے اور دریا کے کنارے پر چھاؤنی قائم کی کہ بمبئی سے آنے والی فوج جو ٹھٹہ، حیدرآباد، سیہون سے دریائے سندھ کے راستے آنی تھی اس کا انتظار کرنا تھا۔
یہ جنگی لشکر جب روہڑی پہنچا تو کتاب کا مصنف ہمیں بتاتا ہے کہ ’دریا کے کنارے روہڑی پہنچنے پر ہمیں پتا چلا کہ روہڑی کا حاکم میر رستم ہم سے جنگ کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے اور جزیرے پر جو ’بکھر‘ کا قلعہ ہے اسے وہ خالی کرکے، قلعے سے 4 میل دُور میدان میں 12 ہزار فوج کے ساتھ کیمپ لگا کر بیٹھا ہے۔ میر رستم کے حملے کا اتنا ڈر تھا کہ ایک رات ’بلونت ویر‘ جو 37 ریجمنٹ کا ایک سپاہی تھا اس سے غلطی سے بندوق کا فائر ہوگیا۔ فائر کے بعد اِدھر اُدھر بھاگنے کے بعد ہم نے پوزیشن سنبھال لی کہ حملہ ہوگیا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ ہمارے سپاہی کی غلطی کی وجہ سے اتنی پریشانی ہوئی۔ دوسرے دن جب انگریزوں نے قلعہ خالی دیکھا تو دریا پار کیا اور ساتھ میں کچھ توپیں بھی لے گئے اور قلعے پر قبضہ کرکے برجوں پر انگریز سرکار کے جھنڈے لگادیے اور قبضے کی خوشی میں طبل بجائے گئے'۔
مصنف چونکہ ایک سپاہی کی حیثیت رکھتا تھا تو جو فرنٹ لائن کے لوگ تھے جیسے لارڈ آکلینڈ یا اس کی ٹیم، ان کے کیے گئے فیصلے جب سپاہیوں تک پہنچتے تھے تو وہ واقعہ ہی گزر چکا ہوتا تھا۔ پھر باتیں جب کئی زبانوں کی گردشوں سے گزر کر ان تک پہنچتیں تو بہت سارے مصالحے ان باتوں کو لگ چکے ہوتے اس لیے بات میں حقیقت کم رہ جاتی اور لوگوں کی خواہشوں اور تمناؤں کے رنگ اور ذائقے زیادہ ہوتے۔ چنانچہ مصنف کے اس بیان میں کوئی صداقت نہیں کہ میر رستم 12 ہزار فوج کے ہمراہ اس لشکر سے لڑنے کے لیے انتظار میں تھا بلکہ مجبوری میں ہی سہی لیکن کمپنی کے ساتھ خیرپور ریاست کے تو بڑے اچھے مراسم تھے۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ اتنی بڑی فوج کی دریا کے کنارے چھاؤنی دیکھ کر میر رستم خیرپور میرس سے اپنے ساتھ بہت سارے شک و شبہات لے کر بکھر آیا۔ ان شبہات کو دُور کرنے کے لیے، لارڈ نے اس سے جاکر ملاقات کی، بات سمجھائی اور قصہ یہیں پر ختم ہوا۔
جب کمپنی نے دریائے سندھ پر لکڑی کا پُل بنایا تو وہ پُل دیکھ کر ہمارے مصنف کو انتہائی حیرت ہوئی تھی، بخاری صاحب لکھتے ہیں، ’یہاں اس جگہ پر دریا ایک سمندر کی طرح نظر آتا ہے۔ اس پر گورے صاحبوں نے لکڑی کا ایک شاندار پُل بنایا ہے۔ اس سمندر جیسی مستی والے دریا پر پُل بنانا کوئی مذاق نہیں ہے۔ ایسا پُل بنانے کا نہ افلاطون سوچ سکتا ہے اور نہ ارسطو، مطلب اس پُل کو دیکھ کر انسان حیران ہوجاتا ہے کہ ایسا کمال بھی کیا جاسکتا ہے؟اور یہاں دریا کی گہرائی سے متعلق بھی سن لیں. دریا کی گہرائی ناپنے کے لیے 2 بڑے ہاتھی دریا میں اتارے۔ کچھ پلوں میں پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کس گرداب میں جاکر گم ہوگئے۔ پُل کا تختہ بھی ان ہاتھیوں کے وزن کی وجہ سے ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے 6 فوجی گھوڑوں سمیت دریا میں جا گرے۔ ان کا بھی نام و نشان نہیں ملا۔ ہمارا لشکر اس حیران کردینے والے پُل سے گزر کر شکارپور کی طرف روانہ ہوا‘۔
شکارپور شہر کی خوبصورتی اور خوشحالی کی مصنف تعریف کرتے ہیں۔ اس سفر میں یہ آخری اچھا شہر تھا جو انہوں نے دیکھا۔ اس کے بعد ان کے راستے میں قندھار سے پہلے کوئی شہر نہیں آنا تھا۔ البتہ کوٹ اور قلعے ضرور آنے تھے جہاں مقامی لوگ گھات لگائے بیٹھے تھے۔ یہ لشکر بولان اور جوچک لک کی طرف بڑھے۔ 2 منزلیں عبور کرنے کے بعد ان کو پتا لگا کہ ’آگے ’میر مجنوں‘ نامی ایک میدان ہے جو 60 میل پر محیط ہے۔ جہاں نہ پانی ہے نہ کوئی خوراک ملنے کی امید ہے، بلکہ اس میدان میں گھاس کا تنکا تک نہیں اُگتا۔ اس وجہ سے اس لشکر نے اپنا راستہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کو حکم ملا کہ ’دیروں‘ والے راستے سے ہوکر ’ڈھاڈھر‘ پہنچنا ہے۔
کچھ میلوں کے فاصلے کے بعد یہ ’خان گڑھ‘ (جیکب آباد) قلعے کے قریب پہنچے تو قلعے سے گولی چلی جس سے ان کا ایک اہم افسر مارا گیا۔ اس پر ٹیم کے اہم افسروں ’پوسٹن‘ اور ’برونی‘ نے فیصلہ کیا کہ بلوچوں سے اس قلعے کا قبضہ لیا جائے۔ لہٰذا توپیں چلیں، بلوچ مارے گئے اور قلعہ پر قبضہ کرلیا گیا اور رات لشکر نے اس قلعے میں گزاری۔
اگلی صبح یہ 28 میل چل کر ایک چھوٹے سے قلعے تک پہنچے، جہاں کا سردار خان محمد تھا۔ اس کے بعد 16 میل کا سفر کرنے کے بعد ’شاہ پور‘ نامی بستی میں پہنچے، جہاں پانی وافر مقدار میں تھا اور انسانوں اور جانوروں نے سیر ہوکر پانی پیا۔ رات کو یہ 20 میل کا فاصلہ طے کرکے سردار خان بلوچ کی بستی تک پہنچے، جہاں ان کو خوراک اور جانوروں کو دانہ پانی ملا۔ انہوں نے وہیں رات گزاری۔ اگلے دن خان بلوچ نے ان کو ڈھاڈھر کا راستہ سمجھایا۔ یہ لشکر سبی تک تو آرام سے پہنچا مگر سبی سے ڈھاڈھر تک کے راستے میں بلوچوں نے ان کو بہت پریشان کیا۔ ڈھاڈھر میں یہ کچھ دن رہے اور آرام کیا۔ پھر آگے کے راستے کے لیے ڈھاڈھر سے گھاس، لکڑیاں اور کھانے کا سامان خرید کر اونٹوں پر لادا اور ’بولان لک (دَرہ)‘ میں داخل ہوئے۔
خان گڑھ کے بعد زمینی لینڈاسکیپ بالکل بدل جاتا ہے۔ ہریالی کی جگہ مٹیالی پہاڑیاں اور پتھریلی زمین لے لیتی ہے۔ اس وجہ سے بارشی گزرگاہوں کے اطراف کے سوا کہیں ہریالی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ہاں اگر کوئی آبشار مل جائے تو اس کے قریب چھوٹی سی آبادی بھی مل جاتی ہے۔ مگر ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ جو آنکھیں اس لینڈاسکیپ کی عادی نہیں ہوتیں ان کے لیے یہ انتہائی کٹھن راستہ ہے۔ ایک جنگی لشکر ویسے بھی مسلسل اس ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے کہ کہیں سے کوئی اچانک ان پر حملہ نہ کردے۔ خاص کر یہ دباؤ عام سپاہی کے لیے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ اس پر میلوں کا پیدل سفر کی تھکان، آرام اور خوراک کی کمی اس ذہنی دباؤ کی کیفیت میں شامل ہوجاتی ہے تو زندگی آسان نہیں رہتی۔
انسان ایک حد تک تو یہ سارا بوجھ برداشت کرسکتا ہے لیکن صورتحال مسلسل ایسی ہی رہے تو محبتیں، عنایتیں اور ہمدردیاں، فاختاؤں کی مانند اڑ جایا کرتی ہیں۔ ذہن میں باقی تناؤ بچتا ہے۔ شاید جنگ کے میدان تب ہی سجتے ہیں جب یہ کیفیت ہو۔ یہ قافلہ بھی کچھ اسی کیفیت سے گزر رہا تھا اور جیسے جیسے سفر آگے بڑھتا جاتا، حالات مزید سخت سے سخت ہوتے جا رہے تھے۔
مصنف تحریر کرتے ہیں، ’ہم بولان دَرے میں داخل ہوئے، اس راستے میں کسی آبادی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ مگر پانی کی بڑی فراوانی ہے یہاں۔ بلوچ قبائل پہاڑوں پر آباد تھے اور ہم پر گولیاں برسا رہے تھے۔ ان سے لڑتے ہم دَرے سے باہر نکلے۔ ہزاروں اونٹ اور ہاتھی، سامان کے بوجھ کی وجہ سے تھک چکے تھے اور بہت سارے مر بھی گئے۔ ان جانوروں کے مرجانے سے بہت سارا سامان بلوچوں کے ہاتھ لگا اور ساتھ میں ہمارے بہت سے لوگ نقاہت کی وجہ سے گرتے اور پھر اٹھ نہ سکتے تو بلوچ ان کو مار دیتے۔ آخر سخت اور مشکل حالات سے گزر کر ایک ماہ کے بعد ہم ’شال کوٹ‘ (کوئٹہ) پہنچے، یہ علاقہ قلات کے نواب کی حکمرانی میں آتا ہے'۔
شال کوٹ میں شاید انتظامی معاملات پر کمپنی کے افسروں کی آپس میں تلخ کلامی ہوئی تھی۔ بخاری صاحب لکھتے ہیں، ’آج ممبئی اور دہلی فوج کے کمانڈروں کی آپس میں تلخ کلامی ہوئی، جس کی وجہ سے کمانڈر اِن چیف، جنرل فین، بمبئی والا راستہ لے کر واپس چلے گئے۔ اب سر جان کین جنگی لشکر کا نیا کمانڈر اِن چیف ہے'۔
اس واقعے کے بعد لشکر کے لیے خوراک کی کمی کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ سپاہیوں کو روز فقط آدھا کلو آٹا دیا جاتا تھا جبکہ بقیہ مزدوروں کو ایک پاؤ ملتا تھا۔ جانوروں کا چارہ بھی بند کیا گیا۔ ایسے مشکل حالات میں یہ سفر بڑی مشکلات کے ساتھ جاری رہا۔ لشکر نے شال کوٹ کی مشکل ترین پہاڑیوں کو پار کیا اور آگے ایک نہر کے کنارے اپنی چھاؤنی قائم کی۔ یہاں بھی ان کو خبر ملی کہ ’کہندل خان‘ جو اس وقت قندھار کا نواب تھا، اپنی فوج سمیت قندھار سے نکل آیا ہے اور پہاڑیوں کی اوٹ میں کیمپ قائم کردیے ہیں۔ کہندل خان نے اس نہر کا پانی بھی بند کردیا جو وہاں سے اس طرف بہتی تھی۔ آخرکار یہاں سے کچھ سپاہی وہاں گئے اور نہر کو دیا ہوا بند توڑا اور پانی کو جاری کیا۔
یہاں بھی کچھ غلط خبریں ان تک پہنچیں جس طرح روہڑی میں ہوا تھا۔ کہندل خان کی کوئی فوج ان کا انتظار نہیں کر رہی تھی۔ نہر پر بند اس کے کچھ آدمیوں نے باندھا تھا بس۔ بالآخر لشکر قندھار کے لیے نکل پڑا اور 6 منزلوں کے بعد قندھار پہنچا۔ قندھار کا قلعہ خالی پڑا ہوا تھا۔ انگریزوں نے فوج سے سلامی لے کر کامیابی کے طبل بجائے اور قلعے پر اپنا جھنڈا لگادیا کیونکہ، کہندل خان، رحم دل خان اور پردل خان جو تینوں بھائی تھے وہ اس لشکر کی خبر سن کر قندھار چھوڑ کر ’گرشک‘ کے قلعے کی طرف چلے گئے تھے۔ جب ایک پلٹن ان کا پیچھا کرتے اس قلعے تک پہنچی جو قندھار سے 200 میل دُور ہرات کی طرف تھا۔ وہ لوگ اس قلعے سے بھی بھاگ کر ایران کی طرف چلے گئے تھے۔ اس وقت ہرات کا والی، شاہ شجاع کا بھتیجا ’شاہ کامران‘ تھا اس لیے قندھار سے لائی گئی توپیں اس کے حوالے کی گئیں۔
ہمارا مصنف اب قندھار کے قدیم شہر کی گلیوں میں گھومتا پھرتا ہے کہ شکارپور کے بعد اس نے اگرچہ بہت بڑا نہیں لیکن شہر تو دیکھا۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں، ’قندھار اچھا شہر ہے مگر یہاں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ گندم کے آٹے اور چاولوں کو تو جیسے آگ لگی ہوئی ہے۔ اتنے مہنگے کہ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مگر آلو بخارے اور زَردالو اتنے سستے ہیں کہ ایک ٹکے میں 2 کلو ملتے ہیں۔ ہمیں ان پر گزارا کرنا پڑا۔ بڑے مشکل دن تھے۔ آٹے اور چاول کا کچھ نعم البدل نہیں ہے۔
'آخر 10 دنوں کے بعد انگریز سرکار نے فیصلہ کیا اور تخت جیسا مٹی کا ایک چبوترہ تیار کروایا، اور بادشاہی رسم ادا کرکے شاہ شجاع کو تخت پر بٹھایا گیا۔ پوری انگریز فوج اور بادشاہی فوج کو تیار کرکے بندوقوں اور توپوں سے سلامی لی گئی اور شاہ شجاع کی حکومت کا اعلان کیا گیا۔
'جیسے ہی حکومت کا اعلان ہوا تو اس کے ساتھ لاکھوں روپے خرچ کرکے فوج کو خوراک اور ضرورت کی دیگر اشیا وافر مقدار میں فراہم کی گئیں۔ اس عمل سے یہاں کے لوگوں کے پاس پیسہ آیا تو ساتھ آسودگی بھی آئی، کچھ ہفتے پہلے جو حالات تھے، وہ بالکل تبدیل ہوگئے۔ یہاں کے لوگ رنگ کے سفید ہیں مگر ان کے کپڑے میلے، شکل عجیب سی ہے۔ یہاں کے مرد اکثر ٹھگ اور بے لغام ہیں، ان کو کچھ پتا نہیں کہ کس طرح بات کرنی چاہیے۔ یہاں کی کچھ بزرگ ہستیاں جو کئی برسوں سے تنگ دستی کی زندگی گزار رہے تھے، مگر جب گوری سرکار نے ان پر اپنی شفقت کا ہاتھ رکھا تو وہ قندھار کے معززین کہلانے لگے۔
'قندھار شہر میں ’احمد شاہ درانی‘ کی درگاہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ قندھار میں داخل ہونے کے لیے 4 دروازے ہیں اور قلعہ پہاڑی پر ہے جو عاد قوم والوں کا بنایا ہوا ہے۔‘
اب تاریخ سے پوچھنا پڑے گا کہ یہ قلعہ کیا واقعی عاد قوم نے بنایا تھا؟
بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے۔ اب ہمارے مصنف کا لشکر ’غزنی‘ کی طرف جانے کی تیاریاں کر رہا ہے جو قندھار اور کابل کے بیچ میں ہے۔ یہ قافلہ یہاں سے خوشی خوشی روانہ ہوا ہے مگر ان کو پتا نہیں کہ آنے والا وقت ان کے لیے بہت کٹھن ہے۔ ہم فی الحال اپنے ساتھی فدا حسین بخاری سے اس یقین کے ساتھ جُدا ہو رہے ہیں کہ ہم ان سے جلد آکر ملیں گے کہ ابھی اس پہلی اینگلو افغان جنگ کا اختتام نہیں ہوا ہے۔
حوالہ جات:
’تاریخ سکھر‘۔ رحیمداد مولائی شیدائی، 2005ء، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
’تاریخ افغانستان و سندھ‘، مرتب کردہ میر اشرف علی گلشن آبادی۔1845ء، بمبئی
’تاریخ افغانستان‘ (جلد اول)۔ مولانا محمد اسماعیل ریحان، المناھل پبلشر، کراچی
Army of The Indus: In the expedition to Afghanistan, By: Major W.Hough, 1841, London
The Lure of The Indus, By: L.G Sir George MacMunn, 1933, London
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
تبصرے (11) بند ہیں