کیا پاکستان واقعی ویکسین کے ٹرائل سے ڈالر کمارہا ہے؟
'میں کہتا تھا ناں سب ملے ہوئے ہیں، پیسے بنا رہے ہیں، سب کو عالمی طاقتیں کورونا پھیلانے کے پیسے دے رہی ہیں، یہ سب سازش ہے'، ہمارے دوست میاں سلیم جذبات کے عالم میں کمرے کا دروازہ تقریباً توڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور فلمی ہیرو کے انداز میں ماسک دوسری جانب پھینک دیا۔
میں نے کہا، 'بھائی ہوا کیا؟ اتنے جذبات اور پھر ایسی تقریر'۔
کہنے لگے، 'آپ نے خبر نہیں دیکھی؟ قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) اسلام آباد کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر نے خود ہی بتا دیا کہ پاکستان ویکسین کے ٹرائل سے ڈالر کمارہا ہے'۔
میرے چہرے پر ایک دم مسکراہٹ دوڑ گئی۔ سلیم میاں تو مسلسل بولتے رہے لیکن میری سوئی ویکسین کے ٹرائل اور ڈالر کی کمائی پر ہی اٹک گئی۔ سلیم میاں کا سرخ چہرہ سامنے تھا اور سوالات کی یلغار تھی۔
اگر ویکسین کے ٹرائل سے اتنی کمائی ہوسکتی ہے تو پھر پاکستان نے اس سے پہلے یہ کمائی کا موقع کیوں ہاتھ سے جانے دیا؟ پاکستان میں برطانیہ اور امریکا کی ویکسین کے ٹرائل کیوں نہیں ہوئے؟ کیا دنیا نے صرف پاکستان کو تجربہ گاہ بنایا؟ سوال در سوال تھے اور اب جواب حاصل کرنا نہایت ضروری تھا۔ ابھی اسی سوچ میں تھا کہ پھر سلیم میاں کی زوردار آواز سماعتوں تک پہنچی، 'یہ ڈیلٹا وغیرہ بھی سب کمائی کے دھندے ہیں'۔ یوں میری سوچوں میں مزید ایک موضوع کا اضافہ ہوگیا اور ان سب موضوعات کو بہتر انداز میں سمجھنے کی ٹھان لی۔
مزید پڑھیے: جب کورونا ویکسین سیاست کی نذر ہوگئی
سلیم میاں کی باتیں تو سن چکے، چلیے اب ویکسین کے ٹرائل، افادیت اور ڈیلٹا کے موضوعات کو ماہرین کی زبانی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کیا پاکستان نے واقعی ڈالر کمانے کے لیے ویکسین کے ٹرائل کروائے؟
اس سوال کا مختصر جواب ہے 'نہیں' ایسا بالکل نہیں ہے۔ تو پھر پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک ویکسین کے لیے تجربہ گاہ بنتے ہوں گے؟ اس کا جواب بھی ہے 'نہیں'۔
پاکستان میں کورونا ویکسین کے ٹرائل کیوں ہوئے یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ماہرین سے ان سوالوں کے جوابات لیے جائیں کہ کورونا سمیت کسی بھی مرض کی ویکسین کے ٹرائل ہوتے کیوں ہیں، کون کرتا ہے، کتنا وقت درکار ہوتا ہے وغیرہ۔ اس کے بعد ہی کورونا ویکسین کے پاکستان میں ٹرائل کی وجہ آسانی سے سمجھ آئے گی۔
ویکسین کیا ہے؟ انسانی استعمال سے قبل ویکسین کن مراحل سے گزرتی ہے؟
پولیو ویکسین، ریبیز سے بچاؤ کی ویکسین، خسرہ اور چیچک کی ویکسین، ٹائیفائید ویکسین، پیدائش کے بعد بچوں کو لگنے والے حفاظتی ٹیکے (ویکسین) یہ تمام الفاظ پاکستانیوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے کی لفظ ویکسین سے پرانی واقفیت ہے، ویکسین کا استعمال متعلقہ بیماری سے پیشگی بچاؤ کے لیے ہوتا ہے یا سادہ الفاظ میں کہیں تو ویکسین ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کو دوستانہ انداز میں متعلقہ بیماری کے ممکنہ حملے سے متعلق آگاہ کرکے اسے پہلے سے تیار کرلیتی ہے۔
بیماری اور اس کے خلاف مدافعت کے طریقے کی شناخت ہونے کی وجہ سے انسانی جسم متعلقہ بیماری کے خلاف نسبتاً آسانی سے مدِمقابل ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں جب بھی کبھی بیمار کرنے والا جراثیم یا وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو ویکسین کی مدد سے پہلے سے تیار مدافعتی نظام بہتر انداز میں جراثیم سے مقابلہ کرتا ہے۔ ویکسین ہمارے جسم میں بیماری کے خلاف مدافعت کی پہلی دیوار ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے: کورونا ویکسین سے متعلق پوچھے جانے والے اکثر سوالات کے جواب
عالمی ادارہ صحت نے ویکسین کی تیاری کے مراحل متعین کیے ہوئے ہیں اور اسی کے مطابق کورونا اور دیگر امراض کی ویکسین تیار کی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے لیبارٹری میں بیماری کے وائرس یا جراثیم کی شناخت کی جاتی ہے کہ وہ کس شکل کا ہے؟ جراثیم کی کس فیملی سے تعلق رکھتا ہے؟ اور یہ کہ اس کے ڈی این اے کا کون سا حصہ ایسا ہے جو جسم کو نقصان پہنچائے بغیر اینٹی باڈیز تیار کرنے کے قابل ہوسکتا ہے؟
تمام معلومات اور مشاہدات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ویکسین تیار کی جاتی ہے اور پھر لیبارٹری میں ہی مختلف جانوروں پر اس کا تجربہ کیا جاتا ہے۔ اس دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ ویکسین لگانے کے بعد جانور میں کیا تبدیلی آئی، اس نے بیماری کے خلاف کتنی مزاحمتی قوت حاصل کرلی ہے اور اس سے کس حد تک نقصان یا فائدہ ہوا۔ جانور کے جسم پر کیے جانے والے تجربے کی بنیاد پر انسانی جسم کا ردِعمل جاننے کے لیے ایک ایسی ویکسین تیار کرلی جاتی ہے جس سے انسانی جسم کو کم سے کم نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔ اب ویکسین کو 3 مراحل سے گزرنا ہے جس کے بعد ویکسین انسانی استعمال کے لیے محفوظ قرار پائے گی۔
ویکسین کی تیاری کے وقت اس بات کی بھی تسلی کی جاتی ہے کہ ویکسین اینٹی باڈیز بنانے کے ساتھ کسی دوسرے عضو کو نقصان نہ پہنچاتی ہو۔ آخری مرحلہ ویکسین کے استعمال کی اجازت کا ہوتا ہے جو ہر ملک اپنے قوانین کے مطابق دیتا ہے، جیسے پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) ویکسین سمیت ہر قسم کی ادویات کے پاکستان میں استعمال کی منظوری یا نامنظوری کا اختیار رکھتی ہے۔
ویکسین کے استعمال سے قبل 3 مراحل میں سب سے پہلے رضاکاروں کے مختصر گروپ کو ویکسین لگا کر انسانی جسم کا ردِعمل معلوم کیا جاتا ہے۔ فیز ون کے اس ٹرائل سے 3 باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ ویکسین انسان کے لیے کس حد تک نقصان دہ رہی، بیماری کے خلاف کتنی حفاظتی مدافعت پیدا ہوئی اور انسانی جسم کے لیے ویکسین کی کتنی مقدار کافی ہوسکتی ہے۔
بعدازاں دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں رضاکاروں کی تعداد بڑھائی جاتی ہے اور ویکسین شدہ رضاکاروں میں ظاہر ہونے والے کسی قسم کے منفی اثرات کا بہت باریکی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ویکسین شدہ اور غیر ویکسین شدہ رضاکاروں میں بیماری کے خلاف مزاحمت کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں ہزاروں رضاکاروں کو ویکسین کی خوراک دینے کے بعد ان کا قریبی مشاہدہ کرکے اعداد و شمار جمع کیے جاتے ہیں تاکہ اس پر مزید تحقیق کی جاسکے۔
تمام مراحل میں سب سے زیادہ خیال اس بات کا رکھا جاتا ہے کہ انسانی جان کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ ان تمام ٹرائلز میں عمومی طور پر 3 سے 4 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ مکمل تسلی کے بعد ویکسین دنیا کے لیے دستیاب کردی جاتی ہے اور مختلف ممالک متعلقہ اداروں کی منظوری کے بعد اس کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ اس دوران بھی ویکسین ساز کمپنیاں ویکسین کی مستقل افادیت اور انسانی جان کی حفاظت کے پیش نظر اپنے ماہرین کے ذریعے صورتحال کا جائزہ لیتی رہتی ہیں۔
ویکسین کے ٹرائل کہاں ہوتے ہیں؟
ویکسین کا ٹرائل انتہائی حساس معاملہ ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی انسانی جانوں کے لیے نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ عمومی طور پر دنیا کے بڑے ادویہ ساز ادارے اس کام میں شامل ہوتے ہیں اور ٹرائل اسی ملک میں ہی ہوتا ہے جہاں کے لیے ویکسین بنائی جا رہی ہو یا پھر جہاں بیماری موجود ہو۔
ٹرائل کے لیے انتہائی ذمہ دار اور اپنی مرضی سے شامل ہونے کے لیے تیار 'رضاکار' منتخب کیے جاتے ہیں۔ رضاکاروں کو باقاعدہ ایک نظام کے تحت منتخب کیا جاتا ہے اور ان کی ذہنی اور جسمانی فٹنس کا مکمل جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس بات کی بھی تسلی کی جاتی ہے کہ انتخاب کے مرحلے میں رضاکاروں کی جانب سے کسی قسم کی شکایت رپورٹ تو نہیں ہوئی ہے۔ ٹرائل کے مراحل میں اس بات کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ رضاکار اپنی مرضی سے ٹرائل کا حصہ بن رہا ہے اور یہ کہ وہ اپنی ذہنی یا جسمانی حالت کے حوالے سے کوئی غلط بیانی نہیں کر رہا ہے۔
مزید پڑھیے: کورونا وائرس کی نئی اقسام ایک دوسرے سے کتنی مختلف ہیں؟
ایک خاص قسم کے پلاسیبو ٹرائل میں یہ بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ کہیں رضاکار کسی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوکر تو ویکسین کے کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کر رہا، یہ جاننے کے لیے کچھ لوگوں کو ایسی دوائی دی جاتی ہے جو صرف میٹھی گولی ہوتی ہے۔ بہت سی ادوایات اور ویکسین کا تجربہ سب سے پہلے لیبارٹری کے ورکر اپنے ہی اوپر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اور اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ خود بیماری کی اصل وجوہات سے واقف ہوتے ہیں۔
یہ عوامل اسی معمول کے تحت برسوں سے جاری ہیں اور کبھی اس حوالے سے تشویش کا اظہار شاید اس لیے نہیں ہوا کہ عام آدمی سے ان کا براہِ راست تعلق نہیں رہا۔
کورونا ویکسین کے ٹرائل پاکستان میں کیوں ہوئے؟
چونکہ کورونا نے پوری دنیا کو تیزی سے لپیٹ میں لیا اس لیے انسانیت کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ضروری تھا کہ جلد از جلد کوئی ایسا بندوبست کیا جائے جس سے مزید نقصان نہ ہو۔ چین نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ویکسین ٹرائل کیے جن میں روس، انڈونیشیا، برازیل، متحدہ عرب امارات، ترکی، مصر، ارجنٹینا سمیت بہت سے ممالک شامل ہیں۔
عام حالات میں صحت کے عالمی اداروں کے لیے یہ عمل قابلِ قبول نہیں ہوتا کہ اس قدر عجلت میں ٹرائل کیے جائیں لیکن دوسری طرف سنگین صورتحال کا تقاضا تھا لہٰذا پاکستان سمیت بہت سے ممالک کا انتخاب کیا گیا تاکہ جلد از جلد نتائج مرتب کیے جاسکیں ورنہ دوسری صورت میں رضا کاروں کے انتخاب میں ہی کافی زیادہ وقت ضائع ہوجاتا۔ ویسے بھی پاکستان میں زیادہ تر تیسرے فیز کے ٹرائل کیے گئے یعنی یہاں آزمائی جانے والی ویکسین گزشتہ تجرباتی مراحل میں پہلے ہی حفاظت کے کئی اصولوں پر کامیابی سے پورا اتر چکی تھی۔
پاکستان میں تجربہ، ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ویکسین کے ٹرائل کو پاکستان کے تناظر میں سمجھنے کے لیے مقامی ماہرینِ طب سے بات کرنا نہایت ضروری ہے۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کی زیرِ نگرانی بھی کورونا ویکسین کے ٹرائل ہوچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ 'ڈالروں' کی خاطر کسی قسم کا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ وہ رضاکار ہوتے ہیں جو انسانیت کی خاطر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں نیز یہ کہ پاکستان میں صرف ویکسین ہی نہیں ادویات کے ہزاروں ٹرائل مکمل ہوچکے ہیں اور وہ خود بھی بہت سے ٹرائلز کا حصہ اپنی مرضی سے بنتے رہے ہیں۔ یہ عمل دنیا بھر میں ہوتا ہے اور ادویہ ساز کمپنیاں اپنی مرضی سے ٹرائل کے لیے ملک کا انتخاب کرتی ہیں اور عمومی طور پر وہی ملک منتخب ہوتا ہے جہاں اس کمپنی نے دوائی یا ویکسین مارکیٹ کرنی ہوتی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی دوائی پاکستان کے لیے ضروری نہیں ہے یا کمپنی پاکستان میں اس دوا کو مارکیٹ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تو پھر اس کا ٹرائل بھی پاکستان میں نہیں کیا جائے گا‘۔
ڈاکٹر جاوید اکرام کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ٹرائلز سے قبل بیسیوں منظوریاں درکار ہوتی ہیں اور ایک ایک چیز کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے، نیز یہ بھی کہ مختلف عالمی محقق اور عالمی اداروں کے اہلکار بار بار نہ صرف ٹرائلز کے عمل کی شفافیت کا جائزہ لیتے ہیں بلکہ مرتب کردہ ڈیٹا کی سخت جانچ پڑتال بھی کرتے ہیں‘۔
ڈاکٹر جاوید کے مطابق ’یہ 100 فیصد ایک سائنسی عمل ہے اور کسی قسم کی سازش یا کسی خاص قوم پر تجربے کی بات کرنا سراسر کم عقلی ہے‘۔
'پاکستان نے ڈالر کمالیے' جیسی باتوں کے معاملے پر ڈاکٹر صاحب کچھ دیر ہنستے رہے اور پھر کہا کہ بھائی رضاکار کو معمولی سی رقم دی جاتی ہے، ریاست کا اس سے کیا تعلق۔
مزید پڑھیے: آخر ڈیلٹا کورونا کی سب سے زیادہ تشویشناک قسم کیوں تصور کی جارہی ہے؟
ڈاکٹر فیصل محمود آغا خان ہسپتال کراچی کے شعبہ متعدی امراض (انفیکشن ڈیزیز) کے سربراہ ہیں اور عالمی ادارہ صحت کے مختلف پروگرامز کا حصہ بھی ہیں۔ یاد رہے کہ کراچی میں کورونا ویکسین کا ٹرائل آغا خان ہسپتال میں بھی کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فیصل محمود نے ہمارے سلیم میاں والے سوالات کی بوچھاڑ کو سن کر بڑے تحمل سے ان کے جوابات دیے۔ ڈاکٹر فیصل محمود کا کہنا تھا کہ ’کورونا ویکسین کے ٹرائل پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں کیے گئے جس کا مقصد دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک سے ڈیٹا کا حصول اور جلد و بہتر ویکسین کی تیاری تھا‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’آغا خان ہسپتال مختلف ادوایات کے ٹرائلز میں عمومی طور پر حصہ لیتا رہتا ہے۔ ویکسین ٹرائلز کا مرحلہ انتہائی کٹھن ہوتا ہے جس میں ہر پہلو کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔ بار بار داخلی اور بیرونی آڈٹ ہوتا ہے جس کے ذریعے یہ پتا لگایا جاتا ہے کہ کیا رضاکار ٹرائل سے متعلق تمام تر صورتحال سے آگاہ ہے؟ کہیں ویکسین سے پیدا ہونے والی کسی ممکنہ پیچیدگی کو رضاکار سے چھپایا تو نہیں گیا تھا؟ یہاں تک کہ پوری لاگ چین کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ کس نے نمونے لیے، کب لیے اور کہاں رکھے گئے اور ایسی دیگر تمام باتوں کو نوٹ کیا جاتا ہے۔ اگر آڈیٹر کو شک گزرتا ہے کہ کہیں کسی قسم کی کوتاہی برتی گئی ہے تو پورے عمل کو روک دیا جاتا ہے‘۔
ڈاکٹر فیصل نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’ٹرائل کروانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ کمپنی یہاں تک جائزہ لیتی ہے کہ ہسپتال یا ٹرائل والے ادارے کی اپنی ساکھ کسی بھی ضمن میں خراب نہ ہو۔ اس کے علاوہ ٹرائل کے لیے عملے کو مکمل ٹریننگ بھی کروائی جاتی ہے۔ کورونا ویکسین ٹرائل کے دوران چین کی ڈرگ اتھارٹی نے پاکستان کے متعدد سرپرائز وزٹ بھی کیے اور پوری تسلی کرنے کے بعد ہی صرف مستند ڈیٹا استعمال میں لایا گیا۔
ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ ’تحقیق کی مزید راہیں کھولنے کے لیے پاکستان کو درست ٹرائل سے متعلق اپنی ساکھ بہتر بنانی ہوگی جو اس وقت کافی کمزور ہے۔ یعنی ٹرائل کے لیے سب سے اہم بات درست ڈیٹا کا ہونا ہے، کیونکہ اسی کی بنیاد پر ہی آگے سارے معاملات طے کیے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان سے تیسری دنیا کے ممالک میں اس حوالے سے کافی خرابی محسوس کی جاتی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’کسی بھی ملک کے لیے اس طرح کے ٹرائل بہتر ہوتے ہیں کیونکہ جو دوائی یا ویکسین کسی ملک میں استعمال ہونی ہے، اگر اس ملک سے متعلق باڈی ٹیمپریچر ہی معلوم نہ ہو تو خرابی کے امکان بڑھ جاتے ہیں‘۔
ویکسین کا معاملہ تو شاید آپ کو کسی حد تک سمجھ آ ہی گیا ہوگا، اب سلیم میاں نے جس طرح ڈیلٹا ویلٹا کہہ کر وائرس کی نئی قسم کو کمائی کا دھندہ ثابت کرکے تحقیق پر مجبور کیا اس کو بھی مختصر سمجھ ہی لینا چاہیے۔
وائرس اپنی ساخت کیسے اور کیوں بدلتا ہے؟
پاکستان میں کورونا وائرس کی سب سے پہلی لہر چین سے شروع ہونے والے وائرس کی تھی جسے اب وائلڈ وائرس بھی کہا جاتا ہے۔ اب جس ملک میں وائرس کی تبدیلی کا پہلی بار پتا چلتا ہے اس ملک کو وائرس کی نئی قسم سے منسوب کردیا جاتا ہے۔
پاکستان میں دوسری اور تیسری لہر میں وائرس کے بہت سے اقسام پائے گئے جیسے برطانیہ کا الفا قسم، جنوبی افریقہ کا بیٹا قسم اور برازیل کا گاما پایا گیا جبکہ چوتھی لہر میں ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کا ڈیلٹا قسم سب سے زیادہ پایا جا رہا ہے جس کی شدت اور پھیلاؤ کی رفتار گزشتہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
دراصل یہ تمام اقسام وائرس میں ہونے والی جنیاتی تبدیلی کے نتیجے میں وجود میں آتی ہیں، ایسی تبدیلی وائرس اور بیکٹریا کی دنیا میں عام ہے اور ہمیشہ ہی ایسا ہوتا رہا ہے، اسی لیے ویکسین و ادوایات میں ہر کچھ عرصے بعد تبدیلی کی جاتی رہی ہے۔ مثلاً اس وقت مختلف بیماریوں کے لیے تھرڈ جنریشن اینٹی بائیوٹک استعمال ہوتی ہے جبکہ آج سے 10 سے 12 سال پہلے استعمال ہونے والی فرسٹ یا سیکنڈ جنریشن اینٹی بائیوٹک کا استعمال ترک کردیا گیا۔ اس کی 2 وجوہات ہیں: پہلی وجہ بیکٹیریا کی ساخت میں تبدیلی اور دوسری وجہ ماحول میں پیدا ہونے والے نئے بیکٹیریا تھے، ان دونوں وجوہات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ویکسین اور دوا کو مؤثر بنانے کے لیے فارمولے میں تبدیلی کردی گئی۔
ہم نے مختلف طبّی ماہرین سے وائرس میں تبدیلی کے بارے میں پوچھا۔ ان میں ممتاز ماہرِ امراض خون اور اسلام آباد کے کلثوم انٹرنیشنل ہسپتال سے منسلک برگیڈیئر (ر) ڈاکٹر نادر علی، وزیرِ اعلیٰ سندھ کی کورونا ٹاسک فورس کے ممبر اور ڈاؤ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سعید خان، انڈس ہسپتال کراچی کے پلمونولوجسٹ ڈاکٹر سہیل اختر شامل ہیں۔ ان سے ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں صورتحال مزید واضح ہوئی۔
کسی بھی وائرس کا مقصد کسی جاندار کے جسم میں داخل ہونے کے بعد تیزی سے اپنی نقل بنانا ہے۔ اس دوران اس جاندار کے امیون سسٹم یعنی قوتِ مدافعت سے وائرس کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ امیون سسٹم باہر سے آنے والے ناپسندیدہ مہمان کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے، دوسری طرف وائرس اپنی نقول بنانے کی جدوجہد بھی جاری رکھتا ہے۔ اس جنگ میں وائرس خود کو پہنچے نقصان کی مرمت کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اس عمل کے دوران بعض اوقات کوئی اور وائرس یا اس جسم کا کوئی اور دشمن بھی وائرس کا مددگار بھی بن سکتا ہے اور یہی مددگار جب وائرس سے ملتا ہے تو اس کے نتیجے میں وائرس ایک نئی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
مزید پڑھیے: مختلف ممالک میں سائنو ویک ویکسین نے کووڈ کی روک تھام کو کیسے ممکن بنایا؟
جنیوم سیکوینس نامی طریقے کے ذریعے وائرس کے نیکولک ایسڈ میں پائی جانے والی ترتیب میں تبدیلی کو دنیا بھر کے ماہرین انٹرنیشل جینیٹک لائبریری سے شیئر کرتے رہتے ہیں اور اس طرح ہر ملک کے ماہرین اس وائرس کے نیوکلک ایسڈ میں پائے جانے والے سیکونس کی ترتیب میں تبدیلی سے یہ معلوم کرلیتے ہیں کہ وائرس کس طرح اپنی شکل بدل رہا ہے۔
اس طرح کی تبدیلی وائرس کو خوفناک بھی بنا رہی ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات پھیلاؤ کے دوران وائرس میں ایسی تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں جو اسے بے ضرر بنا دیتی ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سعید خان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ وائرس کو بے ضرر کرنے والی تبدیلی اکثر غیر ضروری تصور کرتے ہوئے رپورٹ نہیں کی جاتی اس لیے یہ عمومی طور پر زیرِ بحث نہیں لائی جاتی لیکن اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلی ماہرین کے لیے بالکل بھی غیر متوقع نہیں ہے‘۔
کورونا کیسے ختم ہوگا؟
یہ سب سے اہم سوال ہے۔ اس کا جواب سب ہی سننا چاہتے ہیں اور جو جواب ہمارے پاس ہے اس سے تمام ہی ماہرین متفق ہیں۔ اس کا سادہ سا نسخہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ویکسین لگوائیں تاکہ وائرس کی منتقلی کی اس کڑی (چین) کو توڑا جاسکے جو انسانیت کو برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہے ورنہ اسی طرح ایک کے بعد ایک لہر آئے گی اور ہم چاہ کر بھی اپنے پیاروں کو بچانے سے قاصر رہیں گے۔
لکھاری نیو ٹی وی کے پروگرام کرنٹ افیئرز کی میزبانی کرتے ہیں۔
نیو ٹی وی میں کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی کرتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔