حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ کو آرڈیننس نافذ کرنے کا سلسلہ ختم کرنے کی یقین دہانی
اسلام آباد: عارضی قانون سازی پر عوامی تنقید کے بعد حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ تسلسل کے ساتھ آرڈیننس نافذ کرنے کا سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ میں ایک درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزیر اعظم ملک پر پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے حکمرانی کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
مذکورہ درخواست دانشوروں، حقوق کے رضاکاروں کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) آرڈیننس کے نفاذ کے خلاف دائر کی گئی تھی جس میں چیئرمین کی خودمختاری ’ختم‘ کرنے کے لیے ان کے عہدے کی مدت 4 سال سے کم کر کے 2 سال کردی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: تیسرے پارلیمانی سال میں اب تک 18 آرڈیننس نافذ
اٹارنی جنرل نے عدالت کو وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والی حالیہ ملاقات سے آگاہ کیا جس میں صدارتی آرڈیننسز پر تفصیل سے بات چیت کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ماضی کے طریقہ کار کے بارے میں پوچھا اور آئینی شق کو انصاف کے ساتھ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
خیال رہے کہ جولائی 2018 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حکومت بنانے کے بعد سے وفاقی حکومت کے معمول کے امور کے لیے اب تک 54 صدارتی آرڈیننسز نافذ کیے جاچکے ہیں۔
قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق پہلے پارلیمانی سال کے دوران 7، دوسرے میں 30 جبکہ تیسرے اور موجودہ پارلیمانی سال میں اب تک 16 سے زائد آرڈیننسز نافذ کیے جاچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: دوسرے پارلیمانی سال میں حکومت کے آرڈیننس کی تعداد قانون سازی سے زیادہ
وزارت قانون کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کی 2008 سے 2018 تک کی حکومتوں میں 156 آرڈیننس نافذ کیے گئے۔
سال 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد سے اب تک آنے والی حکومتیں قانون سازی کے متبادل کے طور پر ڈھائی ہزار سے زائد آرڈیننسز نافذ کرچکی ہیں۔
سماعت کے دوران جب مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال نے بحیثیت قانون ساز اس معاملے پر بات کرنے کی اجازت چاہی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل بینچ نے ان سے دریافت کیا کہ جب مسلم لیگ (ن) اقتدار میں تھی تو کتنے آرڈیننس نافذ کیے گئے؟
جس پر احسن اقبال نے کہا کہ ’دو غلط مل کر ایک صحیح نہیں بنا سکتے‘، ساتھ ہی انہوں نے اپنی حکومت کی غلطی کا اعتراف اور اس پر افسوس کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’پہلے پارلیمانی سال میں قومی اسمبلی کی کارکردگی قابلِ ذکر نہیں رہی‘
دوسری جانب کمرہ عدالت میں موجود سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تقریباً ہر حکومت نے آرڈیننس نافذ کرنے کا اختیار استعمال کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر صدر کی جانب سے آرڈیننس نافذ کرنے کی ایک ہی وجہ فراہم کی گئی اور وہ پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہونا تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے انہیں یاد دلایا کہ پارلیمان یا قائمہ کمیٹی میں آئین کی دفعہ 89 میں دیے گئے اختیار کا جائزہ لینا ان کی ذمہ داری ہے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پارلیمانی کمیٹی الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق آرڈیننس کا جائزہ لے رہی ہے اور مذکورہ آرٹیکل کا بھی جائزہ لے سکتی ہے۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے عدالت کی توجہ ایچ ای سی آرڈیننس کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ یہ عام آدمی سے متعلق معاملہ ہے۔
یاد رہے کہ موجودہ حکومت نے ایک آرڈیننس نافذ کرتے ہوئے ایچ ای سی چیئرمین طارق بنوری کو ڈی نوٹیفائی کردیا تھا۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدارتی آرڈیننس کی پیروی میں جاری ہونے والا نوٹی فکیشن ناقص تھا اور طارق بنوری کے عہدے کی مدت پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے پارلیمان کا اجلاس ہونے کے باوجود اس معاملے پر غور کیا۔
جس کا دفاع کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے معاملات کو مرکزی دھارے میں شامل کرلیا ہے اور یہ اس کے اصلاحی پروگرام کا حصہ ہے۔