’آزاد کشمیر میں نتائج نے نہیں، سیاسی قائدین کی غلیظ زبان نے مایوس کیا‘
آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی توقعات سے بھی بڑی مارجن کے ساتھ کامیابی کے علاوہ اور کچھ بھی حیران کن نہیں ہوا۔ حسبِ روایت آزاد کشمیر کے انتخابات میں اسلام آباد میں برسرِ اقتدار جماعت ہی فتح یاب ہوئی۔ معمول سے ہٹ کر کوئی نئی بات نہیں ہوئی، اور اپنی واضح اکثریت کے ساتھ اب پی ٹی آئی وہاں حکومت تشکیل دینے کو تیار ہے۔
گزشتہ برس گلگت بلتستان میں انتخابی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کی آزاد جموں کشمیر میں انتخابی کامیابی سے حکمراں جماعت کے مورال کو تقویت پہنچی ہے۔ دوسری طرف اس علاقے پر اپنے غلبے کو برقرار رکھنے کے زیادہ مواقع میسر ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو انتخابی ناکامی سے دھچکا پہنچا ہے جبکہ انتخابی دوڑ میں پیپلزپارٹی کی بہتر کارکردگی بھی کسی بڑے سرپرائز سے کم نہیں ہے۔
انتخابی عمل کے بعد پہلے کی طرح ہارنے والی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگانا شروع کردیے ہیں۔ البتہ دھاندلی سے متعلق کسی قسم کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ آزاد جموں کشمیر کے انتخابی نتائج محض اس رجحان کو پیش کرتے ہیں جس میں ووٹروں کا قبلہ حکمراں جماعت ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی رہنما لاکھ دعوے کریں مگر انتخابی کامیابی کو قطعی طور پر عمران خان کی پالیسیوں یا ان کے نظریے کی فتح قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مزید پڑھیے: مسلم لیگ (ن) میں کس کا بیانیہ چلے گا؟
دراصل ووٹروں کے مفاد میں ایک ایسی حکومت کا قیام بہتر ہوتا ہے جو اسلام آباد سے تعاون کرسکتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ 2011ء میں ہونے والے آزاد جموں کشمیر کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی کامیابی حیران کن نہیں تھی۔ اسی طرح 2016ء میں ہونے والے انتخابی مقابلے میں مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی۔ تاہم اس بار مریم نواز کی پُرجوش مہم کے باوجود یہ جماعت تیسرے نمبر پر آئی۔ مریم نواز نے بڑے بڑے جلسے کیے مگر انتخابی روایت کو بدل نہ سکیں۔ یوں اس خیال کو بھی تقویت ملتی ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے صرف کرشماتی شخصیت کافی نہیں ہوتی۔
یقیناً، چند دیگر عناصر بشمول عمران خان کی عوامی مقبولیت نے بھی پی ٹی آئی کی جیت میں کردار ادا کیا ہوگا مگر اسے کامیابی کی اہم وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ امیدوار پہلے بھی سیاسی جماعتوں سے اپنی وابستگیاں تبدیل کرتے رہے ہیں جبکہ ملک میں ہونے والے کسی بھی انتخابی عمل میں پیسوں کی لین دین نے بھی وفاداریوں کو خریدنے میں اہم کردار کیا۔
مگر آزاد جموں کشمیر کے حالیہ انتخابات کو سب سے زیادہ سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈران کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا جس میں ایک دوسرے پر خوب تنقید اور کیچڑ اچھالی گئی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آزاد جموں کشمیر کی تاریخ کی غلیظ ترین انتخابی مہم رہی جس میں لیڈران نے ایک دوسرے پر غداری کے الزامات بھی عائد کیے۔ لیڈران کا سب سے زیادہ زور سیاسی مخالفین پر کشمیر کاز سے غداری اور بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزامات پر رہا۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں اپوزیشن اتحاد مثبت تبدیلی کیوں نہیں لاتے؟
اس عمل نے پاکستان کی سیاسی ثقافت میں موجود نقائص کو خوب آشکار کیا۔ اعلیٰ سیاسی قیادت نے بے ہودہ اور گندی زبان کا کھلا استعمال کرکے انتہا کردی۔ مہم کے دوران مسئلہ کشمیر یا مقامی مسائل پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ پاکستانی سیاست کی جڑوں میں موجود کڑواہٹ اور دشمنی کا زہر آزاد جموں کشمیر کے انتخابات میں بھی خوب گھولا گیا۔ بس فرق یہ تھا کہ کوئی سیاستدان کم ناگوار اور کوئی زیادہ ناگوار تھا۔
بلاتعجب وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور اس فہرست میں سب سے اوپر رہے کہ جنہوں نے اپنی تقاریر میں سب سے زیادہ ناگوار اور غیر اخلاقی زبان کا استعمال کیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ یہ متنازع وزیر ماضی میں بھی مخالف جماعتوں کے لیڈران کے لیے ناگوار اور توہین آمیز بیانات دینے پر تنقید کی زد میں آچکے ہیں۔
مگر زیادہ بے چینی کی بات یہ ہے کہ ان کے سر پر ان کی جماعت کے رہنما کا ہاتھ رہا ہے۔ دیگر وزرا کو ان کی جارحیت پر واہ واہ کرتے ہوئے دیکھ کر صدمہ پہنچا۔ آزاد جموں کشمیر کے الیکشن کمشنر کی جانب سے انتخابی مہم میں علی امین گنڈاپور کی شرکت پر عائد پابندیوں کے باوجود انہوں نے وزیرِاعظم کی موجودگی میں ایک جلسے سے خطاب کیا۔ ایسی سرکشی پہلے بھی کئی بار دیکھی جاچکی ہے۔ دوسری طرف خود وزیرِاعظم نے بھی ایسی زبان کا استعمال کیا جو ان کے عہدے کو زیب نہیں دیتی۔
بدقسمتی سے دیگر پارٹی رہنماؤں نے بھی عقل و شعور کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان میں سے چند رہنماؤں نے اپنے مخالفین پر دیگر کے مقابلے میں کم نازیبا استعمال میں تنقید کی۔ مریم نواز کی جارحیت اور پی ٹی آئی کی قیادت پر ذاتی حملے بھی کم ناگوار نہ تھے۔ عمران خان کے بچوں اور سابقہ اہلیہ سے متعلق یہود دشمن تبصروں کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس پر ہونے والی مذمت جائز تھی۔
یہ عمل سیاسی قیادت کی نئی نسل کے درجے و معیار کی مایوس کن تصویر پیش کرتا ہے۔ آزاد جموں کشمیر کے انتخابی عمل نے مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں جماعت کے سیاسی بیانیے سے متعلق داخلی دراڑ کو منکشف کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام تر انتخابی مہم کی قیادت مریم نواز نے کی جس میں ان کے چچا اور پارٹی صدر شہباز شریف کی غیر موجودگی نمایاں نظر آئی۔ مریم کی پوری انتخابی مہم کے بیانیے کا محور اپنے والد نواز شریف کا دفاع بنا رہا۔
اس دوران بمشکل ہی اس علاقے میں ہونے والے انتخابات سے منسلک مقامی مسائل پر بات کی گئی جو انتظامی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ شاید مسلم لیگ (ن) کی انتخابات میں خراب کارکردگی کی ایک وجہ یہی رہی ہو۔
حسبِ توقع مریم نواز نے دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو مسترد کردیا ہے، مگر پارٹی صدر اس معاملے پر خاموش ہیں۔ فی الحال ایسا کوئی ثبوت دستیاب نہیں جس کی بنا پر ان کے الزامات کو درست مانا جائے۔ آزاد جموں کشمیر کے حالیہ انتخابات کو متنازع بنانے سے اس حساس علاقے میں جمہوری عمل متاثر ہوگا۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ علاقہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیے میدانِ جنگ ہونا چاہیے بھی یا نہیں۔
مزید پڑھیے: کیا پی ڈی ایم کے برقرار رہنے کا کوئی امکان موجود ہے؟
ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب لائن آف کنٹرول کے اس پار مقبوضہ کشمیر میں اگست 2019ء میں دہلی کی جانب سے متنازع علاقے کی برائے نام خودمختاری کو چھینے جانے کے بعد سے انتہائی غیر یقینی کی صورتحال قائم ہے۔ انتخابی مہم کے دوران سوائے ایک دوسرے پر کشمیر بیچنے کے الزامات لگانے کے علاوہ شاید ہی کسی نے اس اہم معاملے پر بات کی ہو۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ حالیہ تاریخ کی غلیظ ترین انتخابی مہم تھی، مقابلہ کون جیتا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسری طرف آزاد جموں کشمیر میں سامنے آنے والے انتخابی نتائج کے پاکستان کی سیاست پر غیر معمولی اثرات مرتب نہیں ہونے والے۔ ان نتائج کو پاکستان میں موجود سیاسی رجحانات کا پیمانہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لیے پی ٹی آئی اس انتخابی کامیابی کو اپنی حکومت کی عوامی حمایت کا اشارہ نہ سمجھے۔
آزاد جموں کشمیر میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد پی ٹی آئی کو بہتر گورننس کی فراہمی اور اس علاقے کے لوگوں کو درپیش چند اہم مسائل کو حل کرنے کے بڑے چیلنج کو پورا کرنا ہوگا۔ جن صوبوں پر پی ٹی آئی برسرِ اقتدار ہے وہاں اگر اس جماعت کے مایوس کن ریکارڈ کو مدنظر رکھیں تو یہ چیلنج کافی کٹھن ثابت ہوگا۔ اس وقت سب سے اہم کام ملک کی سیاسی ثقافت کو گندگی سے پاک کرنا ہے۔
یہ مضمون 28 جولائی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں