غزہ پر اسرائیلی بمباری کے بعد فلسطینیوں کی دکھ بھری عید
غزہ میں دو ماہ قبل اسرائیلی بمباری کے باعث اپنے پیاروں سےمحروم ہونے والے فلسطینیوں کے لیے عیدالاضحیٰ کی خوشیاں منانے کی وجوہات محدود ہیں۔
قربانی کے تہوار کے طور پر مشہور عید پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماننے والے ان کی جانب سے اللہ کی راہ میں دی گئی اپنے بیٹے کی قربانی کی یاد میں مناتے ہیں۔
مقدس دن حج کے ساتھ منایا جاتا ہے، جوسالانہ اسلامی فریضے کے طور پر مکہ میں ادا کی جاتی ہے، فلسطین میں منگل کو اس کا آغاز ہوگا اور مسلمان اس روز روایتی انداز میں دنبے اور گائے کی قربانی کرتے ہیں اور تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس موقع پر 73 سالہ ریٹائرڈ استاد محمود عیسیٰ نے اپنے نواسوں کے لیےنئے کپڑے خریدے اور انہیں قربانی کےلیے جانور پسند کرنے فارم لے کر آگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'جھڑپوں' کو روکنے کیلئے اسرائیل اور حماس جنگ بندی پر متفق
لیکن وہ اپنی 39 سالہ بیٹی منار اور 13 سالہ نواسی لینا کی موت کے باعث سوگوار ہیں جن کو بقول ان کے اسرائیلی میزائل نے نشانہ بنایا تھا اور 13 مئی کو اس حملے میں بریج مہاجر کیمپ میں واقع ان کا گھر تباہ ہوگیا تھا، واقعے میں منار کا شوہر اور دیگر تین بچے محفوظ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اب تک دکھ کا شکار ہیں، لیکن بڑے ہونے کے ناتے ہمیں بچوں کو اس ماحول سے نکال کر انہیں عید کے ماحول میں لانا ہے، تب ہی یہ اپنی ماں اور بڑی بہن کو کھونے کا غم بھول سکتے ہیں۔
حماس کی حکومت کا کہنا تھا کہ مئی میں 11 روز جاری رہنے والی سرحد پار سے اسرائیل بمباری سے 2ہزار 2 سو گھر تباہ ہوئے اور 37ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیل کے سیکڑوں فضائی حملوں کے نتیجے میں 250 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے، جس کے حوالے سے اسرائیل کا کہنا تھا کہ حماس نے یروشلم میں فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر اسرائیل کے خلاف راکٹ فائر کیے۔
راکٹ حملوں سے اسرائیل میں 13 افراد ہلاک ہوئے جس سے معمولات زندگی درہم برہم ہوگئی اور لوگ پناہ کے لیے بھاگتے رہے۔
جانوروں کی خریداری میں کمی
غزہ کی مویشی منڈیوں، چارہ فروش اور کسانوں کے مطابق مبارک دن کے لیے خریدو فروخت نہ ہونے کے برابر ہے، خان یونس کے قصبے کے ایک بازار میں چند خریداروں نے جانوروں کو گھر لے جانے کے لیےگدھاگاڑی پر لادا ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: جنگ بندی میں معمولی پیش رفت کے باوجود اسرائیل کے غزہ پر حملے جاری
مرچنٹ سلیم ابو عطوا نے سیکیورٹی کے پیش نظر اسرائیل اور مصر کی جانب سے کیے گئے سخت اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنگی ناکہ بندی اور کورونا وائرس کے باعث رواں سال جانوروں کی خریداری کا رجحان کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ امن قائم رہے گا یہ سب کے لیے بہتر ہے۔
غم میں مبتلا محمد القصاص کی غزہ کے مصروف محلے ریمل کے پڑوس میں جوتوں کی دکان جنگ میں تباہ ہوگئی، وہ جو سامان بیچتاتھا وہ ملبے تلے دب چکا ہے۔
خدشہ ہے کہ 23 سالہ شہری نے خدشہ ظاہر کیا کہ مصر کی ثالثی سے غزہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی رک گئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اور جنگ بحران ثابت ہوگی۔