پاکستان کی طالبان کے خلاف کارروائی پر افغان فوج کو دھمکی دینے کے الزام کی تردید
پاکستان نے افغان نائب صدر امر اللہ صالح کے ان الزامات کی تردید کردی کہ پاک فضائیہ نے اسپن بولدک کی سرحدی گزرگاہ سے طالبان کو پیچھے دھکیلنے کی کسی بھی کارروائی پر افغان سیکیورٹی فورسز کو باضابطہ وارننگ دی ہے۔
ایک بیان جاری کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ اس طرح کے الزامات جنگ زدہ افغانستان میں افغان سربراہی اور افغانوں پر مشتمل حل میں کردار ادا کرنے کی پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو مجروح کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ امر اللہ صالح نے ایک ٹوئٹ میں الزامات لگاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پاک فضائیہ کچھ علاقوں میں طالبان کو فضائی مدد فراہم کررہی ہے۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا تھا کہ 'بریکنگ: پاک فضائیہ نے افغان فوج اور فضائیہ کو باضابطہ انتباہ جاری کیا ہے طالبان کو اسپن بولدک کے علاقے سے نکالنے کی کسی بھی کوشش کا سامنا پاک فضائیہ کرے گی اور اسے پسپا کردے گی۔
یہ بھی پڑھیں:'افغانستان کی موجودہ صورتحال کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی ناانصافی ہے'
انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاک فضائیہ کچھ علاقوں میں طالبان کو قریبی فضائی امداد فراہم کررہی ہے۔
ایک علیحدہ ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ 'اگر کسی کو پاک فضائیہ اور پاک فوج کی جانب سے افغان فوج کو اسپن بولدک دوبارہ حاصل کرنے کے حوالے سے دی گئی وارننگ پر شک ہے تو میں ڈائریکٹ میسج کے ذریعے شواہد فراہم کرنے کو بھی تیار ہوں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کو چمن سرحد سے متصل افغان علاقے میں فضائی آپریشن کرنے کے ارادے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ 'پاکستان نے افغان حکومت کے ان کے اپنے علاقے میں کارروائی کے حق پر مثبت ردِ عمل دیا تھا تاہم سرحد کے انتہائی قریب کارروائی کی عموماً عالمی سطح پر تسلیم شدہ اقدار اور قواعد و ضوابط کے تحت اجازت نہیں دی جاتی البتہ پاکستان نے اپنے فوجیوں اور آبادی کے تحفظ کے لیے سرحدی حدود کے اندر ضروری اقدامات کئے ہیں'۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغان حکومت کے اس کے خودمختار علاقے میں کارروائی کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان کی قیدیوں کی رہائی کے بدلے تین ماہ جنگ بندی کی پیش کش
بیان میں ترجمان دفتر خارجہ نے یاد دہانی کروائی کہ پاکستان نے حال ہی میں 40 افغان نیشنل ڈیفنس فورسز کے اہلکاروں کو ریسکیو کیا جو ملک میں بھاگ کر آگئے تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ ان اہلکاروں کو 'عزت و احترام' اور درخواست کے مطابق اے این ایس ایف کو تمام لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے لیے ایک پیش کش کے ساتھ افغان حکومت کے حوالے کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان، 'افغانستان میں امن کے لیے پر عزم ہے اور رکاوٹوں کے باجود اس مقصد کی جانب کوششیں جاری رکھے گا'۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ 'تاہم یہ ضروری ہے کہ اس اہم موقع پر تمام تر توانائیاں افغانستان میں شراکتی، وسیع بنیاد اور جامع سیاسی حل کے لیے صرف کی جائیں'۔
خیال ہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب 2 روز قبل طالبان کی جانب سے پاک افغان سرحدی گزرگاہ پر قبضے کی رپورٹس کے پیش نظر اسپن بولدک میں باب دوستی بند کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کرے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، روس
تاہم جمعرات کے روز سرحدی گزرگاہ 3 گھنٹے کے لیے کھولی گئی تھی اور حکام کے مطابق سرحد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دونوں اطراف پھنسے شہریوں کی وطن واپسی کے پیش نظر کھولی گئی تھی۔
افغان نائب صدر کے الزامات اور پاکستان کی جانب سے اس کی تردید اسلام آباد کی میزبانی میں 3 روزہ افغان امن کانفرنس سے ایک روز قبل سامنے آئی ہے۔
اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان نے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور دیگر رہنماؤں کو مدعو کیا تھا تاہم طالبان کو اس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ مدعو کیے گئے افراد میں طالبان شامل نہیں ہیں کیونکہ وہ متعدد مرتبہ پاکستان آچکے ہیں اور امن عمل پر بات کرچکے ہیں۔