مخصوص حالات میں حجاب پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، یورپی عدالت
یورپی یونین کی اعلیٰ عدالت نے مسلمان خواتین کو اسکارف پہننے سے روکنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنیز مسلمان خواتین کو اسکارف لینے سے روک سکتی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق جرمنی میں اسکارف پہننے پر دو خواتین کو نوکری سے برخاست کردیا گیا تھا اور اس فیصلے کے خلاف ان خواتین نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
مزید پڑھیں: فرانس میں حجاب پر مجوزہ پابندی کیخلاف مسلمان خواتین کا آن لائن احتجاج
روایتی اسکارف اور حجاب کا مسئلہ برسوں سے یورپ بھر میں تنازع کا باعث بنا ہوا ہے اور اکثر اس پابندی کو مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
مسلمان خواتین جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ایک خاتون فلاحی ایسوسی ایشن کے زیر انتظام چلنے والے چلڈرن کیئر سینٹر میں بچوں کی نگہداشت کرتی تھیں جبکہ دوسری خاتون مولر ڈرگ اسٹور چین میں کیشئیر تھیں تاہم ان دونوں جگہہوں پر انہیں اسکارف پہننے پر نوکری سے برخاست کردیا گیا۔
ان دونوں نے جب کام کا آغاز کیا تو وہ اسکارف نہیں پہنتی تھیں لیکن کئی سالوں کے بعد جب وہ ماں بننے کے بعد چھٹیوں سے واپس آئیں تو فیصلہ انہوں نے اسکارف لینا شروع کردیا۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق ان دونوں خواتین کو بتایا گیا کہ اس کی اجازت نہیں ہے اور انہیں مختلف مقامات پر یا تو کام سے معطل کر دیا گیا، یا انہیں بتایا گیا کہ اسکارف کے بغیر کام پر آئیں یا کوئی دوسری نوکری ڈھونڈ لیں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیراعظم نے مسلمان با پردہ خواتین سے متعلق بیان پر معافی مانگ لی
یورپی یونین کی عدالت نے دونوں معاملات میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا کام کے دوران اسکارف پر پابندی عائد کرنے سے مذہبی آزادی اظہار کی خلاف ورزی تو نہیں ہوتی یا اسے آزادی کے ساتھ امور انجام دینے کے لیے پہننے کی اجازت دینی چاہیے۔
اس جواب یہ دیا گیا کہ اس طرح کی پابندی اس وقت ممکن ہے اگر آجر یہ جواز پیش کرے کہ وہ غیر جانبدار شبیہہ قائم رکھنا چاہتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ملازمت کی جگہ پر کسی بھی طرح کے سیاسی، فلسفیانہ یا مذہبی عقائد کے اظہار کے حامل لباس پہننے پر پابندی اس وقت عائد کی جا سکتی ہے اگر آجر یہ جواز پیش کرے کہ صارفین کے سامنے غیرجانبدار شبیہہ پیش کرنے یا معاشرتی تنازعات کی روک تھام کے لیے یہ عمل ضروری ہے۔
تاہم یہ جواز آجر کی جانب سے حقیقی ضرورت کے پیش نظر ہونا چاہیے۔
بچوں کی نگہداشت کے مرکز میں ملازمت کرنے والی خاتون کے معاملے میں عدالت نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس اصول پر عمومی اور غیر متنازع طریقے سے اطلاق ہوتا ہے کیوں کہ آجر نے صلیب کا نشان پہننے والے ایک ملازم کو بھی اسے فوری طور پر ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایسٹر دھماکوں کے بعد سری لنکا میں حجاب پر پابندی
دونوں ہی معاملات میں اب یہ قومی عدالتوں پر منحصر ہوگا کہ وہ اس بارے میں حتمی طور پر کیا فیصلہ کرتی ہیں کہ آیا ملازمین سے کوئی امتیازی سلوک ہوا ہے یا نہیں۔
یورپی یونین کی عدالت نے پہلے ہی 2017 میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ کمپنیاں عملے کو بعض شرائط کے تحت حجاب اور ایسی دیگر مذہبی علامات کے پہننے پر پابندی عائد کرسکتی ہیں جن سے مذہبی گروہوں میں رد عمل پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔
جرمنی میں 50لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں اور وہاں کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔
جرمنی میں برسوں سے کام کرنے والی خواتین پر ہیڈ سکارف پر پابندی پر بحث ہوتی رہی ہے جن میں اکثر اساتذہ یا جج کی حیثیت سے کام کرنے والی خواتین موضوع بحث رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دعا ہے کہ حجاب کی عزت کرسکوں اور لے سکوں، حمیمہ ملک
یورپ میں دیگر ممالک میں عدالتیں صورتحال کے مطابق تعین کرتی ہیں کہ کام کی جگہ پر اسکارف کی پابندی عائد کی جا سکتی ہے یا نہیں۔