• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

وزیر اعظم کا ترقی پذیر ممالک کو آئی ایم ایف فنڈز سے رقم کی فراہمی کا مطالبہ

شائع July 13, 2021
وزیر اعظم نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں کو اس بحران سے نکلنے کے لیے 4.3کھرب ڈالر کے فنڈز درکار ہیں— فوٹو: اے پی پی
وزیر اعظم نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں کو اس بحران سے نکلنے کے لیے 4.3کھرب ڈالر کے فنڈز درکار ہیں— فوٹو: اے پی پی

وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کی بحرانی صورتحال کے پیش نظر آئی ایم ایف کے غیراستعمال شدہ فنڈز سے پذیر ممالک کو رقوم کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی معیشت کی مکمل بحالی کے لیے تمام ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری میں اضافہ ضروری ہے۔

اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم برائے پائیدار ترقی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا کو ترقی پذیر ملکوں سمیت کورونا ویکسین کی تیاری اور تقسیم کے عمل کو یقینی بنانا چاہیے، اگرچہ اس حوالے سے ترقی یافتہ اقوام کی جانب سے پیش کردہ امداد قابل تحسین ہے لیکن ضمن میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر خارجہ کا عالمی برادری سے برابری کی بنیاد پر ویکسین کی فراہمی کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ دانشورانہ حقوق سے دستبرداری خواہ عارضی ہی کیوں نہ ہو، لائسنس یافتہ ویکسین کی پیداوار، کوویکس کے لیے مکمل فنڈنگ اور ترقی پذیر ملکوں کو مناسب قیمت پر ویکسین کی خریداری کے قابل بنانے کے لیے امداد اور رعایت کی فراہمی یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو کورونا کی صورتحال سے باہر نکالنے کے سلسلے میں پائیدار ترقی اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لیے سہ جہتی چیلنجز سے نمٹنے کے حوالے سے مناسب مالی امداد کو متحرک کرنا ہو گا۔

عمران خان نے کہا کہ ان تینوں چیلنجوں میں مماثلت ہے اور ان کا بہتر استعمال صورتحال سے نکلنے میں معاون ثابت ہو گا، امیر ملکوں نے اپنی معیشتوں کو ٹھیک کرنے کے لیے 17کھرب ڈالر خرچ کیے جبکہ دوسری جانب ترقی پذیر ملکوں کو اس بحران سے نکلنے اور پائیدار ترقی کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کم از کم 4.3کھرب ڈالر کے مالی وسائل درکار ہیں لیکن بدقسمتی سے ان ملکوں کی رسائی مطلوبہ ہدف کے صرف 5فیصد تک ممکن ہو سکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ستمبر میں میری جانب سے تجویز پیش کی گئی تھی کہ آئی ایم ایف سے رقم نکلوانے کے خصوصی حقوق فراہم کیے جائیں تاکہ ان مالیاتی اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔

وزیر اعظم نے 65ارب ڈالر کے ایس ڈی آر معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے زور دیا کہ غریب ملکوں کے لیے پیدا کیے گئے یہ اضافی ذخائر ان کو درکار مالیاتی ریلیف سے بہت کم ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ زیادہ آمدن والے ممالک آئی ایم ایف کے غیراستعمال شدہ کوٹے کے حصے کو رضاکارانہ بنیادوں پر مختص کرنے کے متعلق آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر جنرل کی تجویز کو جلد از جلد منظور کیا جائے۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے پائیدار ترقیاتی منصوبوں پر مختص کرنے کے لیے آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دوسرے ترقیاتی بینکوں اور اداروں کے ذریعے کم از کم 150ارب ڈالر رکھے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ ترقی پذیر ملکوں کے لیے زیادہ لاگت کے قرضوں کی ازسرنو اسٹرکچرنگ بھی ایک اہم پہلو ہے تاکہ متاثرہ ملکوں کو مالیاتی سال میں گنجائش کے ساتھ ساتھ ترقیاتی فنڈز بھی فراہم کیے جا سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایک خاتون کا کورونا وائرس کی 2 مختلف اقسام سے متاثر ہونے کا انکشاف

عمران خان نے کہا کہ کسی بھی مشترکہ فریم ورک کی ازسرنو تشکیل کے لیے مذاکرات کو طویل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں قرضوں کے لیے ریلیف کا مقصد ختم ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس نازک موقع پر ترقی پذیر ممالک کے لیے او ڈی اے کمٹمنٹ 0.7 فیصد اور 50 ارب ڈالر کے ایڈوانس آئی ڈی اے۔20 ونڈو سمیت رعایتی اور گرانٹ فنانس کے وعدوں کو لازمی پورا کیا جانا چاہیے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اسی طرح گلاسگو میں سی او پی۔26 کی کامیابی سمیت ماحولیاتی فنانس کے 100 ارب ڈالر سالانہ کی فراہمی کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کمٹمنٹ کو پورا کرنا ضروری ہے، ماحولیاتی فنانس کی مجموعی کمٹمنٹ اب ایک کھرب ڈالر سے زائد ہے، او ڈی اے سمیت ترقیاتی تعاون کے لیے پیش کردہ رقم ماحولیاتی فنانس کمٹمنٹ کے سلسلے میں دوبار نہیں گنی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی فنانسنگ کے لیے کم ازکم 50 فیصد رقم موافقت کے لیے مختص کر دینی چاہیے جس سے ترقی پذیر ممالک مشترکہ مگر مختلف نوعیت کی ذمے داریوں کے اصولوں کے ساتھ اپنی ماحولیاتی کمٹمنٹ پر عملدرآمد کر سکیں گے۔

مزید پڑھیں: جنوبی کوریا میں کووڈ کی روک تھام کیلئے اب تک کی سب سے حیران کن پابندی

ان کا کہنا تھا کہ ری چارچ انیشیٹیو اور 10 ارب درختوں کے سونامی پراجیکٹ جیسے پاکستان کے شاندار منصوبے اس قسم کی معاونت سے بہت زیادہ استفادہ کر سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ تیسری بات یہ کہ قومی اور بین الاقوامی ترقیاتی حکمت عملی میں ان شعبوں کو ہدف بنایا جانا چاہیے جن سے ترقی پذیر ممالک تینوں چیلنجوں سے نمٹ سکیں جن میں کووڈ بحالی، انسانی ترقی، سماجی تحفظ، متبادل توانائی، پائیدار زراعت، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹلائزیشن شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایس ڈی جیز کے 92 فیصد پر اثر رکھنے والی پائیدار انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری ترقیاتی حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہونا چاہیے، اقوام متحدہ اپنی منفرد اجتماعی قوت کے ساتھ ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری بروئے کار لانے کے لیے کثیرالجہتی اسٹیک ہولڈرز سالانہ پائیدار انفراسٹرکچر کے لیے درکار ڈائیلاگ کا آغاز کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایس ڈی جیز انویسٹمنٹ فیئر سمیت اقوام متحدہ کا ڈیویلپمنٹ سسٹم ترقی پذیر ممالک کو ایسے موزوں منصوبے تجویز کرنے کے لیے معاون ہو سکتا ہے جس سے سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کو ترغیب مل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی اور تجارتی آرکیٹیکچر کے ڈھانچہ جاتی اور منظم نقائص کو جامع اور فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے، بین الاقوامی تجارتی نظام تمام ترقی پذیر ممالک کو عالمی منڈیوں تک مساوی اور ترجیحی بنیادوں پر رسائی فراہم کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض بڑی معیشتوں کی جانب سے ڈبلیو ٹی او معاہدوں کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے اٹھائے گئے تحفظاتی اقدامات کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: یکم اگست سے ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر ہوائی سفر پر پابندی عائد

عمران خان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کی جانب سے باہر منتقل کیے جانے والے ناجائز سرمائے کی خطیر رقوم کے بہائو کو بھی ضرور روکا جانا چاہیے، ان ممالک کے چوری شدہ اثاثہ جات غیر مشروط طور پر واپس کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ منافع کی منتقلی اور ٹیکس چوری کے خاتمہ کے لیے کم سے کم عالمی کارپوریٹ ٹیکس کی امریکی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کووڈ۔19 کی عالمی وبا نے ایک مرتبہ پھر ہمیں انسانیت کے اشد ضروری اتحاد اور اقوام کے قریبی باہمی انحصار کی ضرورت کا احساس دلایا ہے، اقوام متحدہ کو اس بحرانی صورتحال میں اپنے منشور اور مقاصد کی ناقابل تغیر اہمیت کو واضح کرنا چاہیے جبکہ ہمیں زیادہ مساوی، مستحکم اور خوشحال دنیا کی تشکیل کے لیے تنازعات کے پرامن و منصفانہ حل اور عالمی تعاون کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024