بلڈنگ فنانس: موجودہ رجحان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے
اگرچہ موجودہ حکومت اکثر تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ لیکن اس حکومت نے سستی رہائش، ہاؤسنگ فنانس اور تعمیراتی سیکٹر کے حوالے سے جو نئے ضوابط وضع کیے ہیں، نئے ریگولیٹری ادارے قائم کیے ہیں اور ہاؤسنگ فنانس اور تعمیراتی شعبے میں سبسڈی دے کر نجی شعبے کو مراعات فراہم کی ہیں اس کو تسلیم نہ کرنا زیادتی ہوگی۔
اس معاملے کو اٹھانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہر حکومت کو اپنے شہریوں، خاص طور پر کم اور متوسط آمدن والے گھرانوں کے پائیدار اور محفوظ رہائش کے حق کو ممکن بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
ہمارے سیاسی نظام میں سب سے اوپر موجود لوگوں کی اچھی نیت اور کچھ مثبت پالیسیوں کے باوجود ہمارے نظام میں کچھ ایسی خامیاں ہیں جو کہ ان پالیسیوں کے متوقہ نتائج کو سامنے ہہی نہیں آنے دیتیں اور یوں عام آدمی کی حالت زار بہتر نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے ذیل میں کچھ نکات درج کیے جارہے ہیں۔ امید ہے کہ مقتدر حلقے اس پر نوٹس لیں گے اور نقائص کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
1.
ہر کوئی اس سستی رہائش کے منصوبے سے منافع کمانے کی فکر میں ہے۔ اگرچہ منافع کمانا اپنے آپ میں برا نہیں ہے لیکن جس قسم لوگ منافع کی لالچ اور جس حد تک منافع کی لالچ میں بیٹھے ہیں وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو جو لوگ عوام کو سہولت فراہم کرنے اور پالیسیوں کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں وہی ’فوری منافع‘ کمانے کی فکر میں ہیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس منافع خوری کی وجہ سے کم آمدن والے طبقے کے لیے اپنے اثاثوں کو ریگولرائز کروانا اور لیز حاصل کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہ لیز سرکاری و نجی اداروں سے قرضے کے حصول کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
2.
تمام بینک، ڈیولپمنٹ فنانس انسٹیٹیوشنز (ڈی ایف آئی) اور مائیکرو فنانس بینک (ایم ایف بی) کو اپنی خدمات کو بہتر بنانا چاہیے۔ انہیں اپنی کارکردگی میں بہتری لانی ہوگی اور اپنے کام کی لاگت پر غور کرنا ہوگا۔ اس وقت مارک اپ سبسڈی کی سہولت کا پوری طرح استمعال نہیں ہوپارہا۔ ایم ایف بیز کم آمدن والے افراد کو قرض دینے کا واحد ادارہ نہیں ہونا چاہیے کہ جسے زیادہ سبسڈی حاصل ہو۔ ایسا ہر مالیاتی اداری یعنی فنانشل انسٹیٹیوشن (ایف آئی) کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ہر مالیاتی ادارے کے لیے انکم بینڈ کے لحاظ سے اہداف کا تعین کی جانا چاہیے۔ نئی ہاؤس فنانس کمپنیوں کو بھی یکساں مواقع ملنے چاہیے اور انہیں بھی ان سبسڈی پروگرامز تک رسائی حاصل ہونی چاہیے جن تک موجودہ بینکوں، ایم ایف بیز اور حکومتی تعاون سے چلنے والی ڈی ایف آئی یا ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی کو رسائی حاصل ہے۔ جب تک پرائمری مارکیٹ کی بہتری پر توجہ نہیں دی جائے تب سیکنڈری مارکیٹ کے قیام اور توسیع کے بارے میں سوچنا فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔
3.
صرف نئے گھروں کی تعمیر پر ساری توجہ دینے کی بجائے کچی آبادیوں میں رہنے والے کروڑوں افراد کی مشکلات کے ازالے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ آبادیاں خظرناک نہیں ہیں اور ان میں موجود عمارتوں کو گرائے جانے کی ضرورت نہیں ہے تو پھر کچی آبادی اتھارٹی کو خاطر خواہ بجٹ فراہم کرکے انہیں جنگی بنیادوں پر کچی آبادیوں کا سروے کرنے اور ترجیحی بنیادوں سڑکوں فراہمی آب، سیوریج اور بجلی کے نظام کی تنصیب کی ذمہ داری دی جائے۔ مردم شماری کے طرز کا طریقہ کار اختیار کرکے اور صرف ملکیت کے بنیادی دستاویزات دیکھ کر اور معمولی سی فیس لے کر ان کی جائیداد کو رجسٹر کیا جائے۔ یہ کام اس طرح کیا جائے کہ اس کے نتیجے کے طور ان کچی آبادیوں کے مقامی ٹھیکے داروں کی جگہ وہاں کے رہائشیوں کو فائدہ ہو۔ یہ نہ صرف عوام کو ان کی زمینیوں کے دستاویزات فراہم کرنے کے لیے راغب کرے گا بلکہ یہ مالیاتی ادروں کو بھی اس جانب راغب کرے کہ وہ یہاں کے مکینوں کو بہتر اور محفوظ مکانات کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کریں۔ اس طرح ان کالونیوں کی حالت زار بھی بہتر ہوگی۔ دوسری جانب دیہی مقمات کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جہاں ہاؤسنگ فنانس کے ادارے پہلے سے موجود ایم ایف بیز کے ساتھ مل کر رہائشی قرضوں کی فراہمی، مقمای افراد کی تربیت اور خام مال کے لیے ڈپو کے طرز کی جگہوں کی تیاری کے لیے کام کریں۔ یوں مقامی افراد اپنی ملکیت میں وجود زمین اور مکان کو مزید بہتر طریقے سے استعمال کرسکیں گے۔ ہمارے پڑوسی ممالک میں اس حوالے بہت کام ہوچکا ہے۔
4.
نجی اور سرکاری اداروں (بینک، این بی ایف سی، لینڈ ڈیولمپنٹ اتھارٹیز، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز اور دیگر سرکاری محکموں) کے تعاون سے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے جس کی قیادت حکومت کے پاس ہو۔ یہ ورکنگ گروپ ان عوامل پر توجہ دے جو سستی رہائشی طلب اور فراہمی میں مدد دے۔ ان عوامل میں رہائشی قرضوں کی فراہمی، جائیداد کے دستاویزات کے مسائل، کچی آبادیوں کو ریگولرائز کرنا، زمینوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹائز اور سینٹرلائز کرنا اور سستی رہائش، تعمیرات اور رہائشی قرضوں سے متعلق سرکاری ادروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ ان کمٹیوں کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے سخت نظام نافذ کیا جائے اورسینیئر اہلکاروں کو اس کی ذمہ داری جائے۔
5.
لینڈ ریکارڈ کی ڈیجیٹائزیشن کے عمل کو درست کیا جائے۔ موجودہ نظام اگرچہ مضبوط ہے لیکن کرپشن کی وجہ سے ناکارہ ہوچکا ہے۔ صرف حکومت کے پاس ہی یہ طاقت ہے کہ اس ابتر حالت سے جن لوگوں کلے مفادات وابستہ ہیں ان سے نمٹتے ہوئے کوئی مثبت تبدیلی لاسکے۔ سب کو معلوم ہے کہ کیا کیا جانا چاہیے۔ ملکیت کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائیزیشن اور سینٹرلائیزیشن کے لیے صوبائی سطح پر احتساب کا نطام وضع کیا جائے اور تمام نقشوں، میوٹیشن اور ملکیت کی منتقلی کے دستاویزات کو ڈیجیٹائز کیا جائے۔ ملکیت کا کاغذات کو اسکین کرنا اور ڈیجیٹل فارم تیار کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ لیویریج ڈرونز، بلک چین اور جی آئی ایس میپنگ کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے بلکہ کئی ممالک میں آج اس پر عمل ہورہا ہے۔ اس کا کی ذمہ دار تنظیموں اور سرکاری محکموں کو اپنے کام کی انجام دہی پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
6.
اگر رہائش کی فراہمی کی بات کی جائے تو پورے ملک میں ایک رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی ضرورت ہے جو تعمیراتی شعبے سے وابستہ تمام افراد چاہے وہ ٹھیکے دار ہوں، ڈیویلپر ہوں یا پھر کنسلٹنٹ انہیں خود کو رجسٹر کروانے کا پابند کرے۔ جب تک حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز سے رابطے میں نہیں آئے گی تب تک ان تمام کو ریگولیٹ کرنا مشکل ہے۔ تعمیراتی خدمات فراہم کرنے والوں کے لیے قومی سطح پر فنی تعلیم کے پروگرامات کا آغاز بھی فائدہ مند ہوگا اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں تعمیراتی قوانین کی پابندی بھی یقنی بنائی جاسکے گی اور تعمیرات کا معیار بھی بہتر ہوگا۔ حکومت کو ایک ایسا یونٹ بنانے کی بھی ضرورت ہے جو شہریوں کو سستی رہائش فراہم کرے اور اس پر نظر بھی رکھے۔
جمشید ایچ مہرہومجی Trellis ہاؤسنگ فنانس لمیٹڈ کے سی ای او ہیں۔ [email protected]*