تعمیراتی صنعت میں ترقی کا نیا دور
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں تعمیراتی صنعت کو ترقی اور شرح نمو میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے معیشت کے اہم ترین شعبوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ لاکھوں غیر ہنر مند، نیم ہنر مند اور ہنرمند مزدوروں کی بدولت اس شعبے کو ملک کے سب سے بڑے روزگار مہیا کرنے والوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔
یہ صنعت پاکستان جیسے ممالک میں رسمی اور غیر رسمی دونوں شعبوں میں کام کرنے والے کاروبار کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انفرادی حیثیت میں بھی لوگوں کے لیے اچھی آمدن پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
مزید برآں یہ صنعت میکرو اکنامکس پر بھی بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ تعمیراتی سرگرمیوں میں کسی بھی طرح کی توسیع سے متعلقہ صنعتوں کے اندر نمو میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ سیمنٹ، سرامکس، شیشے، پینٹ اور اسٹیل سمیت 30 سے 40 مختلف صنعتیں تعمیراتی شعبے سے وابستہ ہیں۔
یہ اثر عموماً انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر تعمیرات کا سامان نسبتاً غیر تعلیم یافتہ، مقامی وسائل کے حامل محنت کش اور سیمنٹ اور اسٹیل جیسی بنیادی صنعتوں کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے۔ تعمیراتی صنعت کے روابط عمومی طور پر صنعت کے پس پردہ روابط کی نسبت غیر واضح اور کم تر وسیع ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود مختلف مطالعوں سے پتا چلتا ہے کہ مستحکم معیشت کی ترقی، روزگار پیدا کرنے، غربت اور خطرات میں کمی کی کے لیے بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر) کی ترقی مستقل اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے محکمہ بلڈنگ کی جانب سے شائع کی گئی دی اکانومی اور کنسٹرکشن انڈسٹری کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں تعمیراتی صنعت میں پیدا ہونے والی ملازمتوں میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہوا ہے۔
“حقیقت یہ ہے کہ تعمیراتی صنعت خصوصاً مینوفیکچرنگ میں بہت سی دیگر صنعتوں کے مقابلے میں زیادہ محنت کش ہیں، جو اس صنعت کو مزدوروں سے وابستہ عوامی کاموں کے منصوبوں کے ذریعے متعدد ممالک میں روزگار پیدا کرنے کی پالیسیوں کے لیے روایتی توجہ کا مرکز بناتا ہے۔ ان منصوبوں سے پیدا ہونے والی مزدوری کی آمدن کو مزدور مقامی طور پر تیار کردہ سامان اور سروسز کے استعمال پر خرچ کرتے ہیں جس سے پوری معیشت میں طلب کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مانگ میں کمی اور بے انتہا بے روزگاری کے ادوار کے دوران بحرانی صورتحال پر قابو پانے کے لیے حکومت کی مالی اعانت سے تعمیر کیے جانے والے بنیادی ڈھانچے کے تعمیراتی منصوبے نافذ کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح حکومت ان منصوبوں کو بہترین مالیاتی ادوار میں ملتوی کر کے معیشت کو مستحکم کرسکتی ہے۔ سرکاری اخراجات کی رقم یا بنیادی نوعیت کے منصوبوں کو قرض کی فراہمی میں شرح سود کی ایڈجسٹمنٹ جیسی مالی پالیسیوں کے ذریعے حکومت معیشت میں تبدیلیاں پیدا کرسکتی ہے۔
زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں حکومتیں رہائش اور تعمیراتی شعبے کے ساتھ ساتھ عوامی مفاد عامہ کے پروگراموں میں سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ وہ پالیسی کے مقاصد کا مجموعہ جیسے غربت کا خاتمہ، روزگار کی فراہمی اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی یقینی بنا سکیں۔ لہٰذا یہ بات باعث حیرت نہیں کہ کسی ملک کو معیشت میں ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے لیے تعمیراتی صنعت کے اخراجات پر انحصار کرتے ہوئے دیکھا جائے۔ بہت سے ممالک نے اپنے مالی محرک پیکجوں (fiscal stimulus packages) میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر جیسے ریلوے، شاہراہوں، ہوائی اڈوں اور پاور گرڈ کو شامل کیا ہے۔ پاکستان بھی ان سے مختلف نہیں ہے۔
پاکستان اکنامک سروے کے مطابق تعمیراتی صنعت کی مجموعی مقامی پیداوار (جی ڈی پی) کا 2.5فیصد بنتی ہے اور یہ شعبہ جی ڈی پی میں 380 ارب روپے تک مہیا کرتا ہے، جہاں 2019 میں یہ رقم 318 ارب روپے تھی اور اس میں 7.61 فیصد افرادی قوت کام کرتی ہے۔ سرکاری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے تعمیراتی سرگرمی میں گزشتہ سال 8.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ فِچ سولیوشنز نے سال 2025 میں صنعت کی مالیت کا تخمینہ ایک ہزار 739.9 ارب روپے اور سال 2028 میں 2ہزار 705 ارب روپے لگایا ہے جہاں 2021 میں ایک ہزار 95.8 ارب روپے ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ رہائشی اور تعمیراتی صنعت میں کس قدر صلاحیت موجود ہے۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی حکومتوں نے معاشی انفرااسٹرکچر کی بہتری کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غربت میں کمی کے لیے عوامی مفاد عامہ کی اسکیموں کا استعمال کیا ہے، ایسا کرنے سے معاشی سرگرمیوں کو کامیابی سے انجام دیتے ہوئے ترقی کو فروغ دیا ہے۔ لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں کہ گزشتہ سال پاکستان تحریک انصاف کی انتظامیہ نے تعمیرات اور رہائش کے شعبے کے لیے ٹیکس اور سود کی شرح پر سبسڈی کی حامل مراعات کے بڑے پیکیج کے ساتھ یہ راستہ اپنایا تھا۔
رئیل اسٹیٹ کے سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ مالکان، بلڈرز، ٹھیکیداروں، ڈیولپرز اور گھر کے ممکنہ مالکان کے لیے دستیاب سب سے پرکشش رعایت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ہے جس کا مقصد غیر دستاویزی رقم کو قانونی دائرے میں لانا ہے۔ اس کے علاوہ کم آمدنی والے طبقات کے لیے سستی رہائش کی حوصلہ افزائی کے لیے بجٹ میں مزید مراعات اور سبسڈی کی پیش کش کی گئی ہے۔
اس اقدام کی حمایت کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں کے لیے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ وہ دسمبر 2021 تک اپنے مقامی نجی شعبے کے قرضوں میں سے کم از کم 5 فیصد تک مکانات اور تعمیرات کی فنانسنگ پر خرچ کریں۔ اسٹیٹ بینک اور سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان دونوں نے ریئل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ کی ترقی کو ترجیح دینے کے لیے اقدامات پر عمل درآمد کیا ہے تاکہ ریئل اسٹیٹ کے شعبے کو مرکزی دھارے میں شامل کرتے ہوئے دستاویزی شکل دی جا سکے جبکہ چھوٹے سرمایہ کاروں کو اس شعبے سے منافع کمانے کی اجازت دی جاسکے۔ مزید برآں، مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں حکومت نے اگلے انتخابات سے قبل تعمیراتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے عوامی شعبے کے بنیادی ڈھانچے کے ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا ہے جس کی مالیت 2.1 کھرب روپے سے زائد ہے۔
کیا یہ اقدامات معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوں گے؟ پچھلے مالی سال کے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ حکومت اتنے مکانات نہیں بناسکتی ہے جتنا اس کا ارادہ ہے (50 لاکھ یونٹ) اور مالیاتی مسائل اسے ترقیاتی پیکج میں کٹوتی پر مجبور کر سکتے ہیں لیکن تعمیرات اور رہائش کا شعبہ اگلے چند برسوں میں جی ڈی پی کی نمو میں نمایاں فروغ اور نمو کا سبب بنے گا۔
نائٹس برج کیپیٹل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سمیر احمد کے مطابق آبادی میں 2.4فیصد کی شرح سے سالانہ اضافے کی وجہ سے مکانات کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے رہائش کے لیے درکار مکانات کی سالانہ طلب کا تخمینہ لگ بھگ 7 لاکھ یونٹ ہے جبکہ اس وقت صرف نصف مانگ کو پورا کیا جارہا ہے اور رہائشی خسارے کا تخمینہ ایک کروڑ یونٹ ہے جو ہر سال بڑھ رہا ہے۔ اس سے تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری اور ترقی کی صلاحیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (نیپڈا) نے شہری، نیم شہری شہری اور دیہی علاقوں میں سستے مکانات کی تعمیر کے لیے نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں زمین کے استعمال کے مختلف ماڈلز تیار کیے ہیں۔ تاہم اب تک حکومت محض کئی ہزار یونٹ کی پیش کش کرنے والے منصوبے شروع کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
سمیر احمد نے کہا کہ سیکڑوں نئی اسکیمیں رجسٹرڈ ہوچکی ہیں کیونکہ مراعات اور سبسڈیز سے فائدہ اٹھانے کے لیے سرمایہ کار جوق در جوق آگے آرہے ہیں۔ تاہم مجھے خدشہ ہے کہ 50 لاکھ مکانات کی تعمیر کا ہدف شاید جلد حاصل نہ ہوسکے۔ انہوں نے مرکزی بینک کی جانب سے بینکوں کو دیے گئے مارگیج فنانس کے ہدف کو پورا کرنے پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بینکوں پر مارگیج (رہن) کی مالی اعانت میں اضافہ کرنے کا دباؤ ہے جو ان کے لیے ایک نیا شعبہ ہے لیکن انہیں اس سلسلے میں کریڈٹ رسک اور ہاؤسنگ اسکیموں کی غیر واضح قانونی حیثیت جیسی متعدد مشکلات کا سامنا ہے لہٰذا فی الحال مجھے کوئی رفتار نظر نہیں آرہی ہے۔
ناصر جمال ڈان لاہور کے چیف رپورٹر ہیں۔