• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

دوران حراست تشدد اور موت قابل سزا جرم قرار، سینیٹ میں بل منظور

شائع July 12, 2021
دوران حراست تشدد اور موت کا بل پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پیش کیا— فوٹو: ڈان نیوز
دوران حراست تشدد اور موت کا بل پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پیش کیا— فوٹو: ڈان نیوز

ایوان بالا (سینیٹ) میں اپوزیشن رکن کی جانب سے پیش کیا گیا دوران حراست تشدد اور موت کے انسداد اور سزا کا بل 2021 منظور کر لیا گیا۔

سینیٹ میں مذکورہ بل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پیش کیا اور وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اس کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ تشدد میں ملوث کسی بھی سرکاری ملازم کو 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کا بل قومی اسمبلی میں پیش

اگر کوئی سرکاری ملازم، جس کا فرض تشدد کو روکنا ہے، وہ جان بوجھ کر یا غفلت برتتے ہوئے اس کی روک تھام میں ناکام رہتا ہے تو اسے 5سال قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بل کے حوالے سے مزید کہا گیا کہ جو بھی شخص دوران حراست موت یا جنسی تشدد کے جرم کا ارتکاب یا اس کی سازش کرے گا تو اسے عمر قید اور 30لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔

مزید براں اگر کوئی سرکاری ملازم جس کا دوران حراست اموات یا جنسی تشدد کی روک تھام ہے، اگر وہ جان بوجھ کر یا غفلت کے نتیجے میں ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو انہیں کم از کم 7سال قید اور 10لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بل کے مطابق جرمانہ مقتول یا ان کے قانونی ورثا کو ادا کیا جائے گا، اگر جرمانہ ادا نہیں کیا گیا تو جرم کا ارتکاب کرنے والے سرکاری ملازم کو بالترتیب 3 اور 5 سال تک اضافی قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حراست کے بارے میں بل میں کہا گیا ہے کہ کسی کو بھی کسی بھی جرم میں "کسی ملزم کے ٹھکانے یا ثبوت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کسی کو تحویل میں نہیں لیا جاسکتا جبکہ خواتین کو صرف ایک خاتون اہلکار کے ذریعے تحویل میں لیا جاسکتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے ذریعے اقبال جرم عدالت میں ناقابل قبول ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا سینیٹ انتخابات ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے کا خیر مقدم

دوران حراست تشدد اور موت(روک تھام اور سزا) کے بل 2021 میں کہا گیا کہ اس ایکٹ کے تحت دی گئی سزا ناقابل معافی اور ناقابل ضمانت تصور کی جائے گی۔

اس بل میں دوران حراست تشدد کی صورت میں شکایت کے اندراج کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے، عدالت موصولہ شکایت کے نتیجے میں درخواست گزار کا بیان ریکارڈ کرے گی اور ہدایت دے گی کہ طبی اور نفسیاتی معائنہ کیا جائے اور اس معائنے کے نتائج 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنا ہوں گے۔

اگر شواہد مل گئے کہ تشدد ہوا ہے تو متعلقہ عدالت اس معاملے کو مزید کارروائی کے لیے سیشن کورٹ کے پاس بھیجے گی، سیشن کورٹ تحقیقات کی ہدایت کرتے ہوئے 15 دن میں رپورٹ طلب کرے گی، بل میں کہا گیا کہ سیشن کورٹ روزانہ کی بنیاد پر شکایت کی سماعت کرے گی اور 60 دن میں فیصلہ سنائے گی۔

بل کی منظوری پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان آخر کار تشدد کو جرم قرار دینے کے راستے پر گامزن ہے۔

مزید پڑھیں: انسداد دہشت گردی ترمیمی بل سینیٹ سے بھی منظور

انہوں نے کہا کہ وہ بل کی منظوری پر بہت خوش ہیں اور اس بل کے لیے تعاون کرنے پر تمام سینیٹرز، وفاقی وزیر انسانی حقوق اور سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سابق چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر کا بھی شکریہ ادا کیا۔

سی پیک اتھارٹی

اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) بل 2021 پیش کیا، جسے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی ذیلی کمیٹی کے پاس بھیج دیا۔

اس بل میں متعدد ترامیم کی تجویز پیش کی گئی ہے جس میں سی پیک اتھارٹی کی انتظامیہ کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے کنٹرول میں دینا بھی شامل ہے، ترمیمی بل کے مطابق وفاقی حکومت اتھارٹی کو پالیسی ہدایت جاری کرے گی، جس پر عمل کرنا ہوگا۔

رضا ربانی نے بل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل سی پیک اتھارٹی پر تمام کنٹرول چیف ایگزیکٹو آفیسر کا ہوتا تھا لیکن اگر اس بل کو منظوری مل جاتی ہے تو کنٹرول چیف ایگزیکٹو آفیسر کے بجائے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پاس ہو گا جس میں صوبوں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔

تاہم اس بل کی حکومت کی جانب سے مخالفت کی گئی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ رضا ربانی جتنی ترامیم لے کر آ رہے ہیں، ایسا نہ ہو کہ سی پیک کو پیک کر دیا جائے۔

آرڈیننس

سینیٹر ربانی نے آرڈیننس کے اجرا سے متعلق آئینی (ترمیمی) بل 2021 بھی پیش کیا۔

اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے علی محمد خان نے کہا کہ ملک کے صدر کے پاس آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار ہے، ہمیں صدر پر اعتماد کرنا چاہیے، اگر صدر کو لگتا ہے کہ اس کی ضرورت ہے تو وہ ایک آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آرڈیننس کو پارلیمان منظور نہ کرے تو وہ ختم ہوجاتا ہے، اس طرح آئین پر قدغن کو سپورٹ نہیں کر سکتے۔

رضا ربانی نے کہا کہ صدر سے متعلق اگر پنڈورا باکس نہ کھولتے تو بہتر ہوتا، صدر مملکت پارلیمان سے بالادست نہیں، وجہ بتائیں کہ صدر مملکت قانون سازی کے لیے پارلیمان کے اختیار کیوں استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ وہی صدر ہیں جنہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجا، یہ وہی صدر ہیں جنہوں نے سینیٹ انتخابات خفیہ یا اوپن بیلٹ پیپر سے متعلق ریفرنس بھیجا، شکر کریں کہ صدر مملکت کے خلاف مواخذے کی قرارداد نہیں لائے صرف وجہ پوچھی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ الیکشن میں خفیہ کیمروں کا معاملہ، تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل

رضا ربانی کی جانب سے بل پیش کرنے کی اجازت طلب کرنے پر ایوان میں ووٹنگ ہوئی جس میں بل پیش کرنے کے حق میں 37 جبکہ مخالفت میں 33 ووٹ آئے۔

رضا ربانی نے آرڈیننس سے مذکورہ بل ایوان میں پیش کیا، جسے چیئرمین سینیٹ نے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

سلیم مانڈوی والا نے سول ایوی ایشن (ترمیمی) بل 2021 پیش کیا جس کے تحت پائلٹوں کو پروازوں کے دوران روزہ نہ رکھنے کی ہدایت کی جائے گی، چیئرمین نے مانڈوی والا کو ہدایت کی گئی کہ وہ بل میں ترمیم کے بعد اسے دوبارہ پارلیمنٹ میں پیش کریں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024