عربوں کے دیس میں دیسیوں کی عید
جناب یوں سمجھیے کہ پردیس میں عید آتی نہیں بلکہ ہمت کرکے خود سے لانی پڑتی ہے۔
پاکستان میں چاہے آپ امیر ہوں یا غریب، ملنسار ہوں یا تنہائی پسند، ہر طرح کی سستی یا مہنگی عید حسبِ استطاعت منائی جاسکتی ہے کہ وہاں آپ اپنے کنبے، قبیلے اور محلہ داروں میں گھرے ہوتے ہیں۔ آپ کے چاہنے یا نا چاہنے کی پرواہ کیے بغیر عید کے روز لوگ آپ سے گلے ضرور ملنے آئیں گے۔
معاشرے اور عزیزوں کے لیے بخوشی یا بالجبر آپ کے گھروں میں عید اُتر ہی آتی ہے۔ چنانچہ سستے یا مہنگے پہناوؤں میں لوگوں سے ملنا جلنا اور قہقہوں یا مسکراہٹوں کا تبادلہ ضرور ہوگا، چھوٹا یا بڑا دسترخوان ضرور بچھے گا۔
پردیس میں عید منانے کے لیے آپ کو خصوصی طور پر خوش اخلاق اور ملنسار ہونا پڑتا ہے۔ تنہائی پسند ہوئے، دوستیاں رکھنے اور دعوتیں کرنے سے گھبرائے تو ایک آدھ بار نہیں بلکہ ہر سال آپ کی عید تنہا کمروں میں تنہا یا اپنی ہی چھوٹی سی فیملی کے ہمراہ اداسی بھرے ماحول میں دیسی عیدوں کو یاد کرتے ہوئے کٹ جائے گی، جن میں بن بلائے مہمان جوق در جوق گلے شکوے مٹانے کے لیے عید ملنے تقریباً دروازے توڑتے چلے آتے تھے۔ ویسے یہ بن بلائے مہمان بھی ہمارے معاشرے کی ایک نعمت ہوتے ہیں، یہ احساس اس وقت ہوتا ہے جب پردیس میں کوئی دیسی اکیلا رہ جاتا ہے۔
پردیس میں عید کا روز اکثر دیر تک منہ سر لپیٹے سونے، اداسی اور بوریت، سات سمندر پار اپنوں کو فون کرتے اور پھر دل کو خوش رکھنے کے لیے شام میں کسی ریسٹورینٹ میں جاکر پیزا یا برگر کھالینے کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
اگر آپ تنہائی پسندی کے عادی رہیں گے تو یقین کیجیے کہ اس عادت کی وجہ سے آپ اور آپ کی فیملی بُری طرح سے متاثر ہوگی۔ اگر دوستوں سے ملنے ملانے کی عادت نہیں بھی ہے تو کم سے کم لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنا سیکھ لیں، ان کے ساتھ کبھی بیٹھ کر ٹی وی ہی دیکھ لیں یا ساتھ بیٹھ کر خاموشی سے چائے کافی ہی پی لیں مگر کچھ لوگوں کے ساتھ خاندانی روابط بنانا ضرور سیکھیں تاکہ عید یا بقر عید پر ملاقاتوں کے اسباب بنتے رہیں۔
پردیس میں لوگوں کو گھر بلانا سیکھیں تاکہ لوگ بھی آپ کو اپنے گھر بلانا شروع کریں۔ اگر آپ ایک شوہر اور گھر کے سربراہ ہیں تو شاید آپ کو یہ باتیں زیادہ اہم محسوس نہ ہوں لیکن آپ کے گھر میں رہنے والے دیگر افراد کو اس میل جول کی شدید ضرورت پڑتی ہے۔ آپ دن بھر کی دفتری مصروفیات میں 100 لوگوں سے مل کر آتے ہیں مگر آپ کی بیگم اور بچے گھر کی چار دیواری یا ڈیجیٹل تعلقات تک ہی محدود رہ جاتے ہیں۔ یوں آپ کے گھر والے ڈپریشن اور مختلف نفسیاتی اور شخصی مسائل کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔
ہم نے جب پردیس میں چند بے رونق سی عیدیں گزاریں تو اس میں دیسی مزاج پیدا کرنے کے لیے ذہن دوڑانا شروع کیا۔ پردیس اور بالخصوص خلیجی ممالک میں بسے ہم وطن مندرجہ ذیل مشوروں پر عمل کرکے اپنی عیدوں کو دیسی تڑکا دے سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو وہ دیسی لوازمات یاد کریں جن کو آپ عید پر یاد کرتے ہیں۔
مہندی لگانا، چوڑیاں خریدنا، شیر خرمہ، چنا چاٹ، کیک، مٹھایاں، کڑاہی، بریانی، چانپیں، بار بی کیو، صبح سویرے اٹھنا تیار ہونا، عید ملنا، مہمان بن کر جانا اور مہمان نوازیاں کرنا۔ یہ سب کام آپ اب بھی کرسکتے ہیں۔
تھوڑی تھوڑی بچت کرکے عید کی تیاریوں کے لیے مناسب رقم جمع کیجیے.
کم سے کم بچوں کے لیے اہتمام سے نئے کپڑے بنوائیے اور جوتے خریدیے۔
چاند رات پر جاگیں اور گھر میں وہ تمام پکوان تیار کریں یا کروائیں جو آپ کے اہلِ خانہ کی عید روایات کا خاصہ ہیں۔
ان کاموں سے پردیس میں آپ کی عید کسی حد تک پُررونق ضرور ہوجائے گی۔ دوسرا فائدہ اس کا یہ ہوگا کہ آپ کے بچے پردیس میں پلتے جن روایات اور تہواروں کو بھولتے جا رہے ہیں یا کبھی جان ہی نہ سکے ہیں، وہ ان روایات اور تہواروں سے روشناس ہوں گے اور اپنی ہر عید دیسی رنگ ڈھنگ میں گزاریں گے۔
بغیر نمازِ عید کے خوشیاں بھی پھیکی پھیکی ہی رہیں گی کیونکہ یہ وہ نیت ہے جس کے بغیر عید کی برکتیں اور خوشیاں ادھوری رہتی ہیں۔ چنانچہ صبح سویرے نماز عید کے لیے ضرور اٹھیں، اپنے بیٹوں کو ساتھ لیکر نماز پڑھنے جائیں، بالکل ویسے جیسے آپ بچپن میں اپنے والد کے ساتھ جاتے رہے ہیں۔ عرب ممالک خصوصاً متحدہ عرب امارات میں تو عورتوں کے لیے بھی نمازِ عید کا اہتمام کیا جاتا ہے، لہٰذا خواتین اس سے خوب فائدہ اٹھائیں اور صبح سویرے پوری فیملی کے ہمراہ عید کی نماز ادا کریں۔
ہم نے ایسے بھی تواضع پسند لوگ دیکھے ہیں جو صبح صبح تیار ہوکر صرف نماز پڑھنے ہی نہیں جاتے بلکہ نماز کے بعد مسجد میں ہر اجنبی شخص، خواہ وہ کسی بھی ملک اور قومیت کا ہو، اس سے گلے مل کر گرمجوشی سے عید مبارک ضرور کہتے ہیں۔
عید کے دن اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کو لازماً دعوت دے کر گھر بلائیے چاہے چائے پر ہی سہی، ون ڈش کیجیے یا اپنے بجٹ کے مطابق انواع اقسام کے طعام پکائیں مگر کھانے کی دعوت کا اہتمام ضرور کیجیے۔ یہ اہتمام ہی ہے جو آپ کی عید کو خوبصورت کردے گا۔
ہم جانتے ہیں کہ دعوتوں کے بعد گھر میں پھیلاؤ ہوگا، برتنوں کا ڈھیر جمع ہوگا، لیکن زندگی کی دیگر مصروفیات کے ساتھ اگلے 2 سے 3 دنوں میں برتن بھی دھل جائیں گے اور بکھرے گھر کا نظم و ضبط بھی بحال ہوجائے گا مگر عید کی یادیں تاحیات رہیں گی۔
ہمیں اندازہ ہے کہ روایات کو بنانا اور نبھانا اب اتنا بھی آسان نہیں، ان کے لیے تھوڑی بہت محنت تو آپ کو کرنی ہی پڑے گی۔ سُستی اور اداسی وہ چادر ہے جسے جتنا چاہے پھیلاتے جاؤ یہ پھیلتی جاتی ہے۔ بیٹھ کر پرانی عیدوں، عزیزوں اور گھر والوں کو یاد کرتے رہیں گے تو عید پر سوائے ڈپریشن کے کچھ نہیں ملے گا۔ تھوڑی سی ہمت اور تھوڑی سی کاوش سے انسان پردیس میں خاندانوں سے دُور بھی کافی اچھی عید منا لیتا ہے۔
پردیس میں بسے پاکستانی اکثر اپنی قربانیاں اپنے آبائی علاقوں اور آبائی گھروں میں کروا دیتے ہیں چنانچہ بقر عید پر بکرے کے گوشت سے محروم رہتے ہیں۔ قربانی کا گوشت نہیں ملتا تو کوئی مضائقہ نہیں کہ 2 سے 3 کلو مٹن نزدیکی سپر مارکیٹ سے 3، 4 دن پہلے خرید کر رکھ لیا جائے۔ کم و بیش 40 درہم کا کلو تو آئے گا مگر عید اچھی ہوجائے گی۔ اگر مٹن لینے میں دیر ہوگئی تو پھر شاید مارکیٹ سے بھی نہ ملے۔ اب چاہے اس سے کڑاہی بنائیے یا مصالحہ لگا کر بار بی کیو کے لیے کسی پارک جائیں، ہاں یہ بات یاد رکھیے کہ تہواروں کے مواقع پر پارک میں پارکنگ کی جگہ مشکل سے ملتی ہے کیونکہ عید کے روز یہ پارک عید اسی انداز سے منانے والوں کی کرسیوں، میزوں اور بار بی کیو کے چولہوں سے بھرے ہوں گے۔
عربوں کو ہر تہوار اور ہر اہم موقع پر پارکوں میں بڑی بڑی محافل سجانے کی عادت ہے جہاں کئی کئی خاندان اپنے ساتھ کرسیاں میز، بچوں کی سائکلیں اور اسکوٹیاں لاکر پارکوں میں پہنچتے ہیں اور گول دائروں میں باغ کے ایک کونے پر اپنی بار بی کیو کی محفل سجا لیتے ہیں۔ ہم نے بھارتیوں کو بھی اکثر پارکوں میں اس طرح کی محافل سجاتے دیکھا ہے۔ پاکستانیوں کی ایسی محافل ہم نے کم ہی دیکھی ہیں، اگر ہوں بھی تو زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔
پارک پر محفل سجانے کا ارادہ ہو تو دو چار جان پہچان والوں کو بھی دعوت دیجیے، چاہے عام دنوں میں وہ آپ کو کتنے ہی نک چڑے یا اکھڑ مزاج کیوں نہ لگتے ہوں مگر آج عید کا دن ہے اور ان کی شرکت سے آپ کی عید ضرور اچھی ہوجائے گی۔
صرف محبتیں ہی نہیں، خوشیاں بھی دوسروں کے ساتھ ضرب دے دی جائیں تو بڑھ جاتی ہیں۔ عید پر جتنا ملنا ملانا اور محبت کا اظہار زیادہ ہو عید اتنی ہی خوبصورت ہوتی جائے گی۔ عیدیں چھوٹے دل والوں پر اپنی خوشیاں بمشکل نچھاور کرتی ہیں۔ عیدیں منانی ہیں تو دل کے دروازے کھولیے۔
اپنے دیس کی بات کریں تو آپ کو وہاں بھی کچھ ایسے لوگ ملیں گے جو پاکستان میں رہ کر بھی ساری عمر یہ نہ سیکھ سکے اور نہ کوئی ان کو یہ سکھا سکا کہ یہ ایک اہتمام کا دن ہے۔ اسی لیے وہ عید کے روز چہل پہل سے دُور یہ سوچ کر سارا دن بند کمرے میں سوکر گزار دیتے ہیں کہ یہ عام سا ایک چھٹی کا دن ہی تو ہے اور اس دن میں کیا رکھا ہے۔
ہم سوچتے رہتے ہیں کہ اس دن شاید کوئی شادمانیوں کا تھال ہمارے لیے من و سلویٰ کی طرح آسماں سے اترنا چاہیے تھا جو نہیں اترا۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ اپنی خوشی کی خاطر یہ اہتمام ہمیں خود کرنا تھا جس سے ہم محروم رہے۔ آپ بھی میرا یہ نسخہ آزما کر دیکھیں، عید خوبصورت نہ ہوئی تو پیسے واپس۔
خلیجی ممالک خصوصاً عرب امارات میں عید کی چھٹیاں اکثر عید سے زیادہ لانگ ویک اینڈ کے طور پر منائی جاتی ہیں کہ سارا سال چھٹیوں کی محدود تعداد کی بنا پر انہیں سیر و تفریح کے لیے بھی مخصوص کردیا جاتا ہے۔
آپ دبئی یا ابوظہبی میں نئے نئے ہیں تو مالز میں گھومنا پھرنا آپ کے لیے ایک اچھی عیاشی ثابت ہوسکتی ہے۔ ہم تیسری دنیا کے لوگوں نے اتنے بڑے مالز اور عالمی برانڈ کی اتنی کثیر تعداد اور ایسی خوبصورت اور کمال کی مصنوعات کم ہی دیکھی ہوتی ہیں چنانچہ مالز کی سیر شروعات میں ہمارے اوپر حیرتوں کے پہاڑ گرانے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عیدین پر مالز لوگوں سے اس طرح بھرے ہوتے ہیں جیسے وہاں کوئی لوٹ سیل مچی ہو۔ وہاں زیادہ رش خریداروں کا نہیں ہوتا بلکہ اکثر افراد صرف اسٹورز کے باہر گیلریوں میں مٹر گشتی کر رہے ہوتے ہیں، جسے مہذب زبان میں ونڈو شاپبنگ بھی کہا جاتا ہے۔
اگر آپ کی تنخواہ اچھی ہے تو ملنے ملانے اور مالز گھومنے کے علاوہ بھی کچھ عیاشی کرسکتے ہیں۔ گھر یا پارک میں بار بی کیو نہ سہی کسی اچھے ہوٹل میں جاکر اپنی پسند کا کھانا کھا سکتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں گروپ اون، انٹرٹینر سمیت بہت سے ڈسکاؤنٹ واؤچرز عام ہیں جو عید وغیرہ پر خصوصی ڈیلز آفر کرتے ہیں۔ عید کی لمبی چھٹیاں آپ فیملی کے ساتھ اپنے بجٹ کے مطابق کسی دوسرے شہر کے ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں بھی گزار سکتے ہیں۔
خود ہم نے کئی عیدیں العین، فجیرہ، راس الخیمہ اور دبئی کے بہترین ہوٹلز اور ریزورٹس میں گزار رکھی ہیں۔ وہاں نہ صرف سجے سجائے صاف ستھرے کمرے مل جاتے ہیں، بلکہ دو یا تینوں وقت پکا پکایا عالیشان بوفے ملتا ہے۔ (اب بھلا گھریلو خواتین کے لیے اس سے بڑی عیاشی کیا ہوسکتی ہے کہ خودبخود صفائیاں ہوجائیں، پکے پکائے مزیدار اور معیاری کھانے مل جائیں) بلکہ شدید گرمیوں میں ٹھنڈے سوئمنگ پول میں سارا دن گزار کر آپ اور آپ کی فیملی پچھلی ساری مصروفیات کی تھکاوٹ بھی اتار سکتی ہے۔
خلیجی ممالک میں ایسے سوئمنگ پولز کے لیے آپ کو قطعی طور پر بکنی پہننے کی ضرورت نہیں، آپ برکنی، جس میں جسم کے ساتھ سر کے بال بھی ڈھانپے جاسکتے ہیں یا ٹراؤزر شرٹ پہن کر بھی پانی میں ڈبکی لگاسکتے ہیں۔
ایسے ہوٹلوں میں اکثر بچوں کے لیے کلب اور پلے ایریا بھی موجود ہوتے ہیں اور اکثر و بیشتر بونس میں کسی تھیم پارک یا واٹر پارک کا مفت ٹکٹ بھی مل جاتا ہے۔ خصوصاً ابوظہبی میں یاس آئی لینڈ اور دبئی میں جمیراح کے تمام ہوٹلوں کے ساتھ آپ کو ان کے تھیم پارکس کے ٹکٹس مفت میں ملتے ہیں۔
مختلف ہوٹلوں اور ریزورٹس خود بھی عید پر ڈیلز آفر کرتے ہیں جنہیں آپ اپنے بجٹ کے حساب سے حاصل کرسکتے ہیں۔ کم پیسے ہیں تو 3 ستارہ ہوٹل اور اگر آپ مالدار ہیں تو 5 ستارہ ہوٹل کا انتخاب کیجیے۔ ان ہوٹلوں میں عید کا مزہ حقیقتاً دوبالا ہوجاتا ہے۔
تو جناب پردیس میں 2 سے 3 دن کی آؤٹنگ ضرور کیجیے لیکن عید کے روز سج سنور کر اپنی روایتوں کو زندہ رکھنے کی سعی بھی لازمی کیجیے، پردیس میں ہیں تو کیا ہوا، آخر ہیں تو دیسی!
تصاویر بشکریہ لکھاری
تبصرے (1) بند ہیں