جمشید نسروانجی کون تھے
جمشید مہتا 1936 میں کراچی میونسپلٹی کارپوریشن کی جانب سے اپنے اعزاز میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے -- پبلک ڈومین فوٹو -- بشکریہ مصنف انگریزی میں ایک لفظ "Ownership" استعمال کیا جاتا ہے۔ آکسفورڈ انگلش ٹو اردو ڈکشنری میں اس لفظ کے معنی "ملکیت" یا "نسبت" بیان کیے گئے ہیں۔ اسی طرح سندھی میں ایک لفظ "مالکی" استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی فرد یا علاقے کو لاوارث قرار دیا جائے سندھی میں عموماََ کہا جاتا ہے؛ "اداھن جي مالکي کرن وارو کیر کو نھي"۔ شہر کراچی کی موجودہ صورت حال اس جملے کے عین مطابق ہے۔ گو کہ اس شہر کی مالکی کے دعوے دار تو بہت ہیں۔ مگر جن لوگوں نے ہندوستان کی تقسیم سے قبل اور اس کے کچھ عرصے بعد تک اس شہر کی مالکی کی اور اس شہر کو ایک جدید شہر بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اب کراچی میں ان کی مالکی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کراچی کے ان عظیم بانی محسنوں کی خدمات کے اعتراف میں ان کے جو مجسمے لگائے گئے تھے یا جن سڑکوں کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ وہ مجسمے غائب ہو چکے ہیں اور سڑکوں کے نام تقریباََ تبدیل کر دیے گئے ہیں، بہ ہر حال آج ہمارا موضوع پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے فرد جمشید نسروانجی ہیں۔ جنھیں بابائے کراچی کہا جاتا تھا۔ جمشید نسروانجی کا پورا نام جمشید نسروانجی رستم جی مہتا تھا۔ وہ 1886 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا انتقال 8 اگست 1952 کو ہوا۔ انہوں نے اپنی عوامی خدمات کا آغاز 1915 میں کر دیا تھا۔ گل حسن کلمتی اپنی کتاب "سندھ جا لافانی کردار" (سندھ کے لافانی کردار) میں لکھتے ہیں کہ 1919 میں جب انفلوائنزا کی بیماری نے کراچی میں وبا کی شکل اختیار کی تو انھوں نے دن رات عوام کی خدمت کی جس کے نتیجے میں وہ عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ وہ 1922 میں کراچی میونسپلٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ اور اکتوبر 1932 تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔
جمشید نسروانجی رستم جی مہتا کراچی میونسپلٹی کارپوریشن کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے -- پبلک ڈومین فوٹو -- بشکریہ مصنف یہ یقیناً کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔ کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب ’کراچی کی کہانی‘ میں جمشید کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛ "میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ (حالیہ ایم اے جناح روڈ) سے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اُس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے"۔ جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اُسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ نام ور شاعر، پروفیسر عنایت علی خان کا ایک شعر کراچی کے حالات کے عین مطابق ہے۔ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر جمشید یادگاری کمیٹی کی 1954 میں چھپی کتاب میں لکھا ہے کہ جمشید ہر صبح کو یہ دعا کرتے تھے؛ اے خدا میں ہر روز تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں اے خدا مجھے کارآمد بنا اے خدا مجھے بے ضرر بنا اے خدا مجھے شفاف رکھ اے خدا مجھے اپنا ذریعہ بنا میں یہی دعا کرتا ہوں جئے سندھ تحریک کے بانی علیحدگی پسند رہنما سائیں جی ایم سید اپنی کتاب 'جنب گزریم جن سیں' (میری زندگی کے ہم سفر) کے صفحہ نمبر 116 پر جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔ جداگانہ انتحابات کی وجہ سے کامیابی کے لیے ان کا انحصار ہندو ووٹرز پر ہوتا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد 1937 میں وہ ضلع دادو سے سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور آزاد حیثیت میں اسمبلی کے رکن رہے۔ سندھ اسمبلی کے ہندو اراکین نے چھوٹی بڑی باتوں پر حکومت کی حمایت اور مخالفت شروع کی۔ چوں کہ وہ ہندو ووٹرز کی وجہ سے منتخب ہوئے تھے۔ اس لیے ان سے تقاضا کیا جانے لگا کہ وہ ہندو اراکین کی حمایت کریں۔ اس بات پر ناراض ہو کر انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس وقت کی سندھی سیاست میں یہ بڑی اہم بات تھی۔ اکثر مسلم اراکین ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کی قربانی دے رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ غیر مسلم اور ایمان دار کارکنوں کے لیے ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ سیاست سے دستبردار ہو گئے۔ جمشید نسروانجی صحت عامّہ کے حوالے سے خاص طور پر فکر مند رہتے تھے۔ خصوصاََ زچگی کے حوالے سے۔ انھوں نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا کہ شہر کے تمام کوارٹرز (علاقوں) میں زچّہ بچّہ کے مراکز قائم کیے جائیں۔ اس معاملے میں پہل انھوں نے خود کی اور اپنی والدہ گل بائی کے نام سے صدر میں جہانگیر پارک کے قریب ایک میٹرنیٹی ہوم قائم کیا۔ اس کے علاوہ دیگر افراد سے چندہ لے کر میٹرنیٹی ہوم بنوائے (ان میٹرنیٹی ہومز کا ذکر کسی اور بلاگ میں کریں گے)۔ جمشید سیاست کو بُرا نہیں سمجھتے تھے لیکن وہ سیاست میں تشدد کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اُن کی پوری زندگی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سیاست کو ہی تبدیلی کا ذریعہ مانتے تھے۔ وہ ایک خدا ترس انسان تھے اور ان کا ماننا تھا کہ لڑائی جھگڑے سے مسئلے حل نہیں ہو سکتے۔ اس معاملے میں وہ مہاتما گاندھی سے بہت متاثر تھے.
جمشید مہتا، گاندھی جی کے ساتھ -- پبلک ڈومین فوٹو -- بشکریہ مصنف 1954 میں جمشید یادگاری کمیٹی کی جانب سے ان کی یاد میں شائع ہونے والی کتاب "جمشید نسروانجی ایک یادگار" میں اس حوالے سے ایک واقعے کا ذکر یوں ہے کہ تقسیم ہند سے قبل انگریزوں کی حکومت کے خلاف پورے ہندوستان میں ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ یہ ہڑتال کراچی میں بھی ہوئی اس موقعے پر دکانیں اور مارکیٹیں بند رہیں۔ پولیس نے ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے کاروائی کی اور ایک بچے کو گرفتار کر لیا۔ پولیس اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ ہجوم کو متشر کرنے کے لیے گولی چلائی جائے۔ عین اس موقع پر جمشید وہاں پہنچ گئے اور ہجوم اور پولیس کے بیچ آ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کون ہے جو بچے کو آزاد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے پولیس گولی انھیں مارے۔ ان کی جرات اور بہادری نے پوری صورت حال کو قابو میں کر لیا۔ پولیس پیچھے ہٹ گئی۔ بچے کی رہائی کی وجہ سے ہجوم بھی منتشر ہو گیا۔ یہ تھے جمشید۔ حاتم علوی جمشید یادگاری کتاب میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ جس وقت جمشید نے کراچی میونسپلٹی کی صدارت سنبھالی اُس وقت کراچی کی سڑکیں پکی نہیں ہوتی تھیں۔ اُن کے دور میں ان سڑکوں کی لمبائی چودہ میل تھی لیکن جب جمشید نے اپنا عہدہ چھوڑا تو اُس وقت کراچی میں 76 میل لمبی پکی سڑکیں موجود تھیں۔ ان سڑکوں پر تارکول کی تہہ بچھائی گئی تھی جس کے سبب یہ سڑکیں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں۔
جمشید مہتا، گرو دیو رابندرا ناتھ ٹیگور اور دیگر کے ساتھ -- پبلک ڈومین فوٹو -- بشکریہ مصنف --. تقسیم کے وقت تک کراچی کی سڑکیں بالکل برابر ہوتی تھیں۔ ان سڑکوں پر گڑھوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ آج ان سڑکوں کی جو حالت ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے (یہ مضمون 1954 میں لکھا گیا تھا)۔ حاتم علوی اپنے مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ کراچی میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا آغاز باقاعدہ ان ہی کے دور میں ہوا۔ جب آرٹلری میدان کے علاقے میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا کام مکمل ہو گیا۔ اس وقت کے قوانین کے مطابق کسی بھی ادارے کو پانی کے استعمال کا ٹیکس عمارت کی تعمیر پر آنے والی لاگت کے حساب سے ادا کرنا ہوتا تھا۔ انہی دنوں آرٹلری میدان میں واقع چیف کورٹ (سابقہ سپریم کورٹ، موجودہ سندھ ہائی کورٹ) کی عمارت کو بھی پانی فراہم کیا جانے لگا۔ چیف کورٹ کی عمارت 30 لاکھ میں مکمل ہوئی تھی۔ اس حساب سے چیف کورٹ کو 7 فیصد ٹیکس ادا کرنا تھا۔ اس وقت کی بیوروکریسی اتنا بھاری ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ بلاآخر جمشید نے ٹیکس نہ ادا کرنے کی صورت میں چیف کورٹ کا پانی بند کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ اطلاع ملتے ہی نوکر شاہی میں ایک ہلچل مچ گئی۔ مبمئی سے ایک سرکاری افسر دوڑا دوڑا کراچی پہنچا۔ آخر کار یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کر لیا گیا۔ ہمارا خیال ہے کہ اُس وقت شاید عدالتوں کے پاس توہین عدالت یا از خود کسی بھی معاملے کا نوٹس لینے کا کوئی اختیار نہ تھا۔ جاری ہے.. اگلے حصّے میں ہم جمشید جی کے بناۓ ہوئے میٹرنٹی ہومز کا حال بیان کریں گے...
اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں
تبصرے (15) بند ہیں