تہذیب یافتہ سینما کا عہد تمام ہوا
فلم کی کہانیوں میں زبان کی چاشنی و سلاست اور لہجے کی شیرنی ایک ساتھ گھلی دیکھنی اور محسوس کرنی ہو تو دلیپ کمار کو گفتگو کرتے دیکھیے۔ وہ کوئی ادیب یا قلم کار بھی نہ تھے مگر ان کے ہاں زبان کی تہذیب اس قدر ذرخیز ہے کہ جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
وہ اردو بولیں یا انگریزی، گفتگو کے بامِ عروج پر ہوتے تھے، صرف یہی نہیں بلکہ انہیں پنجابی، پشتو، مراٹھی، بنگالی، گجراتی، ہندکو، فارسی، اودھی اور بھوج پوری زبانوں پر بھی دسترس تھی۔ برِصغیر پاک و ہند میں ادبی روایات اور طلسماتی اداکاری کا یہ زریں باب اختتام پذیر ہوگیا۔ بقول غالب
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
برِصغیر کے سینما کی تاریخ میں 1913ء میں دادا صاحب پھالکے کی بنائی ہوئی فلم 'راجہ ہریش چندر' ہو، جو برِصغیر کی پہلی خاموش فلم تھی، یا پھر 1931ء میں ریلیز ہونے والی پہلی بولتی فلم 'عالم آرا' ہو۔ غیر منقسم ہندوستان میں ان فلموں نے سینما کے زریں عہد کا آغاز کیا۔
اس خطے کی فلمی تاریخ میں 100 سال سے بھی زیادہ عرصہ بیت گیا، فلمیں بن رہی ہیں، فنکار اور ہنرمند اس میں اپنی صلاحیتیں آزما رہے ہیں۔ غیر منقسم ہندوستان کے سینما میں اگر ہم کسی پہلے سپر اسٹار کو تلاش کریں تو ہماری نگاہیں صرف ایک ہی اداکار پر جاکر ٹھہرتی ہیں جنہوں نے حقیقی معنوں میں سپر اسٹار کا مقام حاصل کیا اور جو برِصغیر پاک و ہند کے فلمی منظرنامے پر چھائے رہے، ان کا نام محمد یوسف خان ہے، جنہیں فلمی دنیا دلیپ کمار کے نام سے جانتی ہے۔
ایک ایسا اداکار جس کی یہ عادت تھی کہ جب بھی وہ اپنے لیے کسی کردار کو منتخب کرتا تو سب سے پہلے اس کردار کی نفسیات کو پرکھتا، اس کے جذبات کی تہہ میں اترتا، اس کو اپنے اوپر طاری کرتا، پھر اسے برقی آنکھ کے سامنے کچھ اس طرح ادا کرتا کہ وہ کردار فلم بینوں کے دل میں اتر جاتا اور اذہان میں نقش ہوجاتا۔
ایسے کئی کردار فلمی تاریخ میں بکھرے ہوئے ہیں، جن کو اس فنکار نے ادا کیا اور آگے بڑھ گیا، لیکن وہ کردار اس کی انگلی تھامے، اس کے ہمراہ جانے کی خواہش میں فلم بینوں کے دلوں میں رچے بسے رہے۔ شاید کچھ ایسے کردار بھی ہیں جن کی انگلی تھامے وہ فنکار خود بھی مخصوص لمحوں میں جامد رہا کیونکہ یہی کسی فن کی معراج ہے کہ آپ اپنے کام کو اس طرح کریں کہ وہ کام ساری زندگی آپ کے کام آتا رہے۔
دلیپ کمار نے اپنا کام بہت دل لگا کر کیا اور جب محسوس ہوا کہ یہ کام ان کے بس میں نہیں رہا تو بہت خاموشی کے ساتھ اس کام سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ یہی ان کا طرۂ امتیاز تھا۔
ابتدائی زندگی
دلیپ کمار کی پیدائش غیر منقسم ہندوستان کے دور میں پشاور شہر کی ہے جو برِصغیر پاک و ہند کے بہت سارے بڑے بڑے فلمی ستاروں کا آبائی شہر رہا ہے۔ وہ 11 دسمبر 1922ء کو پشاور کے پشتون خاندان میں پیدا ہوئے اور 7 جولائی 2021ء کو 98 برس کی عمر میں ان کی رحلت ممبئی میں ہوئی۔
ان کے والد کا نام لالہ غلام سرور اور والدہ کا نام عائشہ بیگم تھا۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ان کا آبائی گھر آج بھی موجود ہے، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کے معصوم دن گزارے۔ وہ دن جب وہ اپنی والدہ سے شاید پوچھا کرتے تھے کہ یہ سورج کہاں سے طلوع ہوتا ہے اور پھر یہ کہاں غروب ہوجاتا ہے۔ زندگی کی رعنائیاں محسوس کرنے والے دل کی تڑپ ان کو فنِ اداکاری کی طرف لے آئی۔
انہوں نے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے کے علاوہ برطانوی فوج کی کینٹین میں ملازمت بھی کی۔ وہ کم عمری میں ہی پشاور سے ممبئی چلے آئے اور تلاشِ معاش میں مصروف رہے۔ اسی عرصے میں تقدیر ان کو معروف اداکارہ اور بمبئے ٹاکیز جیسے فلم ساز ادارے کی مالکن 'دیوکارانی' تک لے آئی جنہوں نے ان کو دلیپ کمار کا نام عطا کرنے اور فلم 'جوار بھاٹا' میں پہلی بار ہیرو کا کردار بھی دیا۔ 1944ء میں دلیپ کمار کی یہ پہلی فلم باکس آفس پر کامیابی تو حاصل نہ کرسکی لیکن فلم سازوں کی گھاگ نظریں پہچان چکی تھیں کہ یہ اداکار بہت آگے جانے والا ہے۔ یہی یوسف خان بولی وڈ کا پہلا کامیاب خان ہیرو ثابت ہوا۔
1947ء میں فلم 'جگنو' میں میڈم نور جہاں کے ساتھ کام کیا، اس فلم کے ہدایت کار شوکت حسین رضوی تھے۔ 1949ء میں فلم 'انداز' میں راج کپور اور نرگس کے ساتھ فن اداکاری کے جوہر دکھائے، محبوب خان کی بنائی ہوئی اس فلم کو بھی بہت مقبولیت ملی۔ دلیپ کمار کی شہرت کا پرندہ اب پرواز بھرنے لگا تھا۔
ہندوستانی اور پاکستانی سینما کی تاریخ میں 40ء کی دہائی سے لے کر 70ء کی دہائی تک کے دور کو فلموں کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے اور یہی دور دلیپ کمار کے کیریئر کا بھی سنہری دور تھا۔ انہوں نے میتھڈ ایکٹنگ کے انداز کو ہندوستانی سینما میں متعارف کروایا۔ اپنی ایک فلم 'کوہ نور' کے لیے انہوں نے ستار بجانے کی تربیت حاصل کی، وہ اپنے کرداروں کے لیے ایسی باریک بینی سے ریاضت کرتے تھے۔
اداکاری اور المیہ نگاری کے شہنشاہ
50ء کی دہائی کے آغاز میں ہی ان کی فلمیں 'دیدار' اور 'داغ' نمائش پذیر ہوئیں، پھر 1955ء میں ان کی فلم 'دیوداس' ریلیز ہوئی، گویا اس نے ان کی فلمی تقدیر کی کایا ہی پلٹ دی۔ اس فلم سے دلیپ کمار ایک اداکار سے بڑھ کر اداکاری اور المیہ نگاری کے شہنشاہ ثابت ہوئے۔ یہاں سے بیدار ہونے والی اس فنی لہر نے کئی مراحل طے کیے اور پھر 1960ء میں ریلیز ہونے والی فلم 'مغلِ اعظم' میں انہوں نے گویا اداکاری کے بامِ عروج کو پالیا۔ یہ ایسی بلندی تھی جہاں تک دلیپ کمار خود بھی دوبارہ پھر نہ پہنچ سکے۔
مغلِ اعظم فلم میں شہزادہ سلیم کے کردار نے صرف اردو سینما کے فلم سازوں اور فلم بینوں کو ہی نہیں بلکہ مغربی فلم سازوں کو بھی متاثر کیا۔ ان میں سرِفہرست برطانوی فلم ساز 'ڈیوڈ لین' تھے۔ یہی وہ فلم ساز تھے جنہوں نے 'لارنس آف عربیہ' فلم بنائی تھی، اس میں جو کردار مصری اداکار عمر شریف نے ادا کیا تھا اس کی پیشکش دلیپ کمار کو بھی کی گئی تھی۔ اگر وہ اس وقت اس کردار کے لیے ہامی بھر لیتے تو بہت ممکن ہے کہ اس فلم کے بعد ان کا کیریئر ہولی وڈ میں بھی چل پڑتا کیونکہ ان کو انگریزی زبان پر بھی مکمل عبور تھا۔
بچپن سے انگریزی فلموں اور انگریز اداکاروں کی پسندیدگی کی وجہ سے وہ اس طرز کے سینما کا فہم بھی رکھتے تھے۔ ان کو ہولی وڈ اور برطانوی سینما کے مزاج کا اندازہ تھا مگر پھر بھی انہوں نے اس اہم فلم کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اسی برطانوی فلم ساز نے 'تاج محل' نامی ایک اور فلمی منصوبہ شروع کرنا چاہا جس میں ہولی وڈ کی مایہ ناز اداکارہ الزبتھ ٹیلر کے مدِمقابل دلیپ کمار کو کاسٹ ہونا تھا لیکن یہ منصوبہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر منسوخ ہوگیا۔
دلیپ کمار نے اپنے فلمی کیریئر میں گنگا جمنا، مدھومتی، رام شیام، نیا دور، ودھاتا، کرانتی، کرما، سوداگر اور شکتی نامی فلموں سے بھی نام کمایا۔ آخری فلم قلعہ کو کچھ زیادہ کامیابی نہ ملی۔ دلیپ کمار اس بات کو محسوس کرچکے تھے اسی لیے خاموشی سے فلمی منظرنامے سے ہٹ گئے۔
ایک مرتبہ ان کو فلم 'باغبان' کے لیے پیشکش کی گئی مگر انہوں نے اپنے مدمقابل مناسب ساتھی اداکارہ نہ ہونے کی وجہ سے انکار کردیا۔ کئی برسوں بعد یہ فلم پھر امیتابھ بچن نے کی جس میں ان کے ساتھ ہیما مالنی نے کام کیا تھا۔ دلیپ کمار نے راج کمار اور امیتابھ بچن کے ساتھ یادگار کردار نبھائے جبکہ ہیروئنز میں تمام نمایاں اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا لیکن مدھوبالا کے ساتھ مغلِ اعظم میں کی گئی اداکاری ان کے پورے فلمی کیریئر پر بھاری رہی۔
فلمی منظرنامے پر ایک طرف دلیپ کمار نے اپنے فن کی جادوگری کو طویل عرصے تک قائم رکھا تو دوسری طرف وہ زندگی کے اصل کرداروں سے بھی ہم کلام ہوتے رہے۔ ان کے حقیقی جذبات، فلمی کہانیوں سے کہیں زیادہ شدت میں تھے۔ انہوں نے محبت کے سفر میں کئی منزلیں طے کیں، کامنی کوشل سے شروع ہونے والی محبت کی کیفیت مدھوبالا، وجنتی مالا سے ہوتی ہوئی سائرہ بانو تک پہنچی۔
زندگی کی کہانی میں حقیقی شریکِ حیات سائرہ بانو ہی ٹھہریں، ایک عارضی شادی کے تحت اسما نامی خاتون سے تعلق استوار ہوا لیکن دیرپا ثابت نہ ہوا اور علیحدگی ہوگئی۔ مدھوبالا سے پروان چڑھنے والی محبت شاید کوئی حتمی رُخ اختیار کرلیتی لیکن اس معاملے میں دلیپ کمار کی شخصی انا آڑے آگئی جس سے مدھوبالا کا کیریئر اور صحت دونوں کسی حد تک تباہ ہوئے۔ اس بات کا دلیپ کمار کو بھی غم تھا اور وہ اس کو اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرتے تھے کہ ان کی وجہ سے مدھوبالا کو زندگی کی سختیاں جھیلنا پڑیں۔ دلیپ کمار سے ٹوٹ کر محبت کرنے والی خواتین میں مدھوبالا ہی سرفہرست رہے گی۔
فلموں کی فہرست
دلیپ کمار نے اپنے فلمی کیرئیر میں کل 62 فلموں میں کام کیا، جن کے ناموں کی فہرست بالترتیب کچھ یوں ہے۔
(1944) جوار بھاٹا
(1945) پراتیما
(1946) ملن
(1947) جگنو
(1948) گھر کی عزت، شہید، میلہ، انوکھا پیار، ندیا کے پار
(1949) شبنم، انداز
(1950) جوگن، آرزو، بابل
(1951) ہلچل، دیدار، ترانہ
(1952) داغ، سنگدل، آن
(1953) شکست، فٹ پاتھ
(1954) امر
(1955) دیو داس، آزاد، اڑن کھٹولہ، انسانیت
(1957) مسافر، نیا دور
(1958) یہودی، مدومتی
(1959) پیغام
(1960) کوہ نور، مغل اعظم
(1961) گنگا جمنا
(1964) لیڈر
(1966) پاری، دل دیا درد لیا
(1967) رام اور شیام
(1968) آدمی، سنگھرش، سادھو اور شیطان
(1970) ساجینا ماہاتو، گوپی
(1972) داستان، انوکھا ملن، کوشش
(1974) ساجینا، پھر کب ملو گی
(1976) بیراگ
(1981) کرانتی
(1982) شکتی، ودھاتا
(1983) مزدور
(1984) مشال، دنیا
(1986) دھرم ادیکاری، کرما
(1989) خون اپنا اپنا
(1990) عزت دار
(1991) سوداگر
(1998) قلعہ
کیریئر کا زوال
دلیپ کمار کی اداکاری سے مزین 2 مکمل تیار فلمیں 'آگ کا دریا' اور 'کلنگا' نامعلوم وجوہات کی بنا پر ریلیز نہیں ہوسکیں، ان میں سے فلم 'کلنگا' کی ہدایات بھی دلیپ کمار نے دی تھیں۔ یہ ان کی واحد فلم ہے جس میں وہ بطور ہدایت کار کام کرتے نظر آئے۔ اسی طرح ایک فلم 'شکوہ' بھی ہے، جو دلیپ کمار کی نامکمل فلم ہے، جس میں ان کے مدِمقابل اداکارہ 'نوتن' تھیں۔ سبھاش گھائے کی ایک فلم 'مدر لینڈ' میں بھی وہ امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان کے ساتھ کاسٹ میں تھے مگر پھر اس فلم سے انہوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
70ء کی دہائی سے دلیپ کمار کا کیریئر زوال پذیر ہونا شروع ہوا جس کی ایک بدترین مثال ان کی فلم 'داستان' تھی۔ اس فلم کے خسارے اور باکس آفس پر شدید ناکامی نے واضح کردیا تھا کہ اب دلیپ کمار کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، دلیپ کمار نے دیوداس اور مغلِ اعظم جیسی فلموں کے ذریعے اپنا امیج اس قدر بلند کردیا تھا کہ اس کے بعد آنے والی فلمیں ان کی کارکردگی دکھا نہیں پارہی تھیں۔ یا یوں کہیں، فلم بینوں کے دل پر ان کے دیگر کردار اثر انداز نہیں ہورہے تھے۔ دلیپ کمار کی سوانح حیات 'دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو' کو پڑھ کر ان کی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
پاکستان نے دلیپ کمار کو سب سے بڑا سول ایوارڈ 'نشانِ امتیاز' عطا کیا جبکہ بھارت نے بھی ان کو پدما بھوشن، دادا صاحب پھالکے جیسے عظیم ایوارڈز سمیت 8 فلم فیئر ایوارڈز سے نوازا جو اپنی جگہ فلمی دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔ دلیپ کمار واحد ہندوستانی فنکار تھے جن کو پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہ برابر کی عزت اور شہرت ملی۔
وہ 2 مرتبہ پاکستان آئے، پہلی مرتبہ 1988ء اور دوسری مرتبہ 1998ء میں، مگر وہ اپنا گھر پہلی آمد کے موقع پر تو دیکھ سکے تھے دوسری مرتبہ ان کے لیے یہ ممکن نہ ہوا، اس لیے صرف اپنے رشتے داروں سے ملاقات کی اور پشاور شہر کی سیر کرکے لوٹ آئے۔ ان کے آبائی گھر کو دیکھنے کا راقم کو بھی موقع ملا، اس گھر کی خستہ حالی دیکھ کر افسوس ہوا تھا، شکر ہے کہ اب حکومتی سطح پر یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ اس گھر کو میوزیم کا درجہ دے دیا جائے گا۔ اب دیکھیں یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔
کسی فنکار کے فن کا اعتراف کرنے کے لیے یہ بہت اچھی روایت ہوگی، جس کی ہمارے ہاں اشد ضرورت ہے۔ پشاور کے ثقافتی محقق اور پشاور شہر کے فلمی پس منظر پر گہری نظر رکھنے والے دانشور ابراہیم ضیا خان نے ہم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ، 'دلیپ کمار 2 مرتبہ پشاور آئے، پورا شہر ان کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا، ان سے اس وقت تو ملاقات نہ ہوسکی مگر بعد میں جب میرا بھارت جانا ہوا تو دلیپ کمار سے ملا۔ اس ملاقات کی یادیں میری زندگی کا انمول سرمایہ ہیں‘۔
'میں تو کہیں نہیں گیا'
دلیپ کمار کی اکثر فلمیں بشمول مغلِ اعظم یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ یہ فلمیں دیکھیے، ان کو یاد کیجیے، ان کے فن کی تحسین کیجیے اور محسوس کیجیے کہ کس طرح کوئی فنکار اپنے فن کی معراج کو چھوتا ہے۔ کم از کم فلم مغلِ اعظم کو دیکھتے ہوئے تو یہی خیال آتا ہے کہ اس فلم میں ستاروں کی ایک کہکشاں ہے جنہوں نے اپنے فن کا جادو جگایا اور ان میں سے ایک روشن ستارہ دلیپ کمار ہیں جن سے ایک بار جب پوچھا گیا 'آپ پشاور سے چلے گئے، تو پشاور شہر کی یاد آتی ہے؟' تو ان کا جواب تھا، 'میں پشاور سے کہاں گیا، میں تو کہیں نہیں گیا، میں تو آج تک پشاور ہی میں ہوں، یہ شہر میری یادوں میں ہمہ وقت موجود رہتا ہے'۔
بالکل اسی طرح دلیپ کمار ہم سے ظاہری طور پر رخصت ضرور ہوئے ہیں لیکن وہ کہیں نہیں گئے۔ اپنی کہانیوں، اپنے کرداروں، اپنے لب و لہجے، اپنی یادوں اور اپنے محبوب شہر پشاور کی صورت میں ہمارے آس پاس ہی موجود ہیں۔ ان کے کرداروں کی خوشبو سے پاک و ہند کا فلمستان مہکتا رہے گا اور مغلِ اعظم جیسی فلم مستقبل کے فلم سازوں کو بتائے گی کہ تہذیب یافتہ سینما کیا ہوتا ہے۔ دیوداس جیسی فلم سے آنے والے فنکاروں کو آگہی ہوگی کہ المیہ پرفارم کرنا کسے کہتے ہیں اور کیفیت کی اداکاری کیا ہوتی ہے۔ 20ویں صدی کا سب سے بڑا ہندوستانی فلمی ستارہ غروب ہوا چاہتا ہے۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔