• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

فوج کا تقسیم کرنے والی سیاست سے گریز کا مطالبہ

پارلیمینٹیرینز کو بتایا گیا کہ کسی بھی تنازع کا حصہ نہ بننے کا پالیسی فیصلہ کیا گیا ہے—فائل فوٹو: اے پی پی
پارلیمینٹیرینز کو بتایا گیا کہ کسی بھی تنازع کا حصہ نہ بننے کا پالیسی فیصلہ کیا گیا ہے—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: فوج اور انٹیلیجنس قیادت نے قومی سلامتی کے امور پر تقسیم کرنے والی سیاست سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور خبردار کیا کہ تزویراتی چیلنجز اور متعلقہ بیرونی تعلقات میں پالیسی کی تبدیلیوں کے ملک پر اثرات ہوسکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ یہ انٹرسروسز انٹیلیجنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جانب سے علاقائی ماحول اور ممکنہ خطرات، غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد ابھرتی ہوئی صورتحال اور امن مذاکرات میں جمود، مقبوضہ کمشیر میں ہونے والی پیش رفتوں اور امریکا کی جانب سے چین کو قابو کرنے کی کوششوں پر پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو دی گئی بریفنگ کا خلاصہ تھا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور پارلیمینٹیرینز کے سوالات کے جوابات دیے۔

یہ بھی پڑھیں:پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس، افغانستان کی صورتحال، اندرونی چینلجز پر بریفنگ

اجلاس میں کمیٹی کے اراکین کے علاوہ بھی حکومتی اور اپوزیشن بینچز سے اہم شخصیات اور وزارائے اعلیٰ نے شرکت کی۔

اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ حکومت نے دیگر ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کے سلسلے میں بڑے فیصلے کیے ہیں اور کسی بھی تنازع کا حصہ نہ بننے کا پالیسی فیصلہ کیا گیا ہے۔

شرکا کو بتایا گیا کہ بیرونی طاقتیں پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کرچکی ہیں، ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 27 میں سے 26 نکات پر عملدرآمد کے باوجود نہ صرف گرے لسٹ میں رکھا گیا بلکہ منزل بھی تبدیل کردی گئی۔

اسلام آباد کو اب کہا گیا ہے کہ ایشیا پیسیفک گروہ کی جانب سے علیحدہ سے دیے گئے 6 نکاتی پلان پر اضافی عملدرآمد کیا جائے۔

مزید پڑھیں: فوج سیکیورٹی سے متعلق امور پر اراکین اسمبلی کو بریفنگ دے گی

اجلاس کو بتایا گیا کہ بیرونی طاقتوں نے پراکسیز کو بھی متحرک کردیا ہے جو لاہور میں ہوئے دھماکے اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے ظاہر ہے۔

ساتھ ہی کہا گیا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) بھی آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان پر دباؤ بڑھا سکتا ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کو ہدف بنا سکتا ہے، اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا کہ پاکستان سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ڈرا کر بھگانے کی کوششیں بھی ہوسکتی ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ 'شرکا کو اندرونی خامیوں پر بریفنگ دی گئی جس کا فائدہ دشمن عناصر اٹھا سکتے ہیں'۔

اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ 'نیشنل انٹیلیجنس کوآرڈینیشن کمیٹی (ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے رابطہ ادارے) کا قیام قومی انٹیلیجنس کی متناسب تشخیص کو فروغ دینے میں کردار ادا کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں:آج ہونے والا اعلیٰ سطح کا اجلاس ملکی سیاست کا رخ بدل دے گا، شیخ رشید

لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے میں ملوث نیٹ ورک توڑنے کا سہرا این آئی سی سی کے تحت انٹیلیجنس ایجنسیز کے درمیان بڑھے ہوئے تعاون کو دیا گیا۔

سیاسی قیادت کو بتایا گیا کہ صورتحال کے پیشِ نظر قومی مفاد کے امور پر اتفاق رائے برقرار رکھنا ضروری ہے اور سیاست کو گورننس اور اس سے متعلق سیاسی معاملات تک ہی محدود رہنا چاہیے۔

پورا ملک پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہے، شیخ رشید

دوسری جانب وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ایک ٹاک شو میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک 'بڑا اجلاس' تھا، تمام معاملات پر آزادانہ تبادلہ خیال ہوا اور آرمی چیف نے 'کھلے دل کے ساتھ طویل سوالات سنے اور ان کا جواب دیا'۔

وفاقی وزیر نے اپوزیشن جماعتوں کے رویے کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پورا ملک پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہے، پورا ملک چاہتا ہے کہ وہ امن کے لیے کوشش کریں اور ملک کی سرزمین جنگ کے لیے استعمال نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن جماعتوں کو بھارتی جارحیت پر ان کیمرا بریفنگ

شیخ رشید نے مستقبل میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات کو خارج از امکان نہیں قرار دیا اور کہا کہ 'ملک کو اندر سے نقصان پہنچانے کی کوششیں ہورہی ہیں اس لیے ایسے واقعات ہوں گے لیکن حکومت، اپوزیشن اور پاک فوج مل کر اسے روکیں گے۔

وزیر داخلہ سے پوچھا گیا کہ کیا آرمی چیف نےوزیراعظم کے قومی اسمبلی سے حالیہ خطاب سے اتفاق کیا؟ جس پر انہوں نے کہا کہ 'بالکل (وہ) ایک پیج پر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'فوج چاہتی ہے کہ ہمارے امریکا اور بالخصوص چین جس نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی، اس کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملک کو تنہا کردیا جائے، اب پالیسی بدل چکی ہے، ہم اپنے اڈے، ایئرپورٹس، بحریہ، فوجی اور کوئی بھی علاقہ کسی کو بھی نہیں دیں گے'۔

اپوزیشن ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ آئندہ 2 ہفتوں کے دوران اسی طرح کا ایک اور بریفنگ اجلاس متوقع ہے۔


یہ خبر 2 جولائی 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024