کنکریٹ کے جنگلوں اور بے ہنگم ٹریفک کے شور و غل سے تنگ کوہ نورد اور آوارہ گرد اکثر فطرت کے حقیقی رنگ دیکھنے کی چاہ میں بلند پہاڑوں، وادیوں، سبزہ زاروں اور ریگزاروں کا رخ کرتے ہیں۔
نظارہ قدرت سے تسکین اور طمانیت کا حصول چاہنے والوں کے لیے دلچسپ سفر کا احوال پیشِ خدمت ہے۔
وادئ کمراٹ، اس کے گھنے جنگل میں بہتا 55 کلومیٹر طویل دریائے پنجگوڑہ، گرد و نواح کے بلند و بالا پہاڑ اور وادی میں جھیلوں و آبشاروں کے دلکش مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
وہاں کی یہی خوبصورتی ہمیں بار بار اپنی طرف کھینچتی ہے اور اس بار ہم اپنی 7 رکنی ٹیم کے ساتھ پشاور سے کمراٹ کے لیے روانہ ہوئے۔
ہم اپنے مقامی دوست ضمیر خان کے حجرے میں ایک سرد رات میٹھی نیند سونے کے بعد پشاور سے کمراٹ تک کے سفر کی تھکاوٹ دُور کرچکے تھے۔ یہ سیزن کا آغاز تھا اور کوہ نوردوں کی یہ 7 رکنی ٹیم شہر کی مشینی زندگی سے کچھ وقفہ لینے کی خاطر چند دن دریائے پنجگوڑہ کے کنارے گزارنے اور وادئ کمراٹ و چترال بارڈر پر واقع شازور جھیل کی خوبصورتی سمیٹنے آئی تھی۔
جیپ اور دیگر مطلوبہ ساز و سامان کا انتظام کرنے کے بعد ہم کمراٹ کے مشہور سیاحتی مقام 'دوجنگا' کی طرف روانہ ہوئے۔ شیر بہادر نامی ہمارے ڈرائیور جیپ اسٹارٹ کرنے سے پہلے اعلان کرچکے تھے کہ، 'صاحب ہم اس علاقے کے چَپے چَپے سے واقف ہیں۔ یہاں کا ہر ایک باسی ہمیں جانتا ہے۔ ہم آپ کو منزل پر ایسے پہنچائیں گے جیسے کسی زمانے میں گھڑسوار پہنچ جایا کرتے تھے۔ اور ہاں صاحب ہم آپ کو اپنے ہاتھ سے مچھلی پکڑ کر کھلائیں گے'۔
کچھ ساتھی شیر بہادر کے اعلان سے بہت خوش تھے کہ چلو کم از کم اس ٹرپ میں رات کو دریائے پنجگوڑہ کے کنارے ٹراؤٹ مچھلی کی لذت سے تو محظوظ ہوں گے۔ کچھ دوست اس لیے بھی شادمان نظر آئے کہ چونکہ ڈرائیور ان تمام راستوں سے واقف ہے لہٰذا شازور جھیل تک متوقع وقت سے پہلے پہنچ جائیں گے۔
مگر میں شیر بہادر کی شخصیت کو پرکھ چکا تھا۔ دراصل شیر بہادر صرف گفتار کا غازی اور باتوں کا دھنی تھا۔ بہرحال ہم ان کی باتوں اور سفر کو انجوائے بھی کر رہے تھے۔
شیر بہادر شاید اس بات سے انجان تھے کہ ان کی جیپ میں بیٹھے کوہ نوردوں نے پاکستان میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے۔
جنگل میں کچی سڑک پر ہماری جیپ دوڑ رہی تھی اور فاصلہ کم کرتی جا رہی تھی۔ یوں جنگل کا سلسلہ پیچھے رہ گیا اور ہماری جیپ سرمئی میدان میں داخل ہوگئی۔ اس میدان کو مقامی لوگ سرمئی کا میدان پکارتے ہیں اور یہاں ہر سال کمراٹ فیسٹیول منعقد ہوتا ہے۔
گزرے وقتوں میں یہاں ایک چھوٹی جھیل ہوا کرتی تھی۔ 'مئی' یا 'مہی'۔ مقامی کوہستانی زبان 'گاوری' 2 دریاؤں کے درمیان موجود اس خشک مقام کو کہتے ہیں جہاں پر تالاب ہو اور درمیان میں زمین کا خشک ٹکڑا بھی ہو۔ سرمئی کے اس میدان میں سوات کی مہوڈھنڈ جیسی ایک خوبصورت جھیل تھی جو بعدازاں سیلابی ریلے کی نذر ہوگئی۔ اب اس میدان پر جشن کمراٹ اور کمراٹ فیسٹیول جیسے میلے سجتے ہیں۔
اس میدان کے آخری حصے پر دائیں جانب بلندی سے گرتی چھوٹی آبشار پر میری نظر پڑی۔ تھل سے 'کالا پانی' (چشمہ) کی طرف جاتے ہوئے یہ چھوٹی آبشار 'لال گاہ' (سراج) آبشار سے پہلے آتی ہے۔
میں اب تک لگ بھگ 50 مرتبہ وادئ کمراٹ کی سیر کرچکا ہوں لیکن ہمیشہ اس آبشار سے نظریں چُرا کر آگے بڑھ جاتا ہوں۔ مگر اس بار یہ روایت توڑنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے شیر بہادر کو آبشار کے پاس جیپ روکنے کے لیے کہا۔
شیر بہادر کے مطابق اس آبشار کا مقامی نام 'کوتگل' آبشار ہے اور سرمئی میدان کے بعد آنے والے اس علاقے کو وادی کے باسی 'کوتگل' پکارتے ہیں۔ اگرچہ یہ آبشار دُور سے چھوٹی نظر آتی ہے لیکن قریب جانے پر اس کی قدامت حیرت میں ڈال دیتی ہے۔
کوتگل آبشار کے پاس چند یادگار لمحات گزارنے کے بعد ہم ایک بار پھر کالا پانی کی کچی سڑک پر رواں دواں تھے۔ تھوڑی دیر بعد کوتگل کی دوسری آبشار نے ہمارا استقبال کیا، جو 'لال گاہ' اور 'سراج آبشار' کے نام سے مشہور ہے۔ وادئ کمراٹ آنے والے اس آبشار کا نظارہ کرنے ضرور رکتے ہیں۔
کچھ سیاح تو قدرت کی رعنائیوں میں سب بھول بھال کر یہاں سے آگے کالا پانی یا کالا چشمہ تک چلے جاتے ہیں۔
سراج آبشار سے آگے بڑھے تو ہماری جیپ قدرے ناہموار کچی سڑک پر ہچکولے کھانے لگی، ہچکولے سہتے ساتھیوں نے خود کو نشست پر جمائے رکھنے کے لیے جیپ کے اندر نصب آہنی راڈ اور ہینڈل کو مضبوطی سے تھام لیا تھا۔
مگر شیر بہادر کو خاک کوئی فرق پڑنا تھا، وہ بڑی بے رحمی سے اپنی جیپ کو دوڑائے جا رہا تھا۔ ٹیم کے دوست یہ سوچ کر خود کو تسلی دینے لگے کہ جیپ کچھ دیر بعد ہموار پکے راستے پر چلے گی، لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ 'ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں' جو کافی کٹھن بھی ہیں۔
خیر ہم ساتھیوں سنگ اچھلتے، ہلتے ڈلتے، کالا پانی تک پہنچ ہی گئے۔ گھنے جنگل اور بلند پہاڑوں کے درمیان واقع کالا پانی یا کالا چشمہ کو مقامی گاوری زبان میں 'کیشین دیر اوس' پکارا جاتا ہے، جس کا مطلب بنتا ہے 'کالے پتھروں کے درمیان بہتا چشمہ'۔ مقامی زبان میں 'دیر' بڑے کالے پتھروں کو کہا جاتا ہے جو اس چھوٹے چشمے کے اردگرد موجود ہیں۔
شیر بہادر نے چشمے کے قریب واقع ایک ہوٹل پر بریک لگائی اور کہا 'ہم تھوڑی دیر کے لیے یہاں آرام کریں گے، کھانا کھانے اور نماز کی ادائیگی کے بعد 'دوجنگا' کی طرف بڑھیں گے'۔ شیر بہادر نے جب یہ خوشخبری بے حال دوستوں کو سنائی تو سب کے چہرے کھل اٹھے۔ ساتھیوں نے سوچا کہ چلو اس بہانے کالا چشمے کے پُرسکون پوائنٹ پر چند ساعتوں کا آرام تو میسر آئے گا۔ شیر بہادر ہوٹل پر چکن کڑاہی کا آرڈر دینے چلا گیا جبکہ ہم ٹھنڈے پانی میں دیر تک ہاتھ ڈبونے کا مقابلہ کرنے چشمے کی طرف چلے آئے۔
کالا چشمہ سے قریب ایک سے 2 گھنٹے کی ٹریک پر ’تورڈب‘ نامی ایک خوبصورت جھیل موجود ہے۔ ان دنوں مقامی لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ان کے علاوہ ابھی تک اس جھیل تک کوئی نہیں گیا۔
راستے میں شیر بہادر نے کالا چشمے کے اردگرد گھنے جنگل میں جنگلی جانوروں کی موجودگی کے بارے میں بتایا۔ ان کے مطابق یہ جنگل ریچھ سمیت مختلف جانوروں کا مسکن ہے۔ گزرے وقتوں میں یہاں ریچھ مقامی آبادی کے مال مویشی کو اپنی خوراک بنالیا کرتے تھے، چنانچہ اپنے مویشیوں کو بچانے کے لیے مقامی شکاریوں نے ریچھوں کا شکار شروع کردیا۔ جو ریچھ بچ گئے وہ چترال اور سوات کے جنگلوں کو اپنا مسکن بنانے پر مجبور ہوگئے۔ تاہم کچھ ریچھ اب بھی اسی جنگل میں رہتے ہیں۔
نماز اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم ایک بار پھر شیر بہادر کے رحم و کرم پر تھے۔ ہمارا اگلا پڑاؤ 'دوجنگا' کا خوبصورت جنگل تھا۔ جیپ میں گاوری زبان کی موسیقی گونج رہی تھی جو صرف شیر بہادر کو ہی سمجھ آرہی تھی۔ شیر بہادر کوہستانی موسیقی کی دھنوں میں مست ہوکر بل کھاتی کچی مگر قدرے بہتر سڑک پر جیپ دوڑا رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں ہم دوجنگا اور کالا پانی کے درمیان موجود گلیشیئر تک پہنچ گئے۔
یہ گلیشیئر مئی کے آخر تک کالا پانی اور دوجنگا کو ملانے والی سڑک بند کیے رکھتا ہے اور پھر جون کے آغاز پر سیاحوں کو دوجنگا تک جانے کی اجازت دیتا ہے۔ شیر بہادر نے جیپ کو گلیشیئر کے مقام پر بہتے پانی میں اتار دیا، جہاں جیپ بُری طرح پھنس گئی۔
پہلے تو شیر بہادر نے 10 منٹ تک جیپ کو نکالنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن ناکامی کی صورت میں ہمیں جیپ کو دھکا دینے کے لیے کہا۔ دھکا دینے کا یہ سلسلہ تقریباً نصف گھنٹہ جاری رہا۔ ٹیم کے ساتھی عبید اور عبداللہ نے بھی ڈرائیونگ کے خوب گُر آزمائے لیکن مجال ہے کہ جیپ ٹس سے مس ہوئی ہو۔
مسلسل دھکے لگا لگا کر ہم سب کا بُرا حال ہوچکا تھا اور دیر بھی ہوچکی تھی سو ہم تھکے ہاروں نے فیصلہ کیا کہ دوجنگا کے مقام پر رات گزارنے کے بجائے قریب واقع دریا کے کنارے کیمپنگ کی جائے۔ جیپ کو محفوظ جگہ پر پارک کردیا گیا اور پھر دریا کنارے درختوں کے ایک جھنڈ کے نیچے کیمپنگ کے لیے ایک مناسب جگہ ڈھونڈ لی گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں آسمان پر گہرے کالے بادل چھانے لگے اور یوں ہمیں اندازہ ہوگیا کہ کسی بھی وقت بارش ہوسکتی ہے۔
پہاڑی علاقوں اور جنگلوں میں بارش کافی تیز اور خطرناک ہوتی ہے اس لیے جلد ہی خیمے گاڑ دیے گئے۔ جن دوستوں کو کھانا پکانے کا ذمہ سونپا گیا تھا وہ آلو چاول پکانے میں مصروف ہوگئے جبکہ باقی دوست دریا کنارے لڈو کھیلنے اور خوش گپیوں میں وقت گزاری کرنے لگے۔
ہماری توقع کے برعکس ایک گھنٹے بعد آسمان صاف ہونے لگا۔ شام ڈھل چکی تھی۔ آسمان پر چند جھلمل ستارے بادلوں سے جھانکتے نظر آئے۔ میں دریا پنجگوڑہ کے کنارے اپنے خیمے میں سفری احوال لکھنے میں مصروف تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں آواز آئی کہ کھانا تیار ہے۔
شیر بہادر بھی دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ دوستوں نے اس موقع پر خوشگوار موڈ میں طنز کستے ہوئے کہا کہ شیر بہادر آپ نے تو ہمیں مچھلی کھلانے کا کہا تھا، انہوں نے جواباً ایک نیم مسکراہٹ کا سہارا لیا۔ کھانا کھانے کے بعد سارے ساتھی اپنے اپنے خیموں کی طرف بڑھنے لگے۔ اس دوران شیر بہادر میرے قریب آیا اور پوچھنے لگا ’صاحب آپ واقعی شازور جھیل تک جائیں گے؟‘ میں نے کہا، ہاں ہم تو یہاں آئے ہی شازور جھیل کی ٹریک کے لیے ہیں، وادی کے دیگر سیاحتی مقامات کی سیر تو ہم پہلے بھی کئی بار کرچکے ہیں۔
یہ سُن کر وہ کہنے لگے کہ، ’اچھا صاحب جھیل بہت دُور ہے، ہم سے یہ پیدل سفر نہیں ہوسکے گا۔ ہم آپ لوگوں کے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔ ہم یہاں پر اپنی جیب میں آپ کا انتظار کریں گے‘۔
میں نے شیر بہادر کو یاد دلایا کہ ہماری ان کے ساتھ شازور جھیل تک جانے کی بات طے ہوئی تھی لہٰذا انہیں ہمارے ساتھ ہر صورت جھیل تک جانا ہوگا، کیونکہ ہم میں سے کوئی نہ تو ٹریک سے متعلق معلومات رکھتا ہے اور نہ ہی مقامی لوگوں سے واقفیت۔ اگرچہ انہوں نے منہ بنایا لیکن ساتھ چلنے پر راضی ہوگئے۔
صبح 4 بجے میری جب آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ شدید بارش کے بعد ہمارے خیمے کے اردگرد پانی جمع ہوچکا ہے، لیکن قریب موجود دیگر ساتھیوں کے خیمے محفوظ تھے۔ کاش کہ ہم بھی اپنا خیمہ ڈھلوانی حصے پر نہ گاڑتے۔
خیر رات کٹ ہی گئی، صبح ناشتے سے فراغت اور سامان باندھنے کے بعد ایک بار پھر ہماری آوارہ گردی کا سلسلہ شروع ہوا اور ہم 4 کلومیٹر دُور دوجنگا کے خوبصورت جنگل کی طرف پیدل روانہ ہوگئے۔
ہم نے 4 کلومیٹر کا یہ سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا۔ سطح سمندر سے 2 ہزار 725 میٹر کی بلندی پر واقع دوجنگا کا خوبصورت گھنا جنگل اور اس کے دونوں اطراف بہتے دریا کا نیلگوں پانی اب چند قدموں کے فاصلے پر تھا۔ زیادہ تر سیاح کالا چشمہ کے ہوٹل پر ہی شب گزارتے ہیں۔ کالا پانی (چشمہ) سے آگے وہی سیاح جاتے ہیں جن کے پاس شب بسری کے لیے خیمہ اور دیگر سامان موجود ہوتا ہے۔ کالا پانی سے آگے دوجنگا تک تو سڑک جاتی ہے البتہ دوجنگا سے آگے گمنام علاقوں کو ایکسپلور کرنے کے لیے سیاحوں کو پیدل ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔
ہم جیپ ٹریک پر ہی پیدل چل رہے تھے اور دوجنگا کا مقام 5 سے 7 منٹ کی دُوری پر تھا۔ راستے میں کئی جھرنوں اور چشموں کو عبور کرکے ہم اس دلکش جنگل میں داخل ہوچکے تھے۔
وہاں ایک طرف کچھ خیمے لگے ہوئے تھے اور ان کے درمیان الاؤ بڑھک رہا تھا۔ ایک مقامی شخص اسی الاؤ کی آگ پر روٹیاں سینک رہا تھا۔ ہم جنگل میں ان خیموں کے قریب پہنچے اور وہاں پر اپنے خیمے لگانے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے نہ صرف بخوشی اجازت دی بلکہ چائے بھی پیش کی۔ ہم نے اپنے خیمے لگانے اور سامان کو مقامی شخص کے حوالے کرنے کے بعد اپنی اگلی منزل کی جانب بڑھنے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع کردیا۔
دوجنگا کے گھنے جنگل سے مختلف ٹریکس نکلتے ہیں۔ یہاں سے آگے یا تو وہ مقامی افراد جاتے ہیں جو گرمیوں میں اپنے مال مویشی لے کر مختلف بانڈہ جات کا رخ کرتے ہیں اور 3 سے 4 مہینوں تک انہی علاقوں کو اپنا ٹھکانہ بنائے رکھتے ہیں یا پھر کچھ ہم جیسے من چلے جاتے ہیں۔
کمراٹ کا اصل رنگ تو کالا چشمہ اور دوجنگا کے بعد ان گمنام علاقوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ فطرت کے پُرکیف نظارے جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ ہواؤں کی خوفناک اور پُراسرار آوازیں دل میں عجیب سا احساس پیدا کردیتی ہیں۔ وہ ہوائیں انجان وادی کے گمنام علاقوں میں سفر کرنے والوں کے دلوں میں ایک بار سنسنی ضرور دوڑا دیتی ہیں۔ حُسن اور پُراسراریت کا حسین امتزاج یہیں ملتا ہے۔
دوجنگا سے تقریبا 30 منٹ تک آسان چڑھائی چڑھنے کے بعد نالے پر بنا ایک پُل آتا ہے جسے عبور کرکے ہم ایک گھنے جنگل میں داخل ہوگئے۔ پُل سے پہلے بائیں جانب ایک راستہ مغرب کی طرف کاشکین بانال کو جاتا ہے (بانال مقامی گاوری زبان میں موسمِ گرما کی چراگاہ کو کہتے ہیں) اور دوسرا راستہ وادی کی سب سے بڑی جھیل کنڈل اپر اور دیگر لوئر جھیلوں کو جاتا ہے۔
اس نالے کا پانی کنڈل جھیل سے نیچے دوجنگا سے ہوکر دریائے پنجگوڑہ میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہاں موجود تیسرا سیدھا راستہ شمال کی طرف شازور جھیل کی جانب جاتا ہے۔ کنڈل جھیل کو وادی کی خوبصورت ترین جھیل کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ کنڈل جھیلوں تک پیدل ٹریک کے ذریعے 3 سے 4 گھنٹوں میں پہنچا جاسکتا ہے۔
سکاشکین بانال تک پہنچنے کے لیے بھی مسلسل 4 گھنٹوں پر محیط بلندی کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ کاشکین بانال کا شمار کمراٹ کے سب سے حسین علاقوں میں ہوتا ہے، یہاں بڑے سرسبز میدان ہیں۔ کاشکین بانال کی مغرب جانب ایک بڑا گلیشیئر ہے جس کے قریب ہی ایک چھوٹی سی جھیل ہے۔ کاشکین بانال سے تقریباً ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر اوپر کنڈو یعنی کاشکین پاس ہے، گزرے زمانے میں مقامی افراد اسی راستے سے چترال میں داخل ہوتے تھے۔
کاشکین کی خوبصورت چراگاہ کے مشرق میں واقع برفیلی چوٹی کی دائیں جانب گوریشئی ایزگلو اور شازور بانال نظر آتے ہیں۔ مغرب سے نیچے کی طرف اگر دیکھا جائے تو ایک دلکش وادی گوالدی کا صمد شاہی نامی علاقہ نظر آتا ہے۔ پاس سے صمد شاہی تک تقریباً 45 منٹ کا پیدل ٹریک ہے۔ صمد شاہی سے آگے چترال کی چراگاہیں شروع ہوجاتی ہیں۔
ہم جنگل میں شازور جھیل کی طرف جانے والے پیدل ٹریک پر خرگوش کی چال سے آگے بڑھ رہے تھے۔ چند منٹوں کے سفر کے بعد ہمیں 2 سے 3 بڑے پتھر نظر آئے۔
اس پتھر پر بدھ مت دور کی تحریر نمایاں تھی۔ پتھر پر لکی مروت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر انشا کا نام بھی لکھا ہے جنہوں نے ان قدیم پتھروں کو دریافت کیا تھا۔
ان پتھروں سے متعلق کوئی تحقیق میری نظر سے نہیں گزری شاید محکمہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو ان پتھروں کے بارے میں کچھ علم ہو۔ چترال اور وادی کمراٹ دیر کا پرانا تاریخی راستہ ہے اور ان پتھروں پر درج تحریریں ہزاروں سال پہلے ان علاقوں میں انسانوں کی آمد و رفت اور رہن سہن کی گواہی دیتی ہیں۔ خیر، جنگل ختم ہوا تو ہمیں دُور سے چند گھر نظر آنے لگے، شیر بہادر نے بتایا کہ وہ علاقہ چھاروٹ بانال کہلاتا ہے۔
چھاروٹ بانال تک پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لگا۔
ہمارے جیپ ڈرائیور کے کئی رشتہ دار اپنے مال مویشیوں کے ساتھ یہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ شیر بہادر نے کہا کہ یہاں ہم آپ کی لسی سے تواضع کریں گے۔ لسی کا سُن کر تمام دوستوں کی رفتار دگنی ہوگئی اور چند ہی منٹوں میں ہم سطح سمندر سے 2 ہزار 875 میٹر بلندی پر چند گھروں پر مشتمل چھاروٹ بانال نامی خوبصورت گاؤں میں قدم رکھ چکے تھے۔
تھوڑی ہی دیر میں شیر بہادر ایک کچے مکان سے 2 آدمیوں کے ہمراہ باہر آیا، ان کے پیچھے آتے دونوں اشخاص کے ہاتھوں میں دہی اور لسی سے لبریز برتن تھے۔ سب دوستوں نے باری باری لسی پی اور دہی کھایا اور تازہ دم ہوئے۔ شیر بہادر کے مقامی رشتہ داروں سے ہم نے راستے سے متعلق کچھ بنیادی معلومات لیں، مثلاً کتنا وقت لگے گا، آگے ٹریک کیسا ہے اور کس نوعیت کی چڑھائی ہے؟
انہوں نے بتایا کہ شازور جھیل تک پہنچنے کے لیے ہمیں مزید 3 سے 4 گھنٹوں کا سفر طے کرنا ہوگا۔ راستہ ہموار ہے لیکن آخر میں ایک دو چڑھائیاں چڑھنی ہوں گی۔ 3 سے 4 گھنٹوں کی ٹریک کا سن کر گروپ کے چند ساتھیوں کے چہروں پر مایوسی پھیل گئی لیکن ہم نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔ مقامی افراد کا شکریہ ادا کرکے ہم دوبارہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہوگئے۔
آگے کا ٹریک ہموار اور بالکل سیدھا تھا۔ چھاروٹ بانڈہ سے نکلتے ہی سامنے ایک اور آبادی نظر آرہی تھی۔ شیر بہادر نے بتایا یہ ایزگلو بانڈہ ہے۔ یہاں کے لوگ بھی تھل اور اردگرد کے علاقوں سے اپنے مال مویشی لے کر ان علاقوں میں چند مہینوں کے لیے ڈیرہ ڈالتے ہیں۔
چھاروٹ بانڈہ سے نکلے ہوئے ہمیں 10 منٹ ہوچکے تھے اور اب ہم ایک کھلے میدان میں تھے۔ ہر طرف جنگلی پھول تھے۔ ان پھولوں کی خوشبو ہمارے سفر کو مہکا رہی تھی۔ وہاں جگہ جگہ بہتے جھرنے دُور پہاڑ کے دامن میں دریائے پنجگوڑہ کا حصہ بن رہے تھے۔ میدان کے ختم ہوتے ہی ہم ایزگلو بانڈہ کی مسجد کے قریب پہنچ گئے۔ بڑے بڑے پتھروں سے تعمیر شدہ ایک کمرے پر مشتمل یہ عارضی آبادی کے لیے بنائی گئی ایک مسجد تھی۔
ایزگلو بانڈہ سطح سمندر سے 2 ہزار 985 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ زیادہ تر سیاح رات گزارنے کے لیے اسی جگہ پر کیمپنگ کرتے ہیں اور اسی راستے سے تلو پاس کراس کرکے چترال لاسپور سے ہوکر واپس کمراٹ کی حسین وادی کا رخ کرتے ہیں۔ ایزگلو بانڈہ تک ٹریک آسان اور قدرے ہموار تھا، جس وجہ سے گروپ کے ساتھی زیادہ پریشان نہیں ہوئے لیکن ایزگلو سے آگے ٹریک میں بڑے بڑے کالے پتھروں کو عبور کرنا تھا۔
کالے پتھروں پر چند منٹ کا سفر کرنے کے بعد شیر بہادر سمیت گروپ کے 3 ممبران ہمت ہار بیٹھے۔ شیر بہادر ایک کالے پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح منت کرنے لگا کہ میری ٹانگیں کام کرنا چھوڑ چکی ہیں اور آگے سفر طویل ہے۔ ہم نے ساتھیوں کو منانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، البتہ شیر بہادر ہمارے ساتھ آگے سفر جاری رکھنے کے لیے راضی ہوگئے لہٰذا طے یہ ہوا کہ 3 ساتھی یا تو ایزگلو بانڈہ میں ہمارا انتظار کریں گے یا واپسی کا سفر کریں گے اور بقیہ مجھ سمیت 4 ساتھی شیر بہادر کی قیادت میں آگے کا سفر جاری رکھیں گے۔
اپنے 3 ساتھیوں سے اجازت لے کرہم ایک بار پھر کالے پتھروں میں راستے کے نشان تلاش کرتے ہوئے مسلسل چڑھائی چڑھنے لگے۔ تقریباً 30 منٹ کے سفر کے بعد ہمارے سامنے ایک اور آبادی تھی۔ یہ گورشئی بانڈہ (بانال) تھا۔ سطح سمندر سے 3 ہزار 150 میٹر کی بلندی پر واقع چند عارضی گھروں پر مشتمل یہ ایک بہت ہی خوبصورت گاؤں تھا۔ ہمارے ٹریک کی رفتار میں حیرت انگیز حد تک اضافہ ہوچکا تھا۔ گورشئی بانڈہ (بانال) سے اب ہمیں مسلسل بلندی کا سفر کرنا تھا۔
یہ ایک گھنے جنگل کے درمیان عمودی چڑھائی تھی جسے ہم تقریباً 25 منٹ میں عبور کرنے میں کامیاب رہے۔ ایک زبردست چڑھائی کے بعد ابھی سانسیں بحال نہیں ہوئی تھیں کہ سامنے ایک دوسری طویل مگر کم اونچی چڑھائی ہماری منتظر تھی۔ شیر بہادر کے مطابق اس چڑھائی کے بعد شازور بانال (بانڈہ) کی آبادی آنی تھی اور پھر وہاں سے 30 سے 45 منٹ کی مسافت پر شازور جھیل تھی۔
45 منٹ کے سفر کے بعد بالآخر ہم شازور بانڈہ (بانال) پہنچ چکے تھے۔ یہ وسیع و دلکش میدان تھا۔ ہرسو پھیلے سبزے میں جھرنے اپنا منفرد رنگ بھر رہے تھے۔ سطح سمندر سے 3 ہزار 200 میٹر کی بلندی پر شازور بانال میں چند ایک عارضی مکان بنے ہوئے تھے۔
شازور بانال سے مزید تقریباً 50 منٹ کے فطری خوبصورتی سے بھرپور مگر تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم شازور جھیل تک پہنچ گئے۔ جھیل کی پہلی جھلک دیکھنے کے بعد شیر بہادر نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
کمراٹ و چترال کو ملانے والے تلو پاس کی 2 برفیلی چوٹیوں کے دامن میں سطح سمندر سے 3 ہزار 400 میٹر کی اونچائی پر واقع 2 کلو میٹر لمبی شازور جھیل کا نظارہ دیکھ کر ہماری ساری تھکن دُور ہوگئی۔ اس جھیل کو دریائے پنجگوڑہ کا نکتہ آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔
شازور جھیل کے نظاروں سے خوب محظوظ ہونے اور کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی۔ واپسی کے دوران ایزگلو بانڈہ کے قریب میرے پاؤں میں موچ آگئی۔ جس کی وجہ سے مجھے چلنے میں کافی پریشانی کا سامنا ہوا لیکن ساتھیوں کی مسلسل سپورٹ کی وجہ سے میں لنگڑاتے ہوئے چھاروٹ بانڈہ کی مسجد تک شام ہونے سے پہلے پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔
مسجد میں ٹیم کا ایک رکن ہمارا منتظر تھا جبکہ دیگر 2 ساتھی دوجنگا کے لیے نکل گئے تھے۔ مقامی افراد نے ہمیں آتے ہوئے دیکھا لیا تھا اس لیے مسجد پہنچتے ہی ہمیں چائے اور مکئی کی روٹی پیش کی گئی۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم دوجنگا کے لیے نکل پڑے۔ راستے میں بارش کی وجہ سے دوجنگا تک پہنچتے پہنچتے ہم پوری طرح بھیگ چکے تھے۔ کیمپ میں کپڑے بدلنے اور کھانا کھانے کے بعد نیند کی وادیوں میں کھو گئے۔
اگلے دن صبح ہماری ٹیم نے جنگل کی صفائی مہم مکمل کرنے کے بعد ایک بار پھر گلیشیئر تک پیدل سفر طے کیا اور پھر شیر بہادر کی جیب کے ذریعے ہم کمراٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔
عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریلز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں