• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

تشدد کو جرم قرار دو! کوئی ہے سُننے والا؟

شائع June 26, 2021

کیا کبھی سڑک پر گاڑی یا موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ایسا ہوا ہے کہ کوئی شخص آپ کے مسلسل ہارن دینے کے باوجود ٹس سے مس نہ ہو اور نہ راستہ دے؟ یا پھر سڑک پر گاڑی کے شور اور ہارن سے بے پرواہ کھڑے کسی شخص کو آپ نے چیخ کر کہا ہو، 'بہرہ ہے کیا؟'

بالکل ممکن ہے۔

اچھا اب فرض کیجیے کہ آپ اپنے والدین کے ساتھ کہیں جا رہے ہیں اور اچانک ایک پولیس اہلکار آپ کی گاڑی روکنے کے بعد آپ سے سخت لہجے میں پوچھے کہ 'آپ کے والد میرے سوالوں کا جواب کیوں نہیں دے رہے؟ انہیں کہو کہ جواب دے!'

اگرچہ اس بات کا امکان کم ضرور ہے لیکن یہ بات قطعی خارج الامکان نہیں۔

چند برس قبل مردان میں ایک چیک پوسٹ پر تعینات پولیس اہلکاروں نے اولَس خان نامی شخص کو زبانی احکامات کی پیروی نہ کرنے پر گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ پولیس اہلکاروں کو لگا تھا کہ وہ خودکش بمبار ہے مگر بعدازاں حقیقت یہ سامنے آئی کہ وہ قوتِ سماعت سے محروم ایک کپڑا فروش تھا۔ اس کا واحد جرم قوتِ گویائی سے محرومی تھا۔ اس واقعے پر میرا دل خون کے آنسو رویا۔

میرے والد بھی پیدائشی طور پر قوتِ سماعت اور گویائی سے محروم ہیں۔ جب بھی وہ گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں تو ہمارے اندر ایک عجیب سا ڈر سرایت کرجاتا ہے۔ پل پل ان کی فکر کھائے جاتی ہے۔ جب وہ اپنے بتائے ہوئے وقت پر گھر واپس نہیں آتے تو ہم خوف اور وسوسوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

کبھی کبھار جب ہم انہیں فون کرتے ہیں تب یا تو وہ کال کاٹ دیتے ہیں یا پھر اپنا فون کسی قریبی شخص کے حوالے کردیتے ہیں۔ بعض اوقات وہ ہمیں لکھ کر میسج بھیج دیتے ہیں۔ جب ان کے پاس انٹرنیٹ کی رسائی ہوتی ہے تو ہم انہیں ویڈیو کال کرتے ہیں۔ مگر ہم پر مسلسل یہ ڈر سوار رہتا ہے کہ کہیں اولَس خان کی طرح میرے والد کو اپنی معذوری کے بارے میں بتانے کا موقع ہی نہ ملا تو؟

مزید پڑھیے: شادی معذور افراد کا بھی تو حق ہے

آخر پولیس سے ہم کس وجہ سے نالاں ہیں؟ ہم ان لوگوں سے کیوں خائف ہیں جو ہماری حفاظت پر مامور رہتے ہیں؟ دراصل اس کی وجہ سزا سے چھوٹ ہے جس کے بَل پر پولیس اپنے ہی لوگوں پر زور زبردستی کرتی ہے۔ وہ لوگ جو جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔

آپ کو صلاح الدین تو یاد ہوگا؟ وہی جو اے ٹی ایم مشین سے پیسے چرانے کے بعد اپنی زبان باہر نکالے شرارت بھرے انداز میں سیکیورٹی کیمرا کی طرف دیکھ رہا تھا؟ اس پر پولیس نے بدترین تشدد کیا اور حوالات میں ہی اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس کی زبان سے جو آخری الفاظ ادا ہوئے وہ یہ تھے کہ، 'تسی لوکا نو مارنا کیتھوں سیکھیا اے' (تم نے لوگوں کو اس طرح مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟)۔

آپ کو صلاح الدین تو ہوگا
آپ کو صلاح الدین تو ہوگا

میرے والد کا سب سے قریبی دوست ڈاؤن سنڈروم کا شکار ایک بچہ ہے۔ وہ ہم سے ایک گلی کے فاصلے پر رہتا ہے۔ عمروں میں فرق کے باوجود دونوں میں بظاہر تفریقات نے ہی ان کے تعلق کو مضبوطی بخشی ہے۔ کسی دن پولیس اگر اس بچے کو بھی سمجھنے سے قاصر رہے اور اس پر تشدد شروع کردے تو؟ یا اگر وہ اس بچے کے رویے یا کسی حرکت کو اپنی گستاخی سمجھ بیٹھیں تو؟

پڑھیے: معذور نہیں، منفرد بچے

مگر یہ مرد و خواتین پولیس اہلکار ہماری طرح انسان ہی تو ہیں۔ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح ذہنی اور جسمانی معذوریوں سے لاعلم ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے ان کی تربیت بہت ضروری ہے۔ میں نے حال ہی میں جسٹس پروجیکٹ پاکستان نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرنا شروع کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اس تنظیم نے سندھ میں جیل افسران کو قیدیوں کی ذہنی صحت پر تربیت فراہم کرنے کا بندوبست کیا۔

سندھ وہ پہلا صوبہ ہے جہاں رواں برس فروری میں سپریم کورٹ کے جاری کردہ حکم نامے کے بعد تربیتی پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے شدید ذہنی بیماری کے شکار قیدیوں کو پھانسی کی سزا دینے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ہر صوبے میں طبّی بورڈز تشکیل دینے کے ساتھ نفسیاتی معذوریوں کے شکار قیدیوں کی شناخت اور ان کے ساتھ برتاؤ سے متعلق رہنما اصولوں کو بھی وضح کیا ہے۔

پولیس گردی کا خاتمہ لانے کے لیے اصلاحات کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ جان کر بڑی حیرت اور پریشانی ہوتی ہے کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود ہی نہیں جو واضح انداز میں تشدد کو جرم کے دائرے میں لاتا ہو۔

پڑھیے: معذور افراد سہولیات چاہتے ہیں، خیرات نہیں

پولیس کی (قانونی و غیر قانونی) تحویل میں ہونے والے تشدد سے ہر ایک واقف ہے۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق گزشتہ 5 برسوں کے دوران 116 افراد پولیس تحویل میں مارے جاچکے ہیں۔ بہت سے واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے اس لیے حقیقی اعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔

آج 26 جون ہے اور یہ متاثرینِ تشدد کی حمایت میں عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ آج کے دن میں فقط ایک ہی خواہش کا اظہار کرنا چاہوں گی کہ جو کچھ اولَس خان اور صلاح الدین کے ساتھ ہوا ہے وہ میرے والد سمیت کسی اور کے ساتھ کبھی نہ ہو۔

مجھے امید ہے کہ تشدد کو غیر قانونی قرار دیا جائے گا اور تشدد کرنے والوں کو ہر بار سزا ملے گی تاکہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار یہ نہ سوچیں کہ وہ قتل کی سزا سے بچ نکلیں گے۔

تشدد کو قابلِ سزا جرم قرار دو۔ کوئی ہے سننے والا؟

لائبہ زینب

لکھاری مختلف میڈیا اداروں سے بطور رپورٹر وابستہ رہی ہیں اور اس وقت جسٹس پراجیکٹ پاکستان سے منسلک ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Laiba_Zainab@.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Waqas Naeem Jun 27, 2021 12:27am
Yes police department needed to be overhaul ,and should be restructure, free from political influence and independently organized

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024