• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

وزیراعظم کا اے آئی جی حیدرآباد کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا حکم

شائع June 22, 2021
وزیراعظم کی جانب سے 5 مئی کو خط لکھا گیا—فوٹو: وزیراعظم انسٹا گرام/فیس بک
وزیراعظم کی جانب سے 5 مئی کو خط لکھا گیا—فوٹو: وزیراعظم انسٹا گرام/فیس بک

وزیراعظم عمران خان نے ایڈیشنل آئی جی حیدرآباد ریجن ڈاکٹر جمیل احمد کے خلاف 'مالی اور اخلاقی کرپشن، اختیارات کے غلط استعمال اور مشکوک سرگرمیوں' پر کارروائی کے لیے اسٹبلشمنٹ ڈویژن کو احکامات جاری کردیے۔

وزیراعظم عمران خان کے سیکریٹری محمد اعظم خان کی جانب سے 5 مئی کو سیکریٹری اسٹبلشمنٹ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ وزیراعظم کو دی گئی رپورٹ کے مطابق جمیل احمد مبینہ طور پر تمام 15 اضلاع سے 15 لاکھ سے 20 لاکھ روپے ماہانہ وصول کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: فرشتہ قتل کیس: وزیر اعظم کے حکم پر پولیس افسران گرفتار

ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب خط کی نقل میں کہاگیا ہے کہ اے آئی جی 'اپنے ماتحت افسران کے تبادلوں پر بھی حصہ لیتے ہیں'۔

خط میں کہا گیا کہ اس کے علاوہ اے آئی جی نے 'مبینہ طور پر سرکٹ ہاؤس حیدر آباد میں تین کمروں پر قبضہ کر رکھا ہے، ان کے دو بیٹے اپنے والد کے عہدے کاغلط فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکٹ ہاؤس میں فائرنگ کی پریکٹس کرتے ہیں جو گنجان آباد علاقے میں واقع ہے'۔

وزیراعظم نے پولیس افسر کے 'کرپشن' کی مثال دیتے ہوئے اسٹبلشمنٹ ڈویژن سے کہا کہ ان کے خلاف سول سرونٹس رولز 2020 کی دفعہ 18 ٹو کے تحت باقاعدہ کارروائی کی جائے۔

اے آئی جی اس حوالے سے اپنے ردعمل دینے کے لیے دستیاب نہیں ہوئے۔

'اختیارات کاغلط استعمال'

اے آئی جی رواں برس اس وقت نمایاں ہوئے تھے جب صوبے کی پولیس کے اعلیٰ افسر نے کرائم کنٹرول سیل کی تشکیل کے حوالے سے احکامات کو توڑا تھا اور مشکوک عہدیداروں کو تعینات کردیا تھا۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس(آئی جی پی) مشتاق مہر نے اپریل میں ریجنل کرائم کنٹرول سیل کے قیام سے متعلق جمیل احمد کے احکامات منسوخ کر دیے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ سیل کو 'قواعد اور جاری کیے گئے احکامات کے برعکس بدنیتی سے بنایا گیا تھا'۔

ڈان کو حیدرآباد اور کراچی پولیس سے حاصل معلومات میں انکشاف ہوا تھا کہ اے آئی جی کے دفتر سے منسلک چند افراد کا پس منظر مشکوک ہے، وہ یا تو ریٹائرڈ افسران ہیں یا سروس سے نکالے گئے افراد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طالبہ لاپتہ کیس: وزیراعظم کو 'گمراہ' کرنے کی کوشش پر ڈی آئی جی لاہور برطرف

ذرائع نے بتایا تھا کہ 'یہ تمام افراد ماوا، سپاری، سگریٹ، بھارتی گٹکا کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں جو بھارت سے براستہ ایران سے بلوچستان کے راستے سندھ پہنچتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ریجن میں اپنی گفتگو میں اپنے کام کو 'لائن' کہتے ہیں تاکہ کراچی اور حیدرآباد میں تاجروں تک اشیا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

اپریل میں اے آئی جی کے بیٹوں نے سرکٹ ہاؤس میں سرکٹ ہاؤس کے ملازمین سے بدسلوکی کی تھی اور 'انہیں سبق سکھانے' کے لیےدرختوں سے باندھا تھا۔

صوبائی ورکس اینڈ سروسز یونین کے جنرل سیکریٹری سجن خاصخیلی نے کہا تھا کہ اے آئی جی کے بیٹوں نے 'انتہائی ظالمانہ اور متکبرانہ انداز میں اسٹاف کو ہر وقت بدسلوکی کا نشانہ بناتے ہیں' اور انہوں نے یہاں تک کہ پولیس اہلکاروں کو بھی نہیں بخشتے۔

انتظامیہ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اے آئی جی گزشتہ برس 28 اگست سے سرکٹ ہاؤس میں مقیم ہیں جو وزیراعلیٰ سندھ سے متعلق ہے لیکن انہوں نے کرایے کے طور پر ادائیگی نہیں کی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024