صحافیوں پر حملے، بلاول کا ڈی جی آئی ایس آئی کو خط لکھنے کا فیصلہ
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو خط لکھیں گے اور صحافیوں پر حملوں سے 'کس طرح ان کے ادارے کی بدنامی ہورہی ہے، اس جانب ان کی توجہ دلائیں گے'۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران بلاول بھٹو نے ان خیالات کا اظہار کیا جہاں ابصار عالم، مطیع اللہ جان، حامد میر، اسد طور اور عاصمہ شیرازی سمیت کئی صحافیوں نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایس آئی کا صحافی پر حملے سے اظہارِ ’لاتعلقی‘
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ابصار عالم نے لکھا کہ 'بلاول بھٹو زرداری صحافیوں پر حملوں اور پاکستانیوں میں پھیلی دہشت اور خوف کی فضا کے پس منظر میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کو خط لکھ کر معاملے کی سنگینی اور ادارے کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان سے آگاہ کریں گے'۔
بلاول کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس میں حملوں کے حقائق جاننے کے بعد اعلان' کیا ہے۔
قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اجلاس کے دوران وزارت داخلہ کو غداری کے کیسز اور پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے تحت اب تک صحافیوں، بلاگرز اور وی لاگرز کے خلاف قائم مقدمات کی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
ابصارعالم کیس
پولیس نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ابصار عالم پر حملے کی فوٹیج نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو بھجوادی گئی ہے لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی بڑی مشکل سے حاصل کی گئی تھی اور وہ دھندلی ہے، کیس کی تفتیش کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم فائرنگ سے زخمی
خصوصی سیکریٹری برائے داخلہ نے بھی اسی طرح کا بیان دیا اورکمیٹی کوبتایا کہ وہ نادرا سے جواب موصول ہونے کے بعد بریفنگ دیں گے۔
بلاول بھٹو نے اسلام آباد میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں دنیا بھر کے سفارت خانے موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے پوری دنیا کو ایک منفی پیغام گیا ہے، وزارت داخلہ کو چاہیے اس معاملے کو حتمی نتیجے تک پہنچا دے۔
کمیٹی کے اراکین نے نادرا کے رویے پر اظہار ناراضی کرتے ہوئے سوال کیا کہ ادارہ کیا کر رہا ہے۔
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی عطااللہ نے کہا کہ نادرا کو فوٹیج دو ماہ قبل بھیجی گئی تھی لیکن رپورٹ تاحال موصول نہیں ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اس طرح کا حملہ وزیر داخلہ یا چیئرمین نادرا پر ہوتا تو کیا پھر بھی نادرا رپورٹ کے لیے اتنا ہی وقت لیتا؟
خصوصی سیکریٹری برائے داخلہ نے عطااللہ کے الفاظ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بات کرنے کا انداز مناسب نہیں ہے، جس پر دونوں کے درمیان الفاط کا تبادلہ ہوا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تاہم رکن اسمبلی محسن داوڑ اور دیگر کی مداخلت سے ماحول بہتر ہوا۔
'2018 سے اب تک صحافیوں پر 50 حملے'
بلاول بھٹو نے پولیس سے پوچھا کہ اسلام آباد میں اب تک صحافیوں پر کتنے حملے ہوئے ہیں اور کتنے حملوں کی باقاعدہ تفتیش کی گئی۔
پولیس نے بتایا کہ 2018 سے اب تک 50 حملے ہوئے ہیں اور ان میں سے 44 ذاتی نوعیت کے تھے، تاہم ان 44 کیسز میں سے 20 کے چالان جمع ہوچکے ہیں، 5 مسترد اور 19 زیر تفتیش ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے 'اغوا'
ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے خلاف 6 بڑے حملے ہوئے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ صحافیوں پر حملوں میں اگر کوئی ادارہ ملوث ہے تو یہ قابل مذمت ہے اور اگر ادارے کا نام غلط لیا جا رہا ہے تو یہ بھی قابل مذمت ہے۔
'نئے پاکستان میں سب سے زیادہ حملے ہوئے'
کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ اجلاس میں شرکت کرنے والے تمام صحافیوں کا شکرگزار ہوں لیکن پولیس اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے اطمینان بخش جواب موصول نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہم شکرگزار ہیں کہ سیکریٹری اور پولیس عہدیدار سوالوں کے جواب دینے کے لیے موجود تھے، بدقسمتی سے ہم مطمئن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں صحافیوں سے پر سب سے زیادہ حملے ضیاالحق کے دور میں نہیں اور نہ ہی جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئے بلکہ نئے پاکستان میں ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: جیو نے حامد میر کو آف ایئر کرنے کے حوالے سے اپنا مؤقف واضح کردیا
بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ نہ صرف قابل مذمت ہیں بلکہ یہ آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو مستقل بنیادوں پر ان صحافیوں سے رابطے میں رہے گی، جن پر حملے ہوئے ہیں اور کیس جاری رکھے ہوئے اور صحافیوں کے تحفظ کے بل کا بھی جائزہ لے گی۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ مجھے توقع ہے کہ اس اقدام کے بعد ہمارے پاس ایک طاقت ور بل ہوگا جو صحافیوں کے حق میں ہوگا۔