افغان امن عمل میں بگاڑ کا الزام لگایا گیا تو ذمہ داری نہیں لیں گے، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان پر افغانستان امن عمل میں بگاڑ کا الزام لگایا گیا تو وہ ذمہ داری نہیں لے گا۔
اسلام آباد میں پاک ۔ افغان دوطرفہ مذاکرات کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی اور کور گروپ جلد واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'میں اس دورے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں لیکن پیشگی طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ اگر واشنگٹن کے دورے کا مقصد نئی الزام تراشیاں اور افغانستان میں تمام خرابیوں اور امن عمل آگے نہ بڑھنے کے لیے مورد الزام ٹھہرانا ہے تو اس کا فائدہ نہیں ہوگا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ مشترکہ ذمہ داری ہے اور اب کوئی مزید اس بات پر یقین نہیں کرے گا کہ جب بھی کچھ غلط ہو تو ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جائے، ہم ذمہ داری نہیں لیں گے'۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ 'پاکستان پوری ایمانداری سے افغان امن عمل کی کامیابی کے لیے تعمیری کردار ادا کر رہا ہے اور ہم پر الزامات لگانے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے'۔
انہوں نے کہا کہ یہ اب افغانوں پر منحصر ہے کہ وہ ملک کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کریں اور اس کے لیے لوگ تلاش کریں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان مشیر کے غیر ذمہ دارانہ بیانات تکلیف دہ ہیں، وزیر خارجہ
ان کا کہنا تھا کہ 'افغانستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو بہترین نتائج کے لیے مذاکرات اور ملک کو امن کی راہ پر گامزن کر سکے'۔
شاہ محمود قریشی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان، انسداد دہشت گردی کے لیے افغانستان، خطے اور امریکا کے ساتھ شراکت داری چاہتا ہے، پاکستان نے بھاری نقصان اٹھایا ہے اور شہریوں، فوجیوں کی جانوں کی صورت میں بھاری قیمت چکائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کے منتخب نمائندے کے طور پر میں پاکستان میں طالبانائزیشن کو نہیں دیکھنا چاہتا، اس سے زیادہ میں کیسے واضح کروں؟'۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بالکل واضح فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ 'ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں ہے، یہ عمومی تاثر ہے کہ ہم طالبان کی وکالت کرتے ہیں، میں نہیں کرتا نہ اس طبقے کی نمائندگی کرتا ہوں، میں پاکستان کا نمائندہ ہوں، طالبان افغانی ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ ہر نسلی گروپ کے کئی افغان رہنماؤں کو اسلام آباد مدعو کرکے واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستان، تمام نسلی برادریوں اور رہنماؤں سے بات چیت کرنا چاہتا ہے جو امن اور مفاہمت کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس لیے ہم نے آپ کو مدعو کیا ہے اور امن و استحکام کے مشترکہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آپ کی قیادت کو مدعو کرتے رہیں گے'۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور پُرامن اور پائیدار افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔
مزید پڑھیں: افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے، واحد راستہ جامع، وسیع مذاکرات ہیں، وزیر خارجہ
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے ہرممکن اقدامات کیے، افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کوعالمی سطح پر سراہا گیا، امریکا سمجھتا ہے کہ خطے کے مسائل کا حل پاکستان کی مدد سے ممکن ہے۔
وزیر خارجہ نے ایک بار پر افغان نائب صدر و قومی سلامتی کے مشیر کے پاکستان کے خلاف بیانات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ الزام تراشی کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے، ایسے بیانیات امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرسکتے ہیں، افغانستان کی قیادت اور دیگر پاکستان پر اعتماد کریں اور ماضی بھول کر آگے بڑھیں۔
انہوں نے سرحد پار کرکے افغانستان میں مسائل پیدا کرنے والے عناصر کی پاکستان میں موجودگی کے الزامات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان، سرحد پر بہتر نظم و نسق کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا آرہا ہے لیکن اب ان کی باوقار واپسی کا وقت آگیا ہے۔