فاسٹ فوڈ اور ناشتہ نہ کرنا ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ
آپ کی غذا دماغی صحت پر نمایاں فرق کا باعث بنتی ہے چاہے آپ جو بھی ہوں۔
تاہم 30 سال سے زائد عمر کی خواتین کے لیے صحت بخش غذا کا استعمال ذہنی بے چینی، ڈپریشن اور تکلیف سے بچاؤ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
طبی جریدے جرنل آف پرسنلائزڈ میڈیسین میں شائع تحقیق میں 322 خواتین اور 322 مردوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 30 سال یا اس سے زیادہ تھی۔
ان افراد کی غذائی عادات، جسمانی سرگرمیوں اور مزاج کے بارے ڈیٹا اکٹھا کای گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گریاں، مچھلی اور سبز پتوں والی سبزیوں کا لوگوں میں استعمال خوشگوار مزاج سے منسلک ہے۔
اس کے مقابلے میں فاسٹ فوڈ اور ناشتہ نہ کرنے جیسی عادات مزاج پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہیں، جبکہ ہائی گلیسمک انڈیکس (کاربوہائیڈریٹس کی زیادہ مقدار والی غذائیں) غذائیں جو بہت تیزی سے بلڈ شوگر لیول بڑھاتی ہیں، سے بھی یہی اثر ہوتا ہے۔
ہائی گلیسمک غذاؤں میں آلو کے چپس، سفید ڈبل روٹی اور میٹھی غذائیں وغیرہ شامل ہیں۔
تاہم تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن خواتین میں یہ غذائی عادات پائی جاتی ہیں ان میں مردوں کے مقابلے میں ذہنی صحت کے منفی اثرات زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق خواتین چاہے صحت بخش غذاؤں کا زیادہ استعمال ہی کیوں کرتی ہوں، کبھی کبھار نقصان دہ غذائی عادات کو اپنانا بھی ان پر اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
محققین نے بتایا دلچسپ بات ہم نے یہ دریافت کی کہ نقصان دہ غذائی رجحانات سے ذہنی صحت پر منفی اثرات مردوں کے مقابلے میں خواتین پر زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔
تاہم تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا جاسکا کہ غذاؤں سے مزاج پر منفی اثرات کیوں مرتب ہوتے ہیں، تاہم ماہرین کے خیال میں خوش باش افراد کی جانب سے صحت بخش انتخاب کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ پریشان یا ذہنی طور پر بے چین افراد ناقص غذا کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ورزش کو اپنانا ناقص سے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔
محققین کے مطابق مردوں اور خواتین اگر ورزش کرتے ہیں، چاہے کچھ دیر کے لیے ہی، ان کی ذہنی صحت زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے والے لوگوں کے مققابلے میں زیادہ بہتر ہووتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ناقص غذا کے ذہن پر مرتب مضر اثرات کی روک تھام میں بھی ورزش انتہائی مؤثر ہے۔
اب محققین کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کس طرح غذا، ورزش اور مزاج سب ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔