• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش، پینشن میں 10 فیصد اضافہ، کم از کم تنخواہ 20 ہزار روپے مقرر

پی ایس ڈی پی کے لیے مجموعی طور پر 2 ہزار 135 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 37 فیصد زیادہ ہے۔
شائع June 11, 2021 اپ ڈیٹ June 12, 2021


بجٹ تقریر

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں مالی سال 22-2021 کا 8 ہزار 487 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش دیا۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ تقریر کا آغاز ہوتے ہی اپوزیشن بینچوں سے شور شرابہ شروع ہوگیا اور نعرے بازی کی گئی۔

ایوان میں بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا یہ تیسرا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ہم معیشت کے بیڑے کو کئی طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لے آئے ہیں، مشکلات تو درپیش ہیں مگر معیشت کو مستحکم بنیاد فراہم کردی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور کامیابی کی جانب گامزن ہیں، یہ کامیابی وزیراعظم کی مثالی قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کون سے حالات ورثے میں ملے، یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بہت زیادہ قرضوں کی وجہ سے ہمیں دیوالیہ پن کی صورتحال کا سامنا تھا۔

بجٹ تقریر پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں ورثے میں 20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ کا تاریخ خسارہ ملا، 25 ارب ڈالر کی درآمدات تھیں، اس عرصے کے دوران برآمدات میں منفی 0.14 فیصد جبکہ درآمدات کا اضافہ 100 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے مزید کہا کہ شرح سود کو مصنوعی طور پر کم رکھا گیا تھا اور تمام قرضے اسٹیٹ بینک سے لیے گئے جس کی وجہ سے مالیاتی حجم میں شدید عدم توازن پیدا ہوا، اسٹیٹ بینک سے قرضوں کا حجم 70 کھرب روپے کی خطرناک سطح تک پہنچ گیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تھا جو گزشتہ 5 سالوں میں سب سے زیادہ تھا، بیرونی زرِمبادلہ کے ذخائر بڑی حد تک قرضے لے کر بڑھائے گئے تھے جو جون 2013 میں 6 ارب ڈالر تھے اور 2016 کے آخر میں بڑھتے ہوئے 20 ارب ڈالر ہوگئے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری 2 سالوں میں بڑی تیزی سے کم ہوکر صرف 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اس دور میں بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا۔


بجٹ تقریر کے اہم نکات:

  • 3 منٹ سے زائد دورانیے کی موبائل فون کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال اور ایس ایم ایس پیغامات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کی تجویز
  • یکم جولائی 2021 سے تمام وفاقی ملازمین کے لیے 10 فیصد ایڈہاک ریلیف کا اعلان
  • سرکاری ملازمین کی پینشن اور تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز
  • کم از کم ماہانہ تنخواہ 20 ہزار روپے مقرر
  • تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا
  • مقامی سطح پر بنائی جانے والی 850 سی سی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ اور سیلز ٹیکس میں کمی
  • آئی ٹی کی خدمات کی برآمدات کے لیے زیرو ریٹنگ کی اجازت
  • پھلوں کے رس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ
  • قرآن پاک کی پرنٹنگ اور اشاعت میں استعمال ہونے والے آرٹ اور پرنٹنگ پیپرز کی درآمد پر چھوٹ
  • وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 40 فیصد اضافے سے 900 ارب روپے مختص
  • زراعت کے شعبے کے لیے 12 ارب روپے مختص
  • بجلی کی ترسیل کے لیے 118 ارب روپے مختص
  • موسمیاتی تبدیلیوں کے تخفیف کے منصوبوں کے لیے 14 ارب روپے مختص
  • کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے ایک ارب 10 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز
  • کووڈ 19 ایمرجنسی فنڈ کے لیے 100 ارب روپے مختص
  • سندھ کو خصوصی گرانٹ کے لیے 12 ارب روپے مختص

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ کے آخری دو سال میں جون 2018 تک 10 ملین ڈالر رہ گئے اس دور میں بیرونی قرضے میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تباہی کی داستان ہے جس کے بعد معشیت کی بحالی کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوگی۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود 5.5 شرح نمو کا ڈھول پیٹا گیا اور بلا سوچے سمجھے قرضے لیے گئے، انہوں نے کہا کہ یہ ساری ادائیگیاں ہمیں کرنی پڑیں ورنہ ملک ڈیفالٹ کرجاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم حقیقی منظر پیش کررہے ہیں، قبرستان میں کھڑے ہو کر قبروں کو کھودنے کے بجائے قوم کو روشنی کی طرف لے جایا جائے، وزیر خزانہ نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں تھوڑا وقت لگا۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مشکل فیصلے میں خوفزدہ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے 20 ارب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اپریل 2019 کو 800 ملین ڈالر کا سرپلس میں تبدیل کردیا گیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کی پالیسی اپنائی گئی، ہم استحکام سے معاشی نمو کی طرف گامزن ہوئے ہیں جبکہ کورونا کی وجہ سے معاشی نمو میں ایک سال کی تاخیر ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کورونا کی دو لہروں کا مقابلہ کرنا پڑا۔

معاشی ترقی کی ریکارڈ سطح

وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی ترقی کی شرح ہر شعبے میں ریکارڈ کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کپاس کے علاوہ تمام دیگر زرعی اشیا کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جبکہ صنعتی ترقی بھی غیر معمولی رہی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بڑے صنعتی شعبے میں 9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ ماضی میں نمو منفی 10 فیصد تھی۔

انہوں نے کہا ہم کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب رہے اگرچہ مارچ سے مئی کے دوران تیسری لہر کا سامنا کرنا پڑا لیکن کاروبار کی بندش سے گریز کیا۔

انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ 20 لاکھ گھرانوں کی مدد کی گئی اور پہلے سال میں ایک کروڑ 15 لاکھ گھرانوں کو امداد دی گئی۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ ترسیلات زر کی تاریخی سطح ریکارڈ کی گئی، بیرون سرمایہ کم آمدنی والے طبقے سے ہے، جس کی وجہ ان افراد کی اشیا کی خرید و فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیرونی ترسیلات زر اس سال 29 ارب ڈالر پر پہنچے گی، یہ سب سمندر پار پاکستانیوں کا عمران خان پر اعتبار کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ فصلوں کی پیداوار میں تاریخی اضافے سے کسانوں کو 3 ہزار 100 ارب روپے کی آمدنی ہوئی جبکہ گزشتہ برس یہ رقم 2 ہزار 300 ارب روپے تھی، جس سے آمدنی میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔

شوکت ترین نے کہا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں نمو سے لوگوں کے چھینے ہوئے روزگار کووڈ سے پہلے کی سطح پر بحالی کی نشاندہی ہو رہی ہے بلکہ روزگار میں مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ گزشتہ ایک دہائی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ خدمات کے شعبے میں اضافہ خاص طور پر ای کامرس کے ذریعے آن لائن خریداروں کے ذریعے روزگار میں بہتری کا عکاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ-19 کے باوجود گزشتہ ایک سال میں فی کس آمدنی میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس وصولیوں میں 18 فیصد کا زبردست اضافہ ہوا، جس کی وجہ معشیت کی غیر معمولی کارکردگی ہے، ٹیکس کی وصولی 4 ہزار ارب کی نفسیانی حد عبور کرچکی ہے۔

بجٹ تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ ریفنڈ میں پچھلے سال کے مقابلے میں 75 فیصد زائد پیسے دیے ہیں۔

غذائی اجناس

انہوں نے کہا کہ برآمدات ماضی کے مقابلے میں اب بہت زیادہ ہیں، اس سال برآمدات میں شاندار نمو دیکھنے میں آئی، جس میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ادائیگیوں کے توازن میں قابو پالیا گیا ہے اور سرپلس ہوگیا ہے، غذائی اجناس فصلیں تباہ ہونے پر برآمد کرنا پڑی۔

شوکت ترین نے کہا کہ ترسیلات زر میں 25 فیصد کا اضافہ ہوا اور 29 ارب تک پہنچ گئی ہیں اور بہتری کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری خزانے میں 3 مہینے سے زیادہ درآمدات کے لیے کافی ہے، ڈالر 155 روپے پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان غذائی اجناس میں خسارے کا ملک بن گیا ہے، عالمی مارکیٹ میں غذائی اجناس بلند ترین سطح پر ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ صوبوں کے تعاون سے زرعی پیداوار میں اضافہ اور فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے جامع پلان ترتیب دیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ برآمدات میں اضافہ ادائیگیوں کے توازن میں جاری مسلسل بحران سے نکالنے اور بار بار آئی ایم ایف پروگرام کی طرف جانے سے بچنے کے لیے نہایت اہم ہے، اس لیے ہم اس سیکٹر کے لیے کافی مراعات کا اعلان کر رہے ہیں اور ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں صنعتیں منتقل کی جائیں گی، روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے اور برآمدات میں اضافہ ممکن ہوسکے گا۔

ہاؤسنگ اور تعمیرات

شوکت ترین نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں کم از کم ایک کروڑ رہائشی مکانات کی کمی ہے، وزیراعظم کے ہاؤسنگ اور تعمیرات پیکج سے اس شعبے میں بہت سی معاشی سرگرمیوں اور اس شعبے سے وابستہ صنعتوں کو فروغ ملا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت اس پروگرام کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھارہی ہے، اس سلسلے میں پالیسی سازی اور اس کے نفاذ میں ربط کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اس پروگرام کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھارہی ہے، اس سلسلے میں پالیسی سازی اور اس کے نفاذ میں ربط کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس اقدام کے تحت ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے ٹیکسوں میں رعایت کا ایک پیکج خاص طور پر واضح کیا گیا ہے، اس کے علاوہ حکومت کم آمدنی والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کے لیے 3 لاکھ روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ مورٹگیج فنانسنگ شروع کی گئی ہے، تمام صوبائی حکومتیں اس اقدام میں معاونت کی غرض سے اراضی کا تعین اور ہاؤسنگ منصوبوں کا آغاز اور نجی شعبے کی ہاؤسنگ اسکیموں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بینک لوگوں کی رقوم کی فراہمی کے پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں اور اس ضمن میں بینکوں کو 100 ارب روپے کی فراہمی کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جس میں سے 70 ارب روپے کی فراہمی کی منظوری کی جاچکی ہے اور ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام

انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے بجٹ 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت ہمارا وژن بہت سادہ ہے، ہم زیادہ منافع بخش پروگرام میں سرمایہ کاری کریں گے جس سے بود و باش میں بہتری آئے گی اور کرپشن کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ قومی اقتصادی کونسل نے 2 ہزار 135 ارب روپے کے تاریخی ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے، جو کونسل کی طرف سے گزشتہ سال کے لیے منور کردہ بجٹ سے 33 فیصد زیادہ ہے۔

شوکت ترین نے فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے کہا کہ ہماری حکومت نے زراعت کے شعبے کو غیر معمولی ترجیح دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امسال گندم، چاول، گنے میں بہت زیادہ پیداوار ہوئی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی وجہ سے نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد لائیو اسٹاک اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مویشی، ماہی گیری، آپباشی کے شعبے کا اعادہ کیا جائے گا جبکہ ہم نے اگلے سال زراعت کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل اور فوڈ سیکیورٹی پراجیکٹ کے لیے ایک ارب روپے مختص کرنے کی تجویز شامل ہے۔

آبی تحفظ

انہوں نے کہا کہ پاکستان تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے اور وزیراعظم عمران خان چھوٹے ڈیموں کی تعیمر کے لیے خواہاں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تین بڑے ڈیمز کی تعمیرات ہماری ترجیحات میں شامل ہیں جس میں داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ پہلے میں کے لیے 57 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 23 ارب روپے جبکہ مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے 14 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

سی پیک

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت 13 ارب ڈالر مالیت سے 17 منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں جبکہ 21 ارب ڈالر سے 21 منصوبے جاری ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ اسٹریجک نوعیت کے 26 منصوبے زیر غور ہیں جن کی مالیت 28 ارب ڈالر ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ایم ایل ون ایک اہم منصوبہ، جس کی لاگت 9.3 ارب ڈالر ہے، اسے تین مراحلے میں مکمل کیا جائے گا، پیکج ون کا آغاز مارچ 2020 شروع ہوچکا جبکہ پیکج ٹو جولائی 2021 اور پیکج تھری جولائی 2022 میں شروع ہوگا۔

شوکت ترین نے کہا کہ ہم ساری کی ساری بجلی صارفین کو فراہم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اس لیے ہماری سرمایہ کاری میں ترجیحات یہ ہوگی کہ اس چیلنج پر پورا اتریں۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے بجٹ میں 118 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ کراچی میں کے ون اور کے ٹو منصوبے اور تربیلا ہائیڈرو پاور پلانٹ کی پانچویں توسیع کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پسماندہ علاقوں کے لیے خصوصی ترقیاتی پیکج شروع کیے ہیں، اس مقصد کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔

بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ زرعی شعبے کی طلب کو پورا کرنے کے لیے آبی وسائل میں بہتری ہمارا نصب العین ہے، جس کے لیے ساڑھے 19 ارب روپے رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لیے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں 30 ارب روپے اگلے 10 سالہ ترقی منصوبے کے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر حکومت یقین رکھتی ہے، اتھارٹی کے پاس مختلف مراحل میں 50 منصوبے موجود ہیں جن کی مجموعی لاگت 2 ہزار ارب روپے، جس میں ریل، صحت، لاجسٹک اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 710 ارب روپے کے مزید 6 منصوبے رواں سال شروع ہوں گے، جس کے لیے حکومت وائبلیٹی گیپ فنڈز کی مد میں 61 ارب روپے ادا کرے گی۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا مقابلہ

ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بلین ٹری سونامی منصوبہ ہے اور مالی سال میں 14 ارب روپے مختص کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سماجی شعبے میں وزیراعظم ترجیح دیتے ہیں، اس میں صحت، تعلیم، پائیدار ترقی کے اہداف، موسمیاتی تبدیلی اور دیگر شعبہ جات ہیں اور اس مد میں پی ایس ڈی پی میں 118 ارب روپے کے فنڈ مختص کر رہے ہیں۔

شوکت ترین نے کہا کہ وسائل بالخصوص ریونیو کو موبلائز کرنا ہماری معاشی پالیسی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ٹیکس رجیم میں ٹیکسٹائل ہماری معاشی پالیسی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ٹیکس نظام پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے یہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

مجوزہ ٹیکس پالیسی نئے ٹیکس گزاروں کی نشاندہی کے بعد ٹیکس نیٹ میں اضافہ، ٹیکس استثنی اور مراعات سے متعلقہ شقوں کا بتدریج خاتمہ کرے گی اور ٹیکس شرح میں کمی پر زور دے گی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ ٹیکس گزاروں کا تحفظ بھی کیا جائے گا تاکہ ان کے واجب الادا ٹیکس پر مزید کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔

قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں بجٹ کی تجاویز پر تبادلہ خیال اور منظوری دی گئی۔


بجٹ کے نمایاں خدوخال

وفاقی وزیر خزانہ نے بجت 2021 کے نمایاں خدو خال پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی ریونیو کا تخمینہ 7 ہزار 909 ارب روپے ہے جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ برس نظر ثانی 6 ہزار 395 ارب روپے تھا۔

انہوں نے کہا کہ رواں برس گزشتہ تخمینے سے 24 فیصد کا خاطر خواہ اضافہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر محاصل میں 24 فیصد اضافے کے ساتھ 4 ہزار 691 ارب سے بڑھ کر 5 ہزار 829 ارب روپے کا اضافہ متوقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ نان ٹیکس ریونیو کی 22 فیصد بڑھنے کی توقع ہے، وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 2 ہزار 704 ارب روپے سے بڑھ پر 3 ہزار 411 ارب روپے رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے صوبوں کو 25 فیصد زائد رقوم فراہم کی جائیں گی، اس کی وجہ سے صوبے، ترقی، صحت، بہبور، خواتین اور جوانوں پر خرچ کرنے کے قابل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ صوبوں کو منتقلی کے بعد وفاق کے پاس مجموعی محاصل کا تخمینہ 4 ہزار 497 ارب روپے ہے جبکہ گزشتہ برس 3 ہزار 691 ارب تھا اور 22 فیصد کے اضافے کی عکاسی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اخراجات 8 ہزار 497 ارب روپے ہیں جبکہ گزشتہ سال یہ 7 ہزار 341 ارب روپے تھے، اس مد میں 15 فیصد کا اضافہ ظاہر ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں اخراجات کا تخمینہ 6 ہزار 561 ارب سے بڑھ کر 7 ہزار 523 رہنے کی توقع ہے، جو 14 فیصد اضافہ ظاہر ہو رہا ہے، رواں اخراجات میں سود کی ادائیگی اور کووڈ 19 پر ایک بار اخراجات کو نکال کر رواں اخراجات میں 12 فیصد کا اضافہ متوقع ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ سبسڈیز کا تخمینہ 682 ارب روپے لگایا گیا ہے، جن میں 403 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ 22-2021 کے مجموعی بجٹ کا خسارہ 6.3 فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ اس کے مقابلے میں رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ تخمینے کے مطابق بجٹ خسارہ 7.1 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے۔

پرائمری خسارے کا ہدف 0.7 فیصد ہے جو رواں سال کے نظرثانی شدہ تخمینے کے مطابق 1.2 فیصد لگایا گیا ہے، یہ ہدف مقرر کرکے ہماری حکومت تین سال میں پرائمری خسارے میں 3.2 فیصد کی مجموعی کمی لانے میں حکومت کامیاب ہوجائے گی جو 2018 میں 3.8 فیصد تھا۔

اگلے برس کے اخراجات پر بجٹ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ویکسین کے لیے 1.1 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے، جون 2022 تک 10 کروڑ لوگوں کو ویکسین دینا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صحت انشورنس پروگرام نے نظام کو بدل کر رکھ دیا ہے، ایس ایم ایز کو کاروبار میں بلا ضمانت قرضوں کی فراہمی کے لیے 12 ارب مختص کیے گئے ہیں، جس میں مختلف اسکیمیں تجویز کی گئی ہیں۔

شوکت ترین نے کہا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کے لیے 10 ارب، اینٹی ریپ فنڈ کے لیے 100 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے 66 ارب روپے کی رقم مہیا کرنے کی تجویز ہے، ترقیاتی بجٹ کے لیے 44 ارب فراہم کیے جائیں گے بعد ازاں اس میں 15 ارب کا اضافہ کردیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ برآمدات میں اسکیموں کے تحت تعاون کا عمل جاری رہے گا، سرکاری اداروں پی آئی اے، اسٹیل مل وغیرہ کو 2016 ارب کی مدد دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کے لیے 56 ارب سے بڑھا کر 60 ارب اور گلگت بلتستان کو بجٹ کے لیے کے لیے 32 ارب سے بڑھا 47 ارب کی تجویز ہے، مزید برآں سندھ کو 19 ارب کو خصوصی گرانٹ فراہم کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری 2022 کے لیے وفاق کی جانب سے 5 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کے لیے 5 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے جبکہ کورونا ایمرجنسی فنڈ سے متعلق امور کے لیے 5 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔

خیال رہے کہ یہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا تیسرا بجٹ ہے، اس سے قبل 2020 میں پی ٹی آئی کی حکومت نے مالی سال 21-2020 کے لیے 71 کھرب 37 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا، جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ دفاعی بجٹ میں تقریباً 62 ارب روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا تھا لیکن تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے جون 2019 میں اپنا پہلا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔

اس وقت کے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے مالی سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا، جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3151.2 ارب روپے اور 7.2 فیصد تجویز کیا گیا تھا۔

مالی سال 19-2018 میں بجٹ کا تخمینہ 52 کھرب 46 ارب روپے سے زائد تھا، اس سے قبل مالی سال 18-2017 میں بجٹ تخمینہ 47 کھرب 52 ارب روپے سے زائد تھا جبکہ مالی سال 17-2016 میں بجٹ تخمینہ 43 کھرب 94 ارب روپے سے زائد تھا۔


جی ڈی پی

وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ مالی سال 2022 کے لیے حکومت نے مجموعی پیداوار کی نمو کا ہدف 4.8 مقرر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ ہم نے بجٹ میں جو اقدامات اٹھائے ہیں ان سے نمو اس سے بھی زیادہ ہوگی، ماضی کی طرح ہم معاشرے کے کمزور طبقات کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ چند سالوں میں حکومت نمو کو 6 سے 7 فیصد پر لے جانا چاہتی ہے۔


خسارہ/اخراجات

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حجم یا اخراجات کا بجٹ 8 ہزار 487 ارب روپے رکھا گیا ہے، جو گزشتہ سال کے اخراجات کے تخمینے سے تقریباً 19 فیصد زیادہ ہے۔

گزشتہ مالی سال اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 136 ارب روپے لگایا گیا تھا۔

مالی سال 2022 کے لیے جاری اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 523 ارب روپے رکھا گیا ہے، جو گزشتہ سال 6 ہزار 345 ارب روپے تھا۔

ان میں سے دفاعی خدمات کے لیے ایک ہزار 370 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے جبکہ سود کی ادائیگیوں کے لیے 3 ہزار 60 ارب روپے خرچ ہوں گے۔

دفاعی خدمات پر اخراجات، مجموعی اخراجات کا تقریباً 16 فیصد ہیں، جو گزشتہ سال 18 فیصد تھے۔

اسی طرح مالی سال 22-2021 کے لیے بجٹ خسارے کا تخمینہ 3 ہزار 420 ارب روپے لگایا گیا ہے، جو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6.3 فیصد ہے جو گزشتہ سال 7 فیصد تھا۔


ترقیاتی اخراجات

مالی سال 2022 کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے مجموعی طور پر 2 ہزار 135 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے ایک ہزار 324 ارب روپے کے مقابلے میں 37 فیصد زیادہ ہے۔

اس کے تحت وفاقی پی ایس ڈی پی کے لیے 27.7 فیصد اضافے سے 900 ارب روپے جبکہ صوبائی پی ایس ڈی پی کے لیے 45 فیصد اضافے سے ایک ہزار 235 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔


افراط زر

آئندہ مالی سال کے لیے حکومت نے افراط زر کو 8.2 تک رکھنے کا ہدف مقرر کیا ہے، جو مالی سال 2021 کے 6.5 فیصد کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔


محصولات

حکومت نے مالی سال 2022 کے لیے وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کے لیے ٹیکس محصولات کا ہدف 5 ہزار 823 ارب روپے مقرر کیا ہے، جو گزشتہ سال کے 4 ہزار 963 ارب روپے سے 17.4 زیادہ ہے۔

مجوزہ ٹیکس پالیسی مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہوگی۔

1۔ سیلف اسسمنٹ اسکیم کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا کہ ہر شخص اپنا ٹیکس گوشوارہ خود بنا کر ایف بی آر کو بھیجے گا، اگر ایف بی آر کے پاس اس کے خلاف کوئی مصدقہ معلومات نہ ہوں تو گوشوارے میں درج تمام ٹیکس گوشوارے اسسمنٹ آرڈرز سمجھے جائیں گے بصورت دیگر گوشوارے کو آڈٹ میں بھیجا جائے گا۔

2۔ خود تشخیصی نظام کے تحت گوشواروں کو صرف آٹو میٹڈ رسک بیسڈ سیلیکشن پروسیجر کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔

3۔ ای آڈٹ سسٹم کے تحت آڈٹ کے لیے باہر سے آڈیٹرز کا انتخاب کیا جائے گا۔

4۔ جان بوجھ کر چھپائی گئی معلومات یا ٹیکس چوری مجرمانہ تصور ہوں گی جس پر جیل جانے کی سزا دی جائے گی۔

5۔ ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

6- انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس، ٹیکس جمع کرنے کے لیے پرائمری انسٹرومنٹس ہیں۔

7- ٹیکس مشینری کو ٹیکس چوری کرنے والوں اور ٹیکس نیٹ میں شامل نہ ہونے والوں کے خلاف مزید متحرک کیا جائے گا، اس ضمن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا تاکہ ٹیکس گزاروں کی نشاندہی ہوسکے اور انسانی عمل دخل کا خاتمہ ہو۔

8۔ ٹیکسیشن میں پروگریسیویٹی کو مزید تقویت دی جائے گی اور امیروں کو واجب الادا ٹیکس ادا کرنا ہوگا جبکہ طاقت ور گروپس کو ملنے والی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کیا جائے گا۔

9۔ تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔

10- ٹریک اینڈ ٹریس کے نظام کو ابتدائی طور پر 4 صنعتوں کے لیے شروع کیا جائے گا لیکن بعد میں تمام صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں استعمال کیا جائے گا۔

11- اس ضمن میں حکومتی حکمت عملی کا بنیادی جزو جی ایس ٹی نیٹ میں اضافہ کرنا ہے اور تمام ریٹیل اور ہول سیل ٹرانزیکشنز کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا جو ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام سے منسلک ہیں، اس سلسلے میں ایف بی آر کے پوائنٹ آف سیل سے منسلک ہونے میں تاجروں کی مدد کی جائے گی۔

12۔ صارفین کے لیے ہر ماہ قرعہ اندازی کے بعد سیلز ٹیکس رسیدوں پر انعامات تقسیم کیے جائیں گے۔

13۔ پاکستان سنگل ونڈو پراجیکٹ کے آغاز سے درآمدات اور برآمدات کی کلیئرنس ایک پورٹل کے ذریعے ہوگی جس سے کارگو کلیئرنس جلد از جلد ممکن ہوگی۔

14۔ خدمات پر سیلز ٹیکس میں ہم آہنگی کے لیے صوبوں کی مشاورت کے بعد عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور ٹیکس نظام کو سادہ بنانے کے لیے نیا سادہ ٹیکس ریٹرن فارم، ٹیکس کوڈ اور قوانین لائے جارہے ہیں۔


ٹیکسز، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی

بجٹ 22-2021 میں سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں یہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں:

چھوٹے کاروبار کو سہولت دینے کے لیے سالانہ ٹرن اوور کی سطح میں اضافہ کیا جارہا ہے جس کے تحت ایک کروڑ روپے تک کی سالانہ ٹرن اوور والی گھریلو صنعت کو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہونے کی ضرورت نہیں۔

اس سے قبل 30 لاکھ روپے تک ٹرن اوور رکھنے والے چھوٹے کاروباروں کو بھی سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہونا پڑتا تھا اور ماہانہ بنیادوں پر سیلز ٹیکس گوشوارے داخل کرنے پڑتے تھے۔

رجسٹرڈ افراد کی سہولت اور کاروباری آسانی میں اضافے کے لیے بہت سی اسکیمیں متعارف کروائی گئی ہیں:

ٹیکس قانون کی شق 73 کے تحت واجبات اور وصولیوں کی کنسٹرکٹو پیمنٹ کی اجازت دی جائے گی۔

فرنیچر کے کاروبار سے منسلک ٹیئر ون ریٹیلر دکان کے رقبے میں دو گنا اضافہ کیا جائے گا۔

واجب الادا سیلز ٹیکس کو ایڈوانس ادائیگی سے استثنیٰ دیا جائے گا۔

کاروباری طبقے کے دیرینہ مطالبے پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس ماڈل پر کم از کم ویلیو ایڈیشن کی اہمیت کے پیش نظر ان پٹ ٹیکس الاؤنس کی پابندی کو بہت زیادہ ریگولیٹڈ سیکٹر جیسا کہ پبلک لمیٹڈ کمپنیز جو پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر درج ہیں، پر سے ہٹانے کی تجویز دی گئی ہے۔

مقامی سطح پر بنائی جانے والی 850 سی سی تک کی گاڑیوں کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے چھوٹ دی گئی ہے اور ان کے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کی جارہی ہے اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔

وفاقی اور صوبائی قبائلی علاقوں میں موجود صنعتوں پر 2019 کے فنانس ایکٹ کے ذریعے لگائے گئے فیڈرل ٹیکس کو وی اے ٹی موڈ میں واپس لیا جارہا ہے۔

آئی ٹی اور آئی ٹی پر انحصار کرنے والی خدمات کی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے آئی سی ٹی آرڈیننس، 2001 میں تبدیل کرتے ہوئے ان خدمات کو زیرو ریٹنگ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔

فنانس ایکٹ 2019 کے ذریعے پھلوں کے رس پر نافذ کی گئی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو واپس لیا جارہا ہے۔

قرآن پاک کی پرنٹنگ اور اشاعت میں استعمال ہونے والے اچھی کوالٹی کے آرٹ پیپر اور پرنٹنگ پیپر کی درآمد پر چھوٹ دے دی گئی ہے۔

الیکٹرانک گاڑیوں کی مقامی مینوفیکچرنگ کے لیے سی کے ڈی کٹس کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ، مقامی طور پر تیار کردہ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 سے ایک فیصد تک کمی، الیکڑک گاڑیوں اور سی کے ڈی کٹس کی درآمد پر ویلیو ایڈیشن ٹیکس کی چھوٹ اور 4 پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی تجویز دی گئی ہے۔

جان لیوا وائرس اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کے منفی اثرات کو دور کرنے کے لیے آٹو ڈس ایبل سرنجز اور ان کے خام مال اور آکسیجن سلنڈرز پر ٹیکس چھوٹ دی جارہی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی زونز میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے پلانٹ، مشینری، سازو سامان اور خام مال کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ کی تجویز دی گئی ہے۔

دیہی علاقوں میں کسانوں کو غلہ اسٹوریج کی سہولت دینے کے لیے مقامی طور پر تیار کیے گئے گوداموں کو ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

ٹیلی مواصلات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں 17 سے 16 فیصد کمی کی تجویز دی گئی ہے۔

بینکوں کی طرف سے پوائنٹ آف سیلز پر مرچنٹ ڈسکاؤنٹ ریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی تجویز دی گئی ہے تاکہ کاروبار کی حوصلہ افزائی ہو۔

آن لائن مارکیٹ کے ذریعے تھرڈ پارٹی فروخت کو سیلز ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کی تجویز دی گئی ہے۔

مختلف برانڈز کو لائسنس حاصل کرنے کے لیے رجسٹریشن کا پابند کیا جائے گا اور غیر رجسٹرڈ برانڈز کو جعلی تصور کرکے ان کو ضبط اور ضائع کیا جائے گا۔

ٹیلی مواصلات کے شعبے سے جائز حد تک ریونیو حاصل کرنے کے لیے 3 منٹ سے زائد دورانیے تک جاری رہنے والی موبائل فون کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال اور ایس ایم ایس پیغامات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ کی جارہی ہے، جس سے آبادی کے ایک بڑے حصے پر معمولی ٹیکس نافذ ہوگا۔

ری کلیمڈ لیڈ اور استعمال شدہ بیٹریوں سے وابستہ سیکٹر غیر منظم ہے، اس سیکٹر پر سیلز ٹیکس ودہولڈنگ کے نفاذ کی تجویز دی گئی ہے۔

انکم ٹیکس

ٹیکس نظام میں انسانی عمل دخل کو ختم کرنے، تعمیلی لاگت کو کم کرنے اور ٹیکس گزاروں کا قیمتی وقت بچانے کے لیے الیکٹرانک سماعت کے نظام کو متعارف کرایا گیا ہے۔

ود ہولڈنگ ٹیکس رجیم میں 40 فیصد کمی کرتے ہوئے 12 ود ہولڈنگ ٹیکس شقوں کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جن میں بینکنگ ٹرانزیکشن، پاکستان اسٹاک ایکسچینج، مارجن فنانسنگ، ایئر ٹریول سروسز، ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بین الاقوامی ٹرانزیکشنز شامل ہیں۔

موبائل سروسز پر موجودہ ود ہولڈنگ ٹیکس شرح 12.5 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور اسے بتدریج 8 فیصد تک کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ میں انسان دوست این جی اوز جیسا کہ عبدالستار ایدھی فاؤنڈیشن، انڈس ہسپتال اینڈ نیٹ ورک، پیشنٹس ایڈ فاؤنڈیشن، سندس فاؤنڈیشن، سٹیزنز فاؤنڈیشن اور علی زیب فاؤنڈیشن وغیرہ کو مشروط ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

تحفے کی صورت میں جائیداد حاصل کرنے یا وراثت یا کسی وصیت کے تحت جائیداد کے حصول کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مراعات دی گئی ہے، ایسے ٹرانسفر کو نہ تو فائدہ شمار کرے گا اور نہ ہی نقصان۔

کتابوں، رسالوں، زرعی آلات اور 850 سی سی تک کی کاروں کے سی بی یو کی درآمد کو ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔

پیچیدہ ٹیکس نظام کو سادہ بنانے کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ پراپرٹی آمدنی پر بلاک ٹیکسیشن ختم کردی جائے۔

تجویز دی گئی ہے کہ غیر منقولہ پراپرٹی فروخت اور سود سے حاصل ہونے والی آمدنی پر کیپٹل گین کے الگ بلاک ٹیکس کے دائرہ کار کو محدود کردیا جائے۔

بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کا ہر سیکٹر جی ڈی پی میں اس کے حصے کے حساب سے ٹیکس ادا نہیں کر رہا ہے، اس کی واضح مثال سروسز سیکٹر ہے، جس میں تھوک اور پرچون کاروبار کا جی ڈی پی میں 18 فیصد حصہ ہے جبکہ ٹیکس ادائیگی میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے نئی پالیسی اختیار کی گئی ہے اور دو سال میں رئیل ٹائم پوائنٹ آف سیل میں 5 لاکھ ریٹیل دکانوں تک وسیع کردیا جائے گا جو اس وقت 11 ہزار ریٹیل دکانوں میں نصب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے پی او ایس نظام سے منسلک کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں جن میں پی او ایس مشینوں پر ٹیکس کریڈٹ شامل ہے اور حکومت ایسی ڈیوائسز کی تنصیب کا خرچہ برداشت کرے گی اور کاروبار پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ تھوک فروش اور پرچون فروش پر کم شرح ود ہولڈنگ ٹیکس کا دائرہ کار کو معیشت کے دوسرے شعبوں میں بھی پھیلایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تھوک فروش اور پرچون فروش کو مزید سہولت دینے کے لیے افراد اور ایسوسی ایشن آف پرسنز کے کم ازکم ٹیکس کی سطح کو 100 ملین تک بڑھانے کی تجویز ہے۔


قومی اقتصادی سروے

واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے مالی سال 21-2020 کا قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب معیشت کے استحکام کے بجائے نمو پر توجہ دینی ہے۔

شوکت ترین نے بتایا کہ جب کووِڈ 19 شروع ہوا اس وقت تقریباً 5 کروڑ 60 لاکھ افراد برسرِ روزگار تھے جن کی تعداد گر کر 3 کروڑ 50 لاکھ پر آگئی یعنی 2 کروڑ لوگ بے روزگار ہوگئے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ بجٹ میں حکومت کا اپنا اندازہ 2.1 فیصد شرح نمو کا تھا جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا تخمینہ تو اس سے بھی کم تھا لیکن حکومت نے جو فیصلے لیے، جن میں مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، زراعت اور تعمیراتی شعبے کو گیس، بجلی اور دیگر مد میں مراعات دی گئیں اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ نے مثبت نمو کا مظاہرہ کیا جو تقریباً 9 فیصد تھی۔

سروے کے مطابق پاکستان میں مالی سال 21-2020 میں عبوری شرح نمو 3.94 فیصد رہی، جو مجموعی طور پر تمام شعبوں میں ریباؤنڈ کی بنیاد پر حاصل ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ زراعت نے 2.77 فیصد نمو کی حالانکہ کپاس خراب ہونے کی وجہ سے ہمیں نمو منفی ہونے کا اندیشہ تھا لیکن باقی 4 فصلوں، گندم، چاول، گنا اور مکئی نے بہتر کارکردگی دکھائی۔

صنعتی شعبے میں 3.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ خدمات میں 4.4 فیصد اضافہ ہوا حالانکہ اس کا ہدف 2.6 فیصد تھا۔

شوکت ترین نے کہا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) میں 9 فیصد اضافہ ہوا، جس سے مجموعی طور پر شرح نمو میں اضافے میں مدد ملی۔

انہوں نے کہا کہ ترسیلات زرِ نے ریکارڈ قائم کردیا اور اس وقت ترسیلات زر 26 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہیں اور ہمارے اندازے کے مطابق 29 ارب ڈالر تک جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس کلیکشن بھی بہت بہتر ہے اور 11 ماہ کے دوران ہم 42 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 18 فیصد سے زائد ہے حالانکہ مالی سال کے آغاز میں کسی کو اتنا بہتر ہونے کا اندازہ نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مارچ کے بعد سے ماہانہ بنیاد پر ٹیکس کلیکشن کی نمو 50 سے 60 فیصد زیادہ ہے اس لیے ہمارا اندازہ ہے کہ ہم 47 کھرب روپے کے تخمینے سے بھی آگے نکل جائیں گے۔

سروے کے مطابق مالی سال 2021 کے دوران جب دنیا کو کووڈ کے باعث معاشی مشکلات کا سامنا تھا تو پاکستان کی بیرونی ترسیلات زر نے مزاحمت دکھائی۔

انہوں نے کہا کہ جولائی سے مارچ میں مالی سال 2021 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ 95 کروڑ 90 لاکھ ڈالر (جی ڈی پی کا 0.5 فیصد) سرپلس تھا جس کے مقابلے میں گزشتہ برس خسارہ 4 ہزار 141 ملین ڈالر تھا جو جی ڈی پی کا 2.1 فیصد تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ کے توازن میں بہتری کے لیے بنیادی کردار بیرونی ترسیلات میں بے پناہ اضافہ تھا۔

سروے میں کہا گیا کہ مالی سال 2021 میں جولائی سے مارچ کے دوران مصنوعات کی برآمدات میں 2.3 فیصد سے 18.7 ارب ڈالر اضافہ ہوا جو ایک سال قبل اسی دوران 18.3 ارب ڈالر تھیں۔

مصنوعات کی درآمدات 9.4 فیصد 37.4 ارب ڈالر اضافہ ہوا جو گزشتہ برس 34.2 فیصد تھی، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ 17.7 فیصد 18.7 ارب ڈالر تھا جبکہ ایک سال قبل 15.9 ارب ڈالر تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی کی بات ہوتی ہے لیکن ہم خالصتاً اشیائے خورونوش درآمد کرنے والا ملک بن گئے ہیں ہم گندم، چینی، دالیں، گھی درآمد کررہے ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہیں اس سے بچ نہیں سکتے۔

وزیر خزانہ کے مطابق گزشتہ 12 ماہ کے دوران چینی کی عالمی قیمتیں 58 فیصد بڑھیں جبکہ ہمارے ہاں چینی کی قیمت 19 فیصد بڑھی، پام آئل کی قیمت میں 102 فیصد، سویابین کی قیمت میں 119 فیصد ہوا جبکہ ہمارے ہاں پام آئل کی قیمت میں صرف 20 فیصد اضافہ ہوا۔

شوکت ترین نے کہا کہ مارچ کے اختتام تک ہمارا مجموعی قرض 380 کھرب روپے تھا جس میں سے ڈھائی سو کھرب مقامی قرض جبکہ تقریباً 120 کھرب غیر ملکی قرض ہے جس میں گزشتہ برس کے مقابلے صرف تقریباً 17 کھرب روپے کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اس سے پہلے والے سال میں یہ اضافہ 36 کھرب روپے تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس دفعہ قرضوں میں اضافہ گزشتہ برس کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے، گزشتہ برس کے مقابلے میں غیر ملکی قرض 7 کھرب روپے کم ہے اور یہ جون 2020 میں 131 کھرب روپے تھا جو 125 کھرب روپے پر آگیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ احساس پروگرام کو ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ایک کروڑ 50 لاکھ گھرانوں تک پہنچایا اور اس میں ایمرجنسی کیش اور دیگر مراعات دی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح وزیراعظم نے کامیاب جواب پروگرام کا اجرا کیا جس سے ساڑھے 8 سے 9 ہزار افراد مستفید ہوچکے ہیں، بلین ٹری سونامی کے تحت ایک ارب درخت لگائے جاچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ریٹنگ اداروں موڈیز، فچ وغیرہ نے ہماری کریڈٹ ریٹنگ بہتر کی یہ اس بات کی سند ہے کہ ہمارا استحکام کا پروگرام کامیاب ہوا اور اب ہمیں پائیدار معاشی نمو کی جانب جانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کب تک ہم معیشت مستحکم کرنے میں لگے رہیں گے معیشت کا پہیہ تیز چلا کر جب شرح نمو 7 سے 8 فیصد پر لے جائیں گے اسی وقت نوجوان نسل کو درکار روزگار فراہم کرسکیں گے۔

شوکت ترین نے بتایا کہ اس مرتبہ بجٹ میں سب سے بڑی چیز یہ ہوگی کہ ہم نے غریب کا خیال رکھنا ہے، استحکام کے دوران اور 74 سال سے غریب پس رہا ہے جسے ہم خواب دکھاتے رہے ہیں کہ اوپر سے معیشت ترقی کرے گی تو اس کے اثرات نیچے آئیں گے حالانکہ یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب نمو پائیدار اور 20 سے 30 سال تک مسلسل ہو جیسے چین، بھارت اور ترکی میں ہے۔