لاہور کے والٹن ہوائی اڈے پر 'حادثہ' روکنا ہوگا
والٹن ایروڈروم سے میری 2 بڑی پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ پہلی یاد کا تعلق 1956ء یا 1957ء سے ہے۔ اس وقت میں کوئی 4 یا 5 سال کا ہوں گا۔ میں اور میرے انکل جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے، ان کی آسٹن گاڑی میں سوار ہوکر لاہور میں واقع ایک پرانے سے گھر آئے تھے، جس کی نشست گاہ میں بیٹھ کر میرے انکل نے ایک یورپی ڈاکٹر سے خوب باتیں کی تھیں۔
اس گھر میں ایک یا دو ملازموں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا اور میں اپنی سمجھ سے باہر چیزوں کو دیکھ کر بیزار آگیا تھا، سو باہر موجود بڑے سے باغیچے میں یہاں وہاں ٹہلنے لگا۔ میں نے جھاڑیوں کے بیچ خالی جگہ میں سے لوہے کی دیوار کے ساتھ کھڑے جہازوں کو دیکھا۔ آج اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دیوار دراصل ہینگر یا طیارہ گاہ کی دیوار رہی ہوگی۔
میں نے وہاں موجود ناکارہ جہازوں کا بغور جائزہ لیا اور پھر جس ایک جہاز کا دروازہ کھلا تھا اس پر سوار ہوگیا۔ میں پھٹی ہوئی اور اپنا لوہا ظاہر کرتی سیٹوں کے بیچ جھکے ہوئے درمیانی راستے پر مکڑی کے جالوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کوک پٹ میں جا پہنچا، جہاں موجود ایک سیٹ پر میں براجمان ہوگیا۔ پھر اسٹیئرنگ وہیل تھام کر منہ سے انجنوں کی آواز نکالنے لگا اور اس دیوقامت مشین کو عرش کی بلندیوں پر اڑا لے گیا۔ جیسے ہی جہاز نے اڑان بھری تو میں نے برابر والی کھڑکی سے جھانک کر نیچے نمودار ہوتے مناظر کو دیکھا۔
مجھے یاد نہیں کہ میں کتنی دیر تک دریاؤں اور جنگلوں کے اس دلچسپ جہاں میں پرواز کرتا رہا پھر انکل کی آواز پر میں چونک اُٹھا۔ 'بہت اچھے۔ تم طویل اڑان بھر چکے ہو۔ چلو اب گھر چلتے ہیں!'
اس کے غالباً 3 سے 4 برس بعد مجھے والٹن کو دوسری بار دیکھنے کا موقع ملا۔ اس روز میں اپنی والدہ کے ساتھ اپنے ایک کزن کو لینے آیا ہوا تھا کیونکہ ان دنوں یہ لاہور کا پہلا انٹرنیشنل ایئرپورٹ بن چکا تھا۔ 1962ء میں انہوں نے ایئرپورٹ کو کنٹونمنٹ کے ایک ایسے مقام پر منتقل کردیا جسے علاقے کے پرانے نقشے پر غیر واضح وجوہات کی بنا پر 'فش ٹینکس' کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ والٹن پھر سے فلائنگ کلب کی صورت میں اپنی ابتدائی حیثیت میں بحال ہوگیا۔
1960ء کی دہائی میں سائیکل پر سوار ہوکر میں شوخ نارنجی رنگ کے ان گلائیڈر طیاروں کو دیکھنے والٹن آیا کرتا تھا، جو پرانی فوجی گاڑی سے بندھے ہوتے تھے۔ اس فوجی گاڑی کے بونٹ پر Dodge Power Wagon لکھا ہوتا تھا۔ ایک بار دورانِ پرواز پائلٹ نے لوہے کا رسہ چھوڑا اور آزادانہ اڑان بھرنے لگا۔ کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ کیا ان پائلٹوں کو بھی اسی طرح کی سنسنی محسوس ہوتی ہے جس کا تجربہ مجھے کئی برس پہلے اس طیارے کو اڑا کر ہوا تھا، جسے بعدازاں مجھے پتا چلا کہ لوگ ڈی سی 3 ڈکوٹا پکارتے ہیں۔ اگرچہ فلائنگ کلب کے پاس اب ایک بھی گلائیڈر نہیں ہے لیکن گلائیڈر پائلٹ کے لائسنس کے حصول کی خاطر جن جن افراد نے بغیر انجن والے طیارے میں بیٹھ کر ایک بار فضا میں اڑان بھری ان کی تعداد 118 ہے۔
چلیے ماضی میں سال 1930ء کا رخ کرتے ہیں جب ہوابازوں کے ایک گروہ نے پنجاب فلائنگ کلب کے قیام کے لیے لاہور کے اس حصے میں اپنی ملکیتیں عطیہ کی تھیں۔ ان صاحبان میں ڈاکٹر گوکل چند نارنگ، ڈاکٹر جے بی اسپراؤل (لاہور کا یورپی باسی)، روپ چند اور سردار بہادر سر سندر سنگھ میجتھیہ شامل تھے۔
اُس سال انہوں نے گراس اسٹرپ یا گھاس والی ہوائی پٹی پر ہی پروازوں کا آغاز کیا تھا۔ 1937ء کے آتے آتے جب ادارے کا نام بدل کر ناردرن انڈین فلائنگ کلب رکھا گیا تب اس کا رقبہ 156 ایکڑوں تک پھیل چکا تھا۔ (یہاں یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ بعد کے برسوں میں اس کی زیادہ تر زمین پر طاقتور ادارے قابض ہوگئے اور وہاں رہائشی اور دفتری تعمیرات ہوئیں۔ آج کلب کے پاس اصل اراضی کے پانچویں حصے سے بھی کم اراضی کا رقبہ رہ گیا ہے)۔
جب دوسری جنگِ عظیم کا وقت آیا تو فوجی ہوائی پٹی کے طور پر فلائنگ کلب دُگنا بڑا بھی ہوگیا۔ کچھ ہی عرصے بعد دنیا کے نقشے پر پاکستان نمودار ہوا اور قائدِاعظم والٹن پر جہاز سے اُترے۔ آج جس طیارہ گاہ کو الٹرا لائٹ اسپورٹس فلائنگ کلب (یو ایس ایف سی) کے نام سے پکارا جاتا ہے وہ کبھی بانی پاکستان کے لیے ایک وی آئی وی لاؤنج کے طور پر استعمال ہوا تھا۔ ان کے بعد آنے والوں نے بھی اس عمارت کو عزت بخشی اور اسے پاکستان کی عمارتی ورثے میں ایک خاص مقام دلایا۔
آزادی کے بعد لاہور فلائنگ کلب ملک میں ہوا بازی کا اعلیٰ ترین ادارہ بن گیا اور آج پاکستانی ایئر لائنوں سے وابستہ 80 فیصد پائلٹ اسی کلب کے دروازوں سے گزر کر آسمان کی بلندیاں چُھو رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ 1952ء تک ان دنوں کی رائل پاکستان ایئر فورس کے 80 کیڈٹس نے بھی اپنی ابتدائی تربیت یہیں سے حاصل کی تھی۔
والٹن کے رن وے سے اوریئنٹ ایئرویز، پاک ایئر اور کریسنٹ ایئر ٹرانسپورٹ کی پروازوں نے اڑان بھری تھی، بعدازاں ان سب کا ایک ہی ایئرلائن میں انضمام ہوگیا، جسے آج ہم پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے نام سے جانتے ہیں۔ مختلف زاویوں سے والٹن ایروڈروم یا لاہور فلائنگ کلب، جو مرضی پکاریں، تاریخ پاکستان میں ایک کردار رکھتا ہے۔
نجی طیاروں اور تربیتی پائلٹوں کی قابلِ ذکر تعداد کے باوجود کلب غیر منافع بخش ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ حکومت کی مالی سرپرستی کا نہ ہونا ہے۔ تربیتی پائلٹ فی گھنٹے کے حساب سے پرواز کے عوض ایک مخصوص رقم دیتے ہیں، اور ایک اندازے کے مطابق کلب کو اپنے عملے کو تنخواہیں دینے کے لیے 200 گھنٹوں کی پرواز مطلوب ہوتی ہے۔ جہاں تک تنخواہوں کا تعلق ہے تو وہ بھی کسی مذاق سے کم نہیں۔ ایک تربیت یافتہ میکینک کی ماہانہ تنخواہ 18 ہزار ہے جبکہ چیف انسٹرکٹر صرف ایک لاکھ اور کچھ روپے ہی کماتا ہے! زیادہ تر افراد کم آمدن کے باوجود صرف اپنے شوق اور جذبے کی خاطر اس کلب کو محوِ پرواز رکھتے چلے آ رہے ہیں۔
حکومت کسی قبضہ خور کی باتوں میں آکر فلائنگ کلب کو دوسری جگہ منتقل کرنے پر راضی ہوگئی ہے تاکہ درختوں سے بھرپور اس کھلی جگہ کو کنکریٹ میں تبدیل کیا جاسکے۔ انہوں نے تربیت کا آغاز کرنے والوں پر والٹن سے اڑان بھرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ جب اڑان نہیں بھری جائے گی تو پیسے بھی نہیں آئیں گے، یوں ادارہ اپنے ہی بوجھ تلے دفن ہوجائے گا۔ کلب کو لاہور سے باہر مریدکے منتقل کرنے کے سبز باغات دکھائے جا رہے ہیں۔ اس وقت تک کے لیے، بقول شخصے، کلب کو طیارے، اسپیئر پارٹس اور دیگر ساز و سامان کو فیصل آباد کے مقام پر طیارہ گاہ اور اسٹوریج کی سہولیات کے بغیر غیر محفوظ انداز میں رکھنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ کلب کا ساز و سامان کروڑوں روپے مالیت کا ہے۔
کلب کی فیصل آباد یا مریدکے منتقلی کے منصوبے جلدبازی کے فیصلے ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو میکینکس اپنی محدود آمدن کے ساتھ روزانہ آنے جانے کا خرچہ کس طرح برداشت کرپائیں گے۔ ان میں سے چند افراد دوسری پیڑھی کے ملازمین ہیں وہ تو ضرور بے روزگار ہوجائیں گے۔ اگر حکومت کو ان افراد کی تھوڑی بھی قدر ہے تو انہیں روزگار سے محروم نہ کرے۔
ایک طرف زمین دار گھرانوں سے تعلق رکھنے والی وہ عظیم شخصیات تھیں جنہوں نے محض 100 سال پہلے اپنی ذاتی ملکیتیں عطیہ کرکے فلائنگ کلب کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا، اور دوسری طرف یہ قابلِ نفرت لوگ ہیں جو کلرک اور کولی تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے طاقتور لوگوں کی رضا و خوشنودی حاصل کرتے ہوئے خوب پیسہ بنایا۔ یہ لوگ اب منہ تک بھرے اپنے بینک اکاؤنٹس میں محض چند روپوں کے اضافے کی خاطر اس لیگیسی کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ بلاشبہ خاندانی پیسے اور نئی دولت کا کوئی موازنہ نہیں ہوسکتا۔
ہم محمد علی جناح کا نام نہایت مقدس تو مانتے ہیں لیکن جس عمارت میں انہوں نے دہلی سے لاہور تک سفر کی تھکان دُور کی تھی، اسے گرانے پر ہمیں کیوں کوئی فرق نہیں پڑتا؟ ہم یہی حشر فلیٹیز ہوٹل اور اس کمرے کے ساتھ کرنے جا رہے تھے جہاں قائدِاعظم 1920ء کی دہائی میں عدالتی کارروائی کے سلسلے میں لاہور آمد کے موقعے پر ٹھہرے تھے۔ مگر یہ شہر جو کبھی خوبصورت تھا، اس کی پرواہ کرنے والوں نے اس تاریخی ہوٹل کو تباہی سے بچالیا۔
کیا ہم ایک بار پھر اپنے اس ورثے کے اس بیش قیمت ٹکڑے کو بچانے کی کوششیں کرسکتے ہیں جو ہماری ملکیت بھی نہیں ہے؟ بلکہ ہر نئی نسل گزشتہ نسل سے یہ ورثہ ادھار لیتی رہی ہے اور ہمیں یہ سلسلہ جاری رکھنا ہے۔
پسِ نوشت: فلائنگ کلب کے دوسرے سیکریٹری ڈاکٹر اسپراؤل نامی دندان ساز تھے جو 1941ء سے 1948ء تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ کہیں یہ وہی ڈاکٹر تو نہیں جن سے ملاقات کے لیے میرے انکل مجھے اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اور وہاں جاکر میں نے اپنی زندگی کی یادگار اڑان بھری تھی؟
یہ مضمون 6 جون 2021ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں