عالمی رینکنگ میں 10 پاکستانی یونیورسٹیوں کے نام بھی شامل
لاہور: پاکستان کی 10 سرکاری اور نجی شعبے کی یونیورسٹیوں نے معمولی بہتری کے ساتھ کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2022 میں اپنی پوزیشن کو برقرار رکھا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 3 یونیورسٹیاں 355-500 رینک بینڈ میں شامل ہیں، 651-700 میں ایک، 801-1000 میں تین اور 1001 سے اوپر میں کئی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اسلام آباد نے کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ میں پاکستانی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ پوزیشن برقرار رکھی ہے، جو 355 رینک پر ہے۔
مزید پڑھیں: 800 بہترین یونیورسٹیوں میں 6 پاکستانی جامعات شامل
اس کے بعد پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز (پی آئی ای اے ایس) دوسرے نمبر پر ہے اور اس نے 373واں رینک حاصل کیا ہے، جبکہ قائد اعظم یونیورسٹی نے تیسری پوزیشن حاصل کی اور 454 رینک پر ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) 651-700 رینکنگ کے درمیان ہے جبکہ کومسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) لاہور اور پنجاب یونیورسٹی 801-1000 رینکنگ کے درمیان ہیں۔
اس کے علاوہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، جامعہ کراچی اور جامعہ لاہور 1000 سے اوپر رینکنگ میں شامل ہیں۔
کیو ایس کی رینکنگ تعلیمی کارکردگی (40 فیصد)، ملازمین کی کارکردگی (10 فیصد)، طلبہ و فیکلٹی کی شرح (20 فیصد)، انٹرنیشنل فیکلٹی کی شرح (5 فیصد) اور غیر ملکی طلبہ کی شرح (5 فیصد) کو مدنظر رکھ کر ترتیب کی جاتی ہے.
کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ، یونیورسٹی کی درجہ بندی کرتی ہے جسے ہر سال برطانوی کمپنی کواکوریلی سائمنڈز (کیو ایس) کی جانب سے شائع کیا جاتا ہے۔
2022 کے ایڈیشن میں 93 مقامات کی ایک ہزار 673 یونیورسٹیوں کا احاطہ کیا گیا اور آخر کار 1300 کو درجہ دیا گیا۔
پاکستان کے صرف 10 تعلیمی ادارے اس فہرست میں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن (پی ایچ ای سی) صرف کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی کی درجہ بندی کو تسلیم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایشیا کی 100 بہترین جامعات میں پاکستان کی ایک جامعہ بھی شامل
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد نے دعوٰی کیا کہ یونیورسٹی کی کیو ایس ورلڈ رینکنگ میں سال 2022 میں 16 درجے بہتری آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس یونیورسٹی کو دنیا کی 61.6 فیصد یونیورسٹیوں میں شمار کیا گیا ہے اور یہ ایک اہم کامیابی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں تحقیقی اشاعتوں میں ریسرچ کلچر کو فروغ دینے کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے اور یونیورسٹی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار تحقیق کے لیے 38 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے۔
انہوں نے یونیورسٹی کی درجہ بندی کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کرنے پر یونیورسٹی کی رینکنگ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کی تعریف بھی کی۔