چین نامہ: چینی پاکستان کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ (ساتویں قسط)
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
ہم پاکستانی اپنے بچپن سے پاک چین دوستی زندہ باد کا نعرہ لگاتے آ رہے ہیں۔ ہمیں چین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارا بہترین دوست ہے اور ہر موقعے پر ہماری مدد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم چین کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ کچھ بھی نہیں۔ چین کے لوگ کیسے ہیں؟ ان کا رہن سہن کیسا ہے؟ ان کی معاشرتی اقدار کیا ہیں؟ ہمیں کچھ نہیں پتا۔
دوسری طرف چینیوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اگر آپ کسی چینی کو بتائیں کہ آپ کا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ ایک دم پُرجوش ہوکر کہتا ہے، پاتھیے۔ چینی پاک چین بھائی چارے کے لیے چینی لفظ پاتھیے کا استعمال کرتے ہیں۔ کوئی زیادہ بولنے کا شوقین ہو تو یہی بات پورے جملے میں بھی کہہ دیتا ہے۔ کسی کسی نے اسلام آباد کا نام بھی سُن رکھا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ ایک عام چینی پاکستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
ایسے چینی جو حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے ہوں، وہ البتہ پاکستان کے بارے میں ایک عام چینی سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں یونیورسٹی میں ایک ایسے ہی چینی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی تصاویر دیکھ رکھی تھیں۔ کہنے لگا پاکستان تو بہت خوبصورت ملک ہے۔ ہم نے خوش ہوکر کہا کہ بس پھر سفری پابندیاں ختم ہونے کے بعد پاکستان چلو۔ ہمارا گھر تمہارے لیے حاضر ہے، جب تک جی چاہے رُکنا۔ ہم تمہیں پورا شمالی علاقہ دکھائیں گے اور اچھے اچھے کھانے کھلائیں گے۔
اس نے ہمارا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسے پاکستان تصاویر میں بہت اچھا لگا لیکن وہ وہاں کی سیاحت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ہم نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ پاکستان چینی باشندوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ بولتے، اس نے ہمیں پچھلے کچھ سالوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں چینیوں پر ہونے والے حملے گنوانے شروع کردیے۔ قارئین، اس واقعے کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بعض چینی پاکستان کو ان بُرے حوالوں سے بھی جانتے ہیں۔
اگرچہ چینی میڈیا ایسی خبروں میں پاکستان کی طرف سے ہونے والی کوششوں کو بغیر کسی تعصب کے بیان کرتا ہے، پر اپنی جان تو سب ہی کو پیاری ہوتی ہے۔ ایسی خبروں کے علاوہ چینی میڈیا پاکستان کا ذکر پاک چین دوستی کے تناظر میں ہی کرتا ہے۔ ایسی کسی بھی رپورٹ میں پاکستان کی چین کی طرف محبت اور کوششوں کا لازمی ذکر کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر پاک چین سفارتی تعلقات کی 70ویں سالگرہ کے موقعے پر شنہوا نیوز ایجنسی نے اپنے ایک مضمون میں پاکستان کے بارے میں لکھا کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے سب سے پہلے چین کی نئی حیثیت کو قبول کیا اور وہ پہلا اسلامی ملک ہے جس نے چین کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات قائم کیے۔
اس کے علاوہ چین نے اپنی کئی یونیورسٹیوں میں اردو زبان اور پاکستان اسٹڈیز کے شعبہ جات قائم کیے ہوئے ہیں، جہاں داخلہ لینے والے طلبہ کو اردو زبان اور پاکستان کی ثقافت کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے۔ چین میں اردو زبان کا سب سے پہلا شعبہ 1951ء میں چین کی صفِ اول کی درسگاہ پیکنگ یونیورسٹی میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دیگر یونیورسٹیوں میں بھی ایسے شعبہ جات قائم کیے گئے۔ 2 ڈپارٹمنٹ تو ہماری اپنی یونیورسٹی میں موجود ہیں۔
ایک اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ڈپارٹمنٹ آف ایشین اینڈ افریکن لینگویجز کے نام سے ہے جہاں دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی سکھائی جاتی ہے۔ ڈپارٹمنٹ سے پتا چلا کہ آخری بار 2010ء میں کچھ طلبا نے وہاں سے اردو زبان سیکھی تھی، اس کے بعد نہ کسی طالبِ علم نے وہاں داخلہ لیا نہ یونیورسٹی نے کسی کو داخلہ دیا۔ اس سال یونیورسٹی کی طرف سے اس ڈپارٹمنٹ کی بحالی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی یہاں اردو زبان کی کلاسز کا دوبارہ سے آغاز کیا جائے گا۔ دوسرا ڈپارٹمنٹ، سینٹر آف پاکستان اسٹڈیز ہے جہاں پاکستان کی ثقافت، آرٹ اور ادب پر تحقیق کی جا رہی ہے۔
2014ء میں پیکنگ یونیورسٹی اور چین کے اعلیٰ تعلیم پریس کی جانب سے اردو اور چینی ڈکشنری بھی جاری کی گئی تھی جس کی افتتاحی تقریب میں اس وقت کے صدرِ پاکستان ممنون حسین نے بھی شرکت کی تھی۔
گزشتہ ماہ پاکستان میں چینی سفارت خانے اور چین میں پاکستانی سفارت خانے کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں 'چائنا رائٹرز ایسوسی ایشن' اور 'اکادمی ادبیات پاکستان' نے چین پاک ادبی فورم کا بھی انعقاد کیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان ادبی شعبے میں تعاون مضبوط ہونے کی امید کی جارہی ہے۔
اسی طرح چین کی شنہوا نیوز ایجنسی نے اس سال کے آغاز میں انڈپینڈنٹ نیوز پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کرتے ہوئے شنہوا پاکستان سروس کا آغاز کیا ہے جس کے تحت شنہوا کی انگریزی زبان میں شائع ہونے والی خبروں کا اردو میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ بیجینگ میں قائم چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل بھی اردو زبان میں اپنی نشریات جاری کرتا ہے جو پاکستان میں دوستی چینل ایف ایم 98 پر سُنی جاسکتی ہیں۔
محمد کریم احمد ریڈیو پاکستان میں بطور سینئر پروڈیوسر کام کرتے ہیں۔ جناب 2015ء سے 2018ء تک ریڈیو پاکستان کی طرف سے بیجینگ میں قائم چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس میں بطور ماہر امورِ خارجہ تعینات کیے گئے تھے۔ ہم ان دنوں ایک بلاگ ویب سائٹ پر الٹے سیدھے الفاظ لکھا کرتے تھے۔
کریم صاحب سے کسی طرح وی چیٹ پر رابطہ ہوا۔ اگرچہ ہم کبھی مل نہیں سکے لیکن فون پر جتنا بھی رابطہ رہا، بہت اچھا رہا۔ وہ اب بھی ہر ہفتے ہمارا بلاگ نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ اس پر اپنی قیمتی رائے بھی دیتے ہیں۔ چین سے واپسی پر انہوں نے اپنا سفرنامہ 'چین سے چین تک' چھپوایا۔ انہوں نے بتایا کہ چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس میں زیادہ تر چینی باشندے کام کر رہے ہیں اور وہ اردو ویسے ہی لکھتے اور بولتے ہیں جیسے ہم۔
چینی حکومت کی ان تمام کوششوں کے باوجود عوامی سطح پر دونوں قومیں ایک دوسرے سے بہت دُور نظر آتی ہیں۔ ہمارے خیال میں دونوں ممالک کو عوامی سطح پر تعلقات بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ دونوں طرف کے عوام اپنے مشترکہ مفاد کے تحت آپس میں میل جول بڑھا سکیں اور ترقی کرسکیں۔
تبصرے (3) بند ہیں