پردیس سے دیس: گھریلو ملازماؤں کی تلاش اور بچوں کی تعلیم کی ٹینشن (چوتھی قسط)
گزشتہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط، تیسری قسط
اگست کی ابتدائی تاریخوں میں ہم پرانا علاقہ چھوڑ کر نئے علاقے میں شفٹ ہوگئے۔ اگرچہ ہمارے دیے گئے کرائے کے ابھی کم سے کم 10 دن باقی تھے مگر پیسوں کی گنتی کے بجائے اس تکلیف، زحمت اور پریشانی سے رہائی کی طلب تھی جس کی پرانے گھر پر شدید زیادتی تھی۔
مسائل کی وجہ سے ہر وقت کی کوفت اور الجھا مزاج ہمارے دنوں میں زہر گھول رہا تھا۔ اسی مزاج کی تلخی میں ہماری پہلی ملازمہ نوکری چھوڑ کر چلی گئی کہ جب لگاتار 2، 3 دن گھر کی تلاش میں سڑکوں کی خاک چھانتی تھکی ہاری الجھی ہوئی گھر کو لوٹی تو ایک دو بار ملازمہ کو کسی بات پر ٹوک دیا جو اس کے مزاج پر بار خاطر لگا۔
وہ نہ صرف کام سے بھاگ گئی بلکہ 4 باتیں بھی سنا کر گئی جنہیں سن کر میرے چودہ طبق روشن ہوگئے کہ یہ وہ ماسی تھی جس کی بیٹی کو میں اپنے بچوں کے ساتھ گاڑی میں لیے پھرتی تھی کہ چلو چھوٹی سی بچی ہے، گھوم پھر لے گی۔ جو کچھ باہر سے خود کھاتے تھے اسے بھی برابر کھلاتے تھے۔
یہی وہ ملازمہ تھی جس کو رہائش کی بہترین جگہ دینے کی خاطر ہم نے پورشن ڈھونڈتے وقت اچھے سرونٹ کوارٹر کی موجودگی مشروط کی تھی۔ افسوس بھی رہا کہ شاید میں ہی بہتر رویہ نہ دکھا رہی تھی، دکھاتی بھی کیسے میں تو خود زمیں پر قدم جمانے کی خاطر 2 بچوں کے ساتھ دیس نما پردیس میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس موقع پر ہمیں اپنی ملائشین ملازمہ نور یاد آئی جو ابوظہبی میں بغیر ہمارے کہے گھر کا ہر کونہ رگڑ رگڑ کر صاف کرتی تھی اور ایک منٹ کو بھی چائے پانی کے لیے بیٹھتی نہ تھی۔ ہم محض پیار سے بات کرتے تھے اور وہ اسی بات کے بدلے ہمیں دنیا میں سب سے عزیز اور سگا سمجھتی تھی۔
ابوظہبی اور دبئی میں ملازم مہیا کرنے والی باقاعدہ کمپنیاں ہوتی ہیں جو قانونی طور پر اور ہر طرح کے ضوابط پر عمل کرکے دوسرے ممالک سے ملازمین اپنے ملک بلواتی ہیں اور آپ کو مقررہ رقم کے عوض مہیا کرتی ہیں۔ یہ ملازمین عموماً اعلیٰ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور اپنے طے شدہ دورانیے میں کام کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ کوئی کمپنی اس میں کوئی ہیرا پھیری کر نہیں سکتی کیونکہ ہیرا پھیری کا انجام وہاں جیل کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں ملازمہ کی تلاش میں ہمیں پہلے تو بہت مشکل ہوئی اور اسی لیے اپنی ضرورت پوری کرنے کی خاطر ایک ملازمہ مہیا کرنے والی کمپنی سے رابطہ کیا۔ ہمارا خیال تھا کہ یہاں بھی امارات کی طرح ذمہ دارانہ کمپنیاں ہوں گی، مگر بدقسمتی سے ایسا بالکل نہیں تھا۔ اس کمپنی نے ہمیں 6 ماہ کے معاہدے پر خاصے مہنگے داموں ایک ملازمہ مہیا کی۔ ہم نے اس پر اتفاق اس لیے کرلیا کہ چلو 6 ماہ تو پہلے گزر جائیں پھر کچھ اور سوچ لیں گے، مگر حیران کن طور پر 15 ہی دن میں ملازمہ کئی بہانے ڈھونڈ کر چیخ چلا کر معاوضہ لے کر فرار ہوگئی، اور ہم سوچتے ہی رہ گئے کہ آخر ہمارے ساتھ یہ ہوا کیا؟
کچھ دن کی خواری کے بعد پھر ایک اور ملازمہ بھیجی گئی، مگر اس کی زبان اس قدر گاڑھی تھی کہ میں ہم زبان ہونے کے باوجود وہ سمجھنے سے قاصر تھی، اور بار بار ترجمہ کرتے اور اسے اپنی زبان سمجھاتے تھک جاتی۔ اگلے 2 دن وہ خاتون ہماری بولی اور ہم اس کی بولی سے تنگ رہے تو پھر تیسرے دن ایک اور خاتون بھیجی گئی جس نے عین اصول کے مطابق 10 دن بعد نوکری چھوڑنے کا عندیہ دے دیا۔ ان کی خالہ کی وفات پر بقول ان کے انہیں فیصل آباد جانا تھا۔ اب تک ہم اس نظام کو سمجھ چکے تھے کہ یہ سارا کھیل پیسے لوٹنے اور دھوکا دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
اگر کبھی ایسی صورتحال آپ کو بھی پیش آئے تو کم سے کم ہماری بیوقوفیاں مت دہراہیں اور ایسی ملازمہ مہیا کرنے والی کمپنیوں سے پرہیز کریں ورنہ ایسا چونا لگے گا کہ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
یہاں پھر ہم نے وہی روایت دہرائی اور اپنے دیے ہوئے پیسوں کی پائی پائی واپس وصول کرنے کے بجائے گھاٹے اپنی جیبوں میں گھسیڑے، ملازمہ فراہم کرنے والی کمپنی پر 3 حرف بھیجے اور اپنے لیے آس پاس کے گھروں سے ملازمین کی تلاش شروع کی۔ جیسے تیسے کرکے اگلے کچھ ماہ میں ایک ایسی خاتون تلاش کرنے میں کامیاب رہے جو اگرچہ کام جیسا تیسا کرتی تھی مگر بہرحال فل ٹائم گھر پر رہ سکتی تھی۔ بالآخر زندگی کچھ مناسب طریقے سے سنبھلنے اور چلنے لگی۔ تب تک حسب پردیسی عادت صفائیاں خود کیں۔
اسکولوں میں داخلہ
بچوں کا اسکولوں میں داخلہ بھی وہ کام تھا جو ہم نے پاکستان پہنچنے کے ابتدائی دنوں میں کیا تھا۔ چنانچہ پہلے 15 دن کے لگے جھٹکے اس پر بھی اثر انداز ہوئے کہ جو اسکول ہم نے گھر کے قریب چُنا تھا وہ علاقہ بدلنے سے گھر سے خاصا دُور ہوگیا۔ میرا ایک اہم کام صبح بچوں کو اسکول چھوڑنا اور دوپہر میں واپس لانا بن گیا۔ میری زندگی اسی ایک روٹین کے گرد گھومنے لگی جس میں روز کم سے کم 3 گھنٹے خرچ ہوتے۔
میرے پاس ابھی پاکستانی ڈرائیونگ لائسنس نہیں تھا بلکہ اس کی 2 کوششوں میں مجھے پہلے ہی مرحلے پر فیل کردیا گیا تھا۔ ابوظہبی کا لائسنس میرے پاس موجود تھا جو بڑی محنت سے بڑے سال لگا کر کمایا تھا۔ ابوظہبی میں بغیر لائسنس کوئی گاڑی کو ہاتھ لگانے کا سوچنے سے بھی ڈرتا ہے اور پاکستان میں بھی یہی ڈر موجود رہا، اس لیے ہم نے ڈرائیور رکھ لیا۔ آخر تک یہ ہمت نہ ہوئی کہ بغیر لائسنس کے سڑک پر گاڑی لاسکیں۔ چنانچہ ڈرائیور کے ساتھ مجھے صبح شام لازماً بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کرنے جانا تھا۔ اس سے کم کسی صورتحال پر میرا دماغ راضی نہیں تھا۔
بچوں کو اسکول میں داخل کروایا تو ایک اور مشکل سامنے آگئی۔ ابوظہبی کے انٹرنیشنل اسکول میں بچے سب کچھ اسکول سے ہی پڑھ لکھ کر آتے تھے۔ اساتذہ کا یہی کام تھا کہ وہ بچوں کو سب کچھ سمجھا کر یاد کروا کر بھیجیں گے۔ زیادہ سے زیادہ تھوڑا بہت دہرائی کا کام ہوتا تو میں ہفتے کے آخر میں ایک ہی بار بچوں کو کروا دیتی۔
مگر پاکستانی اسکول چاہے جتنا بھی مہنگا یا کلاسی کیوں نہ ہو، استاد کا کام صرف بچے کو یہی بتانا ہے کہ وہ یہاں سے وہاں تک سبق یاد کرکے آئے۔ ساری پڑھائی گھر آکر دوبارہ سے کرنی پڑتی ہے۔ اب اس بات نے میری جھنجھلاہٹ میں شدید اضافہ کیا۔ چونکہ ابوظہبی میں صبح 7 کے گئے بچے 4 بجے گھر آتے تھے تو انہیں بیگز کو ہاتھ تک نہ لگانا پڑتا تھا بلکہ اکثر جیسے لاکر رکھتے ویسے ہی اٹھا کرلے جاتے، کاپیاں کتابیں تک اسکول میں رہتی تھیں۔ اب یہ ہوا کہ سارا دن گزار کر بچہ 4 بجے ہی مگر کورے کاغذ کی طرح گھر کو لوٹ رہا ہے اور بقایا 3 سے 4 گھنٹوں میں اس سے توقع بھی ہے کہ 4 سے 5 مضامین کو پڑھ اور سمجھ بھی لے۔ یعنی پرائمری کلاس کا بچہ گھر آکر آرام نہ کرے، ریلیکس بھی نہ کرے، کھیلے بھی نہیں اور اگر پاس ہونا ہے تو دوبارہ سے پڑھنا شروع کردے۔
اتنے چھوٹے بچوں سے 24 گھنٹے پڑھائی کی ٹینشن میں رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اتنے کم وقت میں بیٹے کو پڑھانا وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر میرے لیے بھی خاصا مشکل تھا۔ پڑھنے کا شیڈول بنایا تو بچوں کے پاس ریلیکس کرنے کا مشکل سے ایک آدھ گھنٹہ ہی نکلتا تھا۔ میں جلنے اور کڑھنے کے سوا کیا کرسکتی تھی کہ یہاں پر ون ٹو آل یہی حال ہے۔ چاہے کوئی بھی اسکول ہو، کتنا ہی مہنگا کتنا ہی بہتر، اساتذہ کہتے بھی ہیں کہ جی ہم تو سمجھا کر بھیجتے ہیں مگر بچے یاد گھر سے کرکے آئیں گے۔ جبکہ باہر کی دنیا میں اسکول ایک پورے پیکج کا نام ہے جو روزانہ 7 گھنٹے تک بچوں کی مکمل تعلیم اور اسپورٹس فزیکل فٹنس کا خیال رکھتا ہے۔ اساتذہ کی ذمہ داری میں صرف بورڈز اور کاپیاں پُر کرنا ہی نہیں بلکہ بچوں کو سمجھا کر یاد کروا کر بھیجنا بھی ہے۔
وہاں اسکول دورانیہ وہ مکمل وقت ہے جو بچوں کی تعلیم کی ضرورت ہے اس دورانیے سے زیادہ پڑھائی کرنے کی نہ بچے سے توقع کی جاتی ہے اور نہ اس کی ضرورت چھوڑی جاتی ہے۔ میری بیٹی فرانسیسی زبان میں طاق ہوگئی تھی، ایک ایسی زبان جس کا اس کی ماں کو ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا۔ میں جونیئر کلاسز میں دہرائی کروانے سے پہلے خود اس سے ہی پڑھتی تھی اور پھر اسے دہرائی کرواتی۔ محنت ساری اساتذہ کی تھی کہ انہوں نے ایک ایسی بچی کو فرانسیسی زبان سکھا دی تھی جس کے گھر ماحول اور زبان کا فرانسیسی زبان سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
ٹیوشن کی ٹینشن
اب جب سب کچھ گھر پڑھانے کا وقت آیا تو باقی تمام مضامین تو میں کروا سکتی تھی مگر ریاضی کا شدید مسئلہ تھا۔ ایک تو حساب جس میں کچھ بنیادی قسم کی جمع تفریق کے علاوہ مجھے کبھی کچھ آیا ہی نہیں، تو کوشش کی کہ کوئی ٹیوٹر رکھ لیا جائے۔ اپنے تئیں ہم خود کو بڑے امیر نواب سمجھتے تھے کہ درہموں میں کماتے ہیں۔ چونکہ پاکستان کے مدارس، اسکولوں اور کالجوں سے جڑی چند ناخوشگوار قسم کی ویڈیوز دیکھ چکے تھے تو خواہش تھی کہ کوئی بچے کو گھر آکر ہمارے سامنے پڑھا جائے۔ اس سلسلے میں ٹیوٹر اور اکیڈمیوں سے رابطہ کیا۔
ایک ٹیوٹر صاحب راضی ہوئے، جو فیس انہوں نے بتائی اسے سُن کر ہمارے اوسان ہی خطا ہوگئے۔ 35 ہزار ایک ماہ کی ٹیوشن فیس بتائی گئی۔ یعنی جتنی فیس ہمیں اسکول کے 7 گھنٹوں کی دینی ہے اتنی ہی فیس ہم ایک گھنٹے گھر کی ٹیوشن کی بھی دیں۔
ماسٹر صاحب سے کہا کہ سر جی ہم ہیروں کے اسمگلر تو ہیں نہیں جو آپ نے چوتھی کے بچے کی ٹیوشن فیس 35 ہزار مانگ لی ہے۔ ہم نے انہیں آفر کی کہ ایک عدد کولمبیا یونیورسٹی کی چھوٹی سی ڈگری ہمارے پاس بے کار پڑی ہے ہمیں دو چار ٹیوشنز اسی ریٹ پر دلوا دیں تاکہ ہمارے بچوں کی بھی ساری فیسیں نکل آئیں۔
غضب خدا کا ایک گریڈ فور کا بچہ اور 35 ہزار ٹیوشن کی فیس۔ ہمیں بعد میں پتا چلا کہ ان صاحب کی اکیڈمی اتنی بھری ہوتی ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ہمیں حیرت بھی ہوئی کہ لوگ روپوں میں کما کر اتنی مہنگی فیسیں دیتے کیسے ہیں۔ ہم درہموں میں کماتے تھے مگر 35 ہزار فیس ہمارے لیے بہت زیادہ تھی۔ یہ ہزاروں بچوں کے والدین کتنا کماتے تھے جو بغیر سوچے سمجھے تھیلے بھر بھر فیسیں دے رہے تھے۔
بہرحال جلد ہی ہمیں اپنی غربت اور اوقات کا یقین ہوگیا اور ہم اپنی کھال میں واپس آگئے اور ٹیوشن کا خیال دماغ سے نکال کر میں نے خود ہی بیٹے کو پڑھانا شروع کیا۔
اسکول کے تعلیمی معیار کی بات کریں تو جو واحد تعلیم وہاں دی جا رہی تھی وہ شاید 'ایلیٹ' (ان معنوں میں جن کو پاکستان میں ایلیٹ سمجھا جاتا ہے) کلاس بننے یا دکھنے کی تربیت تھی۔ مقامی اساتذہ بچوں کے والدین سے اردو بولنا ناپسند کرتے تھے تاکہ وہ یہ تاثر دے سکیں کہ وہ باقی عوام سے بہتر ہیں۔ ہر کوئی یہ فرض کرنے پر مجبور تھا کہ وہ انگریزی بول سکتا ہے اور انگریزی ملبوسات میں پورا انگریز دکھتا ہے۔ اگرچہ مغربی ملبوسات میں بھی بہت کھلے دل سے پہنتی ہوں مگر صرف پاکستان سے باہر۔ پاکستان پہنچتے ہی سارے مغربی ملبوسات کو الماری کے پچھلے خانوں میں ڈال دیا تھا کہ مجھے لگتا تھا اب میں اپنے دیس میں آگئی ہوں اب مجھے غیروں کے لبادوں کی یا ان جیسے دکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ اب میں اپنوں میں تھی جو شاید اپنے دکھنے کو ناپسند کرتے تھے۔
صبح صبح اتنا وقت کیسے ملتا ہے؟
مجھے بچوں کو اسکول سے پک اینڈ ڈراپ کرنے ان کے ساتھ جانا تھا چنانچہ ہاتھ میں جیم زدہ سلائس پکڑے چادر لپیٹ کر نکل لیتی، دوپہر میں گیلے بالوں میں کنگھی پھیر کر بھاگتی کہ راستے میں بال سوکھ جائیں گے، مگر گیٹ پر صبح سویرے 7 بجے استری شدہ بال، میک آپ سے بنی سنوری مائیں دیکھتی تو سوچتی یااللہ ان کے پاس کتنا وقت اور حوصلہ ہے کہ صرف اسکول کے گیٹ تک آنے کے لیے اتنی محنت کرتی ہیں۔ کتنے سال ابوظہبی کے اسکول کے سامنے ہم نائٹ پاجامہ اور ملگجے بالوں میں گوریوں کو بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کرتے دیکھتے رہے تھے کہ اب اس صورتحال کو حیرت سے دیکھتے تھے۔
خود کو بنانے سنوارنے کا شوق یا تو اس شہر میں بہت زیادہ تھا یا میں اپنے سلسلے میں ضرورت سے زیادہ لاپروائی برتتی رہی تھی۔ خالی چہرہ دھو کر یا نہا دھو کر خود کو چاند سمجھنے لگتی تھی اور خوشبو لگا کر حور۔ کپڑے استری شدہ مل جائیں تو کمال ہے ورنہ بغیر استری کے بھی عرصے تک کپڑے پہنتی رہی ہوں کہ کپڑے استری کرنے والی اور گھر کے تمام کام خود اپنے ہاتھ سے کرنے والی فقط میری ہی ذات تھی۔ میں گھر، بچوں میاں اور کچن کے کاموں سے ہی اس قدر تھک جاتی تھی کہ خود ہمیشہ بغیر اعتراض کے ہر جوڑا بغیر استری کے پہن لیتی تھی۔
دراصل باہر رہنے والی خواتین جس طرح اندر باہر کا سب کام اپنے ہاتھوں سے کرنے پر مجبور ہوتی ہیں ان کے لیے سجنا سنورنا اور اس پر غیر ضروری محنت کرنے کا نہ حوصلہ رہتا ہے نہ ہمت۔
تبصرے (12) بند ہیں