پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، ٹھیکیداروں کے سامنے 'بے بس'
اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) بااثر ٹھیکیداروں اور تعمیراتی منصوبوں میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں میں مبینہ طور پر ملوث بیوروکریٹس کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کا اجلاس چیئرمین رانا تنویر حسین کی سربراہی میں ہوا جس میں وزارت پانی و بجلی کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 20-2019 کا جائزہ لیا گیا۔
رپورٹ میں آڈیٹر جنرل پاکستان نے نجی کانٹریکٹرز کو دیے گئے اربوں روپے پر اعتراض اٹھائے تھے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم کے کنسلٹنٹ کو دیے گئے غیر ضروری فائدے سے قومی خزانے کو 5 ارب 40 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا جبکہ 4 ارب 50 کروڑ روپے داسو ڈیم کے ٹھیکیداروں کے کیس میں فنڈز، ایڈوانس موبلائزیشن کی مد میں دیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کے 116 آڈٹ اعتراضات 'پی اے سی' کی منظوری کے بغیر کلیئر
اسی طرح 2 ارب 70 کروڑ روپے دادو کے نئی گج ڈیم کے ٹھیکیدار کی فرضی تصدیق کے لیے، ایک ارب 10 کروڑ روپے کچی کنال منصوبے کی سیکیورٹی کارکردگی اور کیال خوار ہائیڈرو پاور منصوبے کے تصفیے میں غیر ضروری طور پر دیے گئے۔
رانا تنویر حسین آڈٹ کے اعتراضات پر واضح طور پر پریشان نظر آئے کیوں کہ ہر ایک اعتراض اربوں روپے کا تھا۔
دوسری جانب نو تعینات شدہ سیکریٹری آبی وسائل ڈاکٹر شہزاد خان بنگش آڈٹ پیراز سے واقف نہیں تھے اور چونکہ اجلاس میں واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے چیئرمین بھی موجود نہیں تھے جس پر پی اے سی نے آڈٹ رپورٹ کی اسکروٹنی مؤخر کردی۔
رانا تنویر حسین نے اس معاملے سے مناسب طریقے سے نمٹنے میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہر بیوروکریٹ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے پیش رو کو بھی بچانا چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس طرح اربوں روپے نااہل ٹھیکیداروں کو دیے گئے'۔
مزید پڑھیں: وزارت توانائی نے پی اے سی کے ایل این جی معاملے کا از خود نوٹس لینے کا اختیار چیلنج کردیا
آڈٹ آبزرویشن کے مطابق 'کام کے آغاز میں 4 سال سے زائد عرصے کی تاخیر کے باوجود ٹھیکیداروں کو پیشگی ادائیگی/ موبلائزیشن دینا غیر ضروری فائدہ تھا جو مالیاتی بد نظمی کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی وضاحت کی ضرورت ہے'۔
پی اے سی کو بتایا گیا کہ چینی کمپنیوں چائنا گیزوبا اور چائنا ریلویز کو داسو منصوبے کی تعمیر کا ٹھیکا دیا گیا اور اس مد میں کانٹریکٹرز کو 4 ارب 50 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔
چیئرمین کمیٹی نے نشاندہی کی کہ وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، مہمند ڈیم منصوبے میں چائنا گیزوبا کمپنی کے شراکت دار تھے۔
تاہم عبدالرزاق داؤد نے عوامی سطح پر ہونے والی تنقید کے بعد خود کو اس منصوبے سے الگ کرلیا تھا اور اپنی کمپنی کے امور اپنے بیٹے کے حوالے کردیے تھے۔
جس پر پی اے سی کے رکن نور عالم خان نے اصرار کیا کہ چیئرمین کمیٹی مہمند ڈیم منصوبے کی بھی تفصیلات منگوالیں، ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مفادات کے تصادم کی وجہ سے ایک ٹھیکیدار کو وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: اکاؤنٹس کے آڈٹ پر اے جی پی اور انجینئرنگ کونسل کے مابین تنازع
ایک اور رکن حنا ربانی کھر نے ٹھیکیداروں کو موبلائزیشن فنڈز جاری کرنے کو کھلے عام ڈکیتی سے تعبیر کیا جبکہ سید نوید قمر نے منصوبے کے لیے زمین کے حصول سے قبل پیشگی ادائیگیوں پر سوال اٹھائے۔
سیکریٹری آبی وسائل نے وضاحت کی کہ ریونیو آفس نے زمین کا ریکارڈ نہیں رکھا ہوا تھا اس لیے زمین مقامی افراد سے بات چیت کر کے لی گئی۔
آڈیٹرز نے بظاہر کنسلٹنٹ کی غلطی کی وجہ سے 4 ارب 50 کروڑ روپے کے تصفیے پر بھی اعتراض اٹھایا۔
یہ خبر 4 جون 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔