ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے اسٹیٹ بینک کا ایک اور قدم
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹس (آر ای آئی ٹیز) کے یونٹس میں 5 سال کے لیے بینکوں/ڈی ایف آئیز کی سرمایہ کاری پر خطرے کو کم کرتے ہوئے 200 فیصد سے 100 فیصد کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک نے ریئل اسٹیٹ کے شعبے کی ترقی میں مدد دینے کی غرض سے سرمایہ کاری کے اپنے ضوابط میں ترمیم کردی ہے جس کے تحت ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹس (آر ای آئی ٹیز) کے یونٹس میں بینکوں اور ڈی ایف آئیز کی سرمایہ کاری پر خطرے کو نمایاں طور پر کم کرتے ہوئے 200 فیصد سے 100 فیصد کر دیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ بینکوں کی سرمایہ کاری (آر ای آئی ٹیز) کو اب 'تجارتی بک' کے بجائے 'بینکنگ بک' کی کیٹیگری میں رکھا جائے گا لیکن مرکزی بینک نے مزید کہا کہ وہ 'پانچ سال کی مدت کے بعد بینکوں کی آر ای آئی ٹی شعبے کی کارکردگی کی بنیاد پر اس کا جائزہ لے سکتا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق سرمایہ کاری کے ضوابط میں مذکورہ بالا تبدیلی سے بینک اور ڈی ایف آئیز اب اس قابل ہو جائیں گے کہ آر ای آئی ٹیز میں اپنی سرمایہ کاری بڑھا سکیں۔
مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف: ریئل اسٹیٹ ڈیلرز سے جائیداد سے متعلق لین دین کی تفصیلات طلب
بیان میں کہا گیا کہ 'اس طرح بینکوں کو ملک میں ریئل اسٹیٹ کے شعبے کے فروغ میں مدد ملے گی، ضوابط سے متعلق اقدامات کی مدد سے مالی اداروں کی اضافی شرکت کے نتیجے میں آر ای آئی ٹیز کی مینجمنٹ کمپنیوں کو ترغیب ملے گی کہ وہ نئی آر ای آئی ٹیز شروع کریں، جس سے ملک میں ہاؤسنگ اور تعمیراتی شعبوں کی ترقی کے حکومت کے ایجنڈے کو مزید فروغ ملے گا'۔
یہ ایک اچھا قدم ہے، سمیر احمد
نائٹس برج کیپیٹل گروپ کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) سمیر احمد نے ڈان کو بتایا کہ 'یہ ایک اچھا قدم ہے کیونکہ بینکوں کے لیے 'رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری میں خطرہ بہت زیادہ تھا، بینک اب نسبتاً بڑی مقدار میں سرمایہ مختص کیے بغیر ہی آر ای آئی ٹیز میں اپنی سرمایہ کاری بڑھا سکیں گے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'بینکوں کے لیے اس تبدیلی نے آر ای آئی ٹیز کے لیے مالی اعانت کی نئی راہیں کھول دی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ اب آر ای آئی ٹیز بینکوں سے مالی اعانت کا بندوبست کر سکتی ہیں، پہلے انہیں اپنی ایکویٹی پر انحصار کرنا پڑتا تھا'۔
یاد رہے کہ آر ای آئی ٹیز، ایسی کمپنیاں ہیں جو عام لوگوں اور اداروں سے اکٹھی کی گئی رقوم کو ریئل اسٹیٹ میں بطور سرمایہ کاری لگاتی ہیں۔
یہ سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرتی ہیں جس کی وجہ سے ہر شخص کو ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں اسی طرح سرمایہ کاری کرنے کی اجازت ملتی ہے جس طرح وہ ایکوئٹی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
سمیر احمد نے کہا کہ 'آر ای آئی ٹی کے اسٹاک ہولڈر اصل میں باہر نکل کر خریداری کرنے، انتظامات سنبھالنے یا مالی اعانت کیے بغیر حاصل ہونے والی آمدنی کا کچھ حصہ کماتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا ریئل اسٹیٹ ریگولیٹر ادارے کے قیام کا حکم
اس سے قبل اسٹیٹ بینک نے آر ای آئی ٹیز میں بینکوں اور ڈی ایف آئیز کی شرکت اور سرمایہ کاری میں اضافے کی حوصلہ افزائی کے لیے کارپوریٹ اور کمرشل بینکاری کی موجودہ پروڈنشل ریگولیشنز میں کچھ ترامیم کیں جس سے بینکوں اور ڈی ایف آئیز کو اپنی ایکویٹی کے 15 فیصد کے قریب آر ای آئی ٹیز میں سرمایہ کاری کرنے کا موقع ملا جبکہ پہلے یہ حد 10 فیصد تھی۔
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو یہ اجازت بھی دی ہے کہ وہ آر ای آئی ٹی مینجمنٹ کمپنیوں کے جاری کردہ شیئرز، یونٹس، بانڈز، ٹی ایف سیز اور سکوک میں سرمایہ کاری کو اپنے ہاؤسنگ اور تعمیرات کی فنانس کے لازمی اہداف کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری میں شمار کر سکتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ 'اسٹیٹ بینک کے سرمایہ ضوابط سے بینک، ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے ایک ہموار انداز میں چلتی ہوئی سرمایہ منڈی تشکیل دینے میں کردار ادا کر سکیں گے'۔
ٹیکس لگانے کے چیلنجز برقرار
اس پیش رفت کا خیرم قدم کرتے ہوئے عارف حبیب ڈولمین ریئل اسٹیٹ، جو ملک میں واحد لسٹڈ آر ای آئی ٹی کے مالک ہیں، نے بتایا کہ حکومت کے لیے ریئل اسٹیٹ کی دستاویزات اور اس شعبے میں شفافیت لانے کے لیے آر ای آئی ٹیز ایک قابل ذکر آلہ ہیں۔
عارف حبیب سیکیورٹیز کے تجزیہ کار محمد اعجاز نے کراچی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی دونوں نے ملک میں آر ای آئی ٹیز کے قیام کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
مزید پڑھیں: ناجائز پیسے کو جائز کرنے کے لیے ریئل اسٹیٹ کا استعمال جاری ہے، شبر زیدی
انہوں نے کہا کہ 'اب ایف بی آر کی باری ہے کہ وہ ٹیکس لگانے کے چیلنجز کو حل کرکے ایسا ماحول فراہم کرے اور آر ای آئی ٹی سرمایہ کاری کو آسان بنائے۔
اس کی تفصیل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیکس میں بے ضابطگیاں، جیسے منافع آمدن پر 25 فیصد ٹیکس اب بھی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس کو 15 فیصد تک کم کرنا چاہیے کیونکہ آر ای آئی ٹیز اپنے منافع کا 90 فیصد تقسیم کرتے ہیں اور انہیں ملک کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کام کرنے والے بڑے، غیر واضح اور غیر رسمی سرمایہ کاروں سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔