'کھل کر بات کرنے کی آڑ میں جو منہ میں آئے بولنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی'
سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ کھل کر بات کرنے کی آڑ میں جو منہ میں آئے بولنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
سپریم کورٹ میں سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے دوران وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مؤکل نے عدلیہ کے حوالے سے بہت منفی تقریر کی، جس عدلیہ کو برا کہا گیا اب اسی میں واپسی کے لیے کوشش کر رہے ہیں، ممکن ہے اپنے خلاف ریفرنسز کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی پریشان ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کیس: کیا جج کو اس انداز میں گفتگو کرنی چاہیے؟ جسٹس اعجازالاحسن
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تمام ججز ضمیر کے قیدی ہیں اور انصاف فراہم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ججز فیصلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف ضرور کرتے ہیں، عدلیہ نے شوکت عزیز صدیقی کے حقوق کا تحفظ کیا تھا، جواب میں دو ماہ بعد شوکت عزیز صدیقی نے عدلیہ کے ساتھ جو کیا وہ بھی دیکھیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج ہوسکتی ہے؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ماضی میں عدالت عظمیٰ، سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف اپیلیں سنتی رہی ہے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ماضی کے مقدمات میں جوڈیشل کونسل کی حتمی سفارش نہیں آئی تھی، شوکت عزیز صدیقی کے خلاف کونسل کی سفارش پر عمل بھی ہوچکا ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ جج کو صرف ایک انتظامی انکوائری کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: سابق جج شوکت عزیز صدیقی کا اپنے کیس کی جلد سماعت کیلئے چیف جسٹس کو خط
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارا کام آئین میں ترمیم کرنا نہیں اس کی تشریح کرنا ہے، آپ چاہیں تو پارلیمان سے آئین میں ترمیم کروا لیں، ہمارا کام آئین میں گنجائش پیدا کرنا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جج کی برطرفی کی سفارش کوئی اور نہیں سینئر ججز ہی کرتے ہیں، پہلے آئین کی دفعہ 211 کی رکاوٹ عبور کرنی ہوگی۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
پس منظر
خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیقی کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔
بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر ابتدا میں رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات لگائے گئے تھے تاہم فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔
جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے نومبر 2020 کے اختتام پر چیف جسٹس پاکستان کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
بظاہر یہ ان کا تیسرا ایسا خط تھا جو درخواست گزار کی جانب سے کیس کی جلد سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو لکھا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا
اس سے قبل 24 ستمبر کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی کی بطور جج برطرفی کے 11 اکتوبر 2018 کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سابق جج کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل حامد خان سے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے حتمی فیصلہ کا انتظار کریں جو جلد ہی آنے والا ہوگا۔
بعد ازاں 23 اکتوبر کو جسٹس عیسیٰ کیس میں اکثریتی فیصلہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ جاری کیا گیا جبکہ 4 نومبر کو جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹس جاری ہوئے تھے۔
خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی کہ وہ (شوکت عزیز صدیقی) 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔
ساتھ ہی انہوں نے لکھا تھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے‘۔