پی ڈی ایم میں پی پی پی کی واپسی کا معاملہ، 'ایسا موضوع نہیں جس کے لیے وقت نکال سکیں'
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے حوالے سے اجلاس میں بحث کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں، اس لیے غور و خوض نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) سیکریٹریٹ میں پی ڈی ایم اجلاس کے بعد میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان پی پی پی اور اے این پی کے حوالےسے کہا کہ 'ہم نے اس حوالے سے کوئی غور و خوض نہیں کیا، وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں، اس لیے غور و خوض نہیں کیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر بھی ان کے پاس مہلت ہے کہ اگر وہ پی ڈی ایم کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس حوالے سے انتظار ہوگا لیکن یہ ایسا موضوع نہیں کہ پی ڈی ایم مزید اجلاس میں بات کرنے کے لیے وقت نکال سکے۔
سیمینار میں پی پی پی کی شمولیت سےمتعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کے حوالے کردی ہے اور شہباز شریف بحیثیت اپوزیشن لیڈر اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔
ایک سوال پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف نے اجلاس میں اسی مؤقف کا اظہار کیا، جس مؤقف کا اظہار ابھی مولانا فضل الرحمٰن نے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بار بار ایک نان ایشو کو ایشو نہ بنایا جائے اور ہمیں نہ گھسیٹا جائے، ہم نے اس کے بارے میں جو کہنا تھا وہ کہہ دیا ہے۔
'دفاعی و خارجہ صورت حال پر ادارے ان کیمرا بریفنگ دیں'
پی ڈی ایم اجلاس کی کارروائی سے آگاہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج کے اجلاس میں غور کیا گیا کہ خطے کی صورت حال تشویش ناک ہوتی جارہی ہے، ہماری حکومت عوام کی منتخب حکومت نہیں ہے، جس حکومت کو عوام کی تائید حاصل نہ ہو تو وہ کسی بھی چینلج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں کرپشن نہیں ہوتی تو ویکسین سے متعلق معاملات بہتر ہوتے، شہباز شریف
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان اور خطے کی صورت حال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور دفاعی صورت حال ہو یا خارجہ پالیسی ہو، ان کیمرا اجلاس میں متعلقہ ادارے ایوان کو حقائق سے آگاہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے دوحہ معاہدہ اور اس کے بعد ہونے والی پیش رفت، نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات، معاہدے پر ہونے والے ممکنہ اثرات اور یہ افواہیں کہ پاکستان اپنے ایئربیسز امریکی طیاروں کو مہیا کرے گا، اسے پاکستان پر تزویراتی اور سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ افغانستان کی مزاحمتی قوت کے ردعمل سے پاکستان کن مشکلات سے دوچار ہوسکتا ہے، یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو پاکستان کے لیے حساس حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے اور ضروری ہوتو ان کیمرا اعتماد میں لیا جائے۔
'پی ڈی ایم کا صحافی برداری سے اظہار یک جہتی'
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم صحافتی برداری اور میڈیا کارکنوں پر ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور صحافتی برادری کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے اظہار ہمدردی کے لیے پی ڈی ایم کی قیادت متاثرہ صحافی حضرات کے گھر میں بھی جائے گی، جس میں اسد طور اور ابصار عالم کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہیں۔
صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ تجاوزات کے نام پر غریب دکان داروں اور غریب پسے ہوئے طبقے کی تعمیر شدہ جائیدادوں کو تجاوزات کی آڑ میں قبضہ کیا جا رہا ہے اور غریب لوگوں کی روزگار پر چھری چلا کر وہاں اپنے لیے پلازے بنانے کے لیے راہیں ہموار کی جارہی ہیں، جو کسی صورت قابل قبول نہیں اور اس مقصد کے لیے پی ڈی ایم مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوگی اور انہیں کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دے گی۔
'حکومتی انتخابی اصلاحات مسترد'
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پی ڈی ایم نے حکومت کی طرف سے یک طرفہ انتخابی اصلاحات کے آرڈیننس بشمول ووٹنگ مشین کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کو پری پول دھاندلی کا منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔
میڈیا بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ اجلاس نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان میں آئینی طور شفاف اور صاف الیکشن کروانے کا ذمہ دار ہے، فوری طور پر تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلائے اور انتخابی اصلاحات پر قومی اتفاق رائے سے پیکیج تیار کرے اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
'پی ٹی آئی کی کرپشن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ'
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کی کرپشن اور غیر آئینی اقدامات کے خلاف بھرپور قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے قانونی ماہرین کی ٹیم تشکیل دی جارہی ہے، جس کے کنوینر اعظم نذیر تارڈ اور کو کنوینر کامران مرتضیٰ ہوں گے۔
'جلسوں کا اعلان'
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ڈی ایم نے متفقہ طور پر ملک میں بڑے احتجاجی جلسوں اور عوام سے رابطوں کا نظام بھی بنالیا ہے اور 4 جولائی کو سوات، اس کے بعد 29 جولائی کو کراچی مین بہت بڑا جلسہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم 14 اگست کو یوم آزادی منائیں گے تو اسلام آباد میں بہت بڑا عظیم الشان مظاہرہ ہوگا، جس میں پاکستان کی آزادی، کشمیر کی آزادی اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے موضوعات شامل ہوں گے اور اس وقت پاکستان کے عوام کی یک جہتی کا بھرپور اظہار ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ آرہا ہے تو اس حوالے سے پارلیمانی جماعتوں کا ایک سمینار کا فیصلہ کیا ہے جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی میزبانی میں ہو اور حکومت کو مشکل وقت دینے اور بجٹ پر بھرپور یک جہتی قائم کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو ٹاسک دے دیا ہے۔