کووڈ کے 70 فیصد مریضوں میں طویل المعیاد علامات کا خطرہ ہوتا ہے، تحقیق
کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں داخل ہونے والے ہر 10 میں سے 7 افراد کو صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے ہسپتال میں داخل ہونے والے 70 فیصد سے زیادہ مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر بیماری کے اثرات کا سامنا ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ وبا کے آغاز میں کورونا وائرس سے بیمار ہونے پر طویل المعیاد نتائج کو مکمل نظرانداز کیا گیا، مگر اب معلوم ہورہا ہے کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔
اس کے تعین کے لیے محققین نے جنوری 2020 سے مارچ 2021 تک شائع ہونے والی 45 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔
ان تحقیقی رپورٹس میں 10 ہزار کے قریب کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، جن میں سے 83 فیصد ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 72.5 فیصد مریضوں کو 84 میں سے کم از کم کسی ایک علامت کا سامنا ہے۔
ان میں سب سے عام تھکاوٹ تھی جس کا سامنا 40 فیصد مریضوں کو تھا، 36 فیصد کو سانس لینے میں مشکلات، 29 فیصد کو نیند کے مسائل، 25 فیصد کو توجہ مرکوز کرنے، 20 فیصد کو ڈپریشن اور ذہنی بے چینی اور 20 فیصد کو ہی عام تکلیف اور عدم اطمینان جیسی علامات کا سامنا ہوا۔
مریضوں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے دیگر مسائل میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، یادداشت سے محرومی، سینے میں تکلیف اور بخار قابل ذکر تھے۔
تحقیق میں صحتیابی کے کم از کم 60 دن بعد بھی علامات برقرار رہنے کو طویل المعیاد علامات کا تسلسل قرار دیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر مریضوں کو طبی نگہداشت کی ضرورت پڑی اور یہ صحت کے نظام کے لیے ایک بڑا وجھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر 70 فیصد معتدل سے سنگین حد تک کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کو علامات کے تسلسل کا سامنا ہوتا ہے تو یہ بہت بڑا نمبر ہے، درحقیقت یہ چونکا دینے والا ہے کہ کتنی زیادہ علامات کا سامنا مریضوں کو ہوتا ہے جس کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے یہ تحیق اس لیے کی کیونکہ متعدد خبروں اور سائنسی مضامین میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کے بارے میں بات کی گئی، مگر بہت کم میں اس کے بارے میں گہرائی میں جاکر سانسی شواہد اکٹھے کیے گئے کہ یہ علامات کتنے عرصے تک برقرار رہتی ہیں اور کون اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اعدادوشمار شاک کردینے والے ہیں بالخصوص تھکاوٹ اور سانس کے مسائل کا سامنا کرنے والے افرد کی تعداد، یہ بہت تکلیف دہ علامات ہوتی ہیں جبکہ کچھ افراد نے سیڑھیاں چڑھنے میں مشکلات کو بھی رپورٹ کیا۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل اپریل 2021 میں لانگ کووڈ کے حوالے سے واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے بشمول ایسے مریض جن میں بیماری کی شدت معمولی تھی، میں وائرس کی تشخیص کے 6 ماہ بعد موت کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں کووڈ 19 کے 87 ہزار سے زائد مریضوں اور لگ بھگ 50 لاکھ دیگر مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔
طبی جریدے جرنل نیچر میں 22 اپریل کو شائع ہونے والی تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ کی تشخیص کے 6 ماہ بعد موت کا خطرہ موجود ہے، چاہے مریض میں بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو۔
محققین نے بتایا کہ یہ تحقیق لانگ کووڈ پر ہونے والی دیگر تحقیقی رپورٹس سے مختلف ہے کیونکہ اس میں اعصابی یا دیگر پیچیدگیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے کووڈ 19 سے متعلق تمام بیماریوں کی جامع فہرست مرتب کرنے پر کام کیا گیا۔
تحقیق میں ثابت ہوا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد (بیماری کے اولین 30 دن کے بعد) مریضوں میں اگلے 6 ماہ میں موت کا خطرہ عام آبادی کے مقابلے میں لگ بھگ 60 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ صحتیابی کے 6 ماہ بعد کووڈ کو شکست دینے والے ہر ایک ہزار مریضوں میں سے اوسطاً 8 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے ایسے مریض جن کو ہسپتال میں زیرعلاج رہنا پڑا، ان میں ہر ایک ہزار میں سے 29 اضافی اموات کا امکان ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ بیماری کی طویل المعیاد پیچیدگیوں سے ہونے والی اموات ضروری نہیں کہ کووڈ 19 سے ہونے والی ہلاکتوں میں ریکارڈ کی جائیں، کیونکہ اس وقت بیماری کے کچھ دنوں بعد ہونے والی ہلاکتوں کو ہی اموات کا حصہ بنایا جارہا ہے۔
محققین نے امریکا کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جس میں 73 ہزار سے زیادہ افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی مگر انہیں ہسپتال میں زیرعلاج نہیں رہنا پڑا تھا جبکہ اس کا موازنہ لگ بھگ 50 لاکھ افراد سے کیا گیا جن میں کووڈ کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔
بعد ازاں کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار رہنے والے افراد پر طویل المعیاد اثرات کو جاننے کے لیے مزید 13 ہزار سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کا موازنہ لگ بھگ اتنی ہی تعداد کے فلو سے بیمار ہوکر ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد سے کیا گیا۔
یہ سب مریض ہسپتال میں داخلے کے کم از کم 30 دن بعد بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے اور پھر ان کے 6 ماہ کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔
محققین نے تصدیق کی کہ لانگ کووڈ کے نتیجے میں جسمانی اعضا کا لگ بھگ ہر نظام متاثر ہوتا ہے جن میں نظام تنفس کے مسائل بشمول مسلسل کھانسی، سانس لینے میں مشکلات اور خون میں آکسیجن، نروس سسٹم کے مسائل بشمول فالج، سردرد، یادداشت کے مسائل اور چکھنے یا سونگھنے کے مسائل، دماغی صحت کے مسائل بشمول ذہنی بے چینی، ڈپریشن، نیند کے مسائل ، میٹابولزم کے مسائل بشمول ذیابیطس کی تشخیص، موٹاپا اور ہائی کولیسٹرول، دل کے مسائل بشمول ہارٹ فیلیئر، دھڑکن میں بے ترتیبی اور دیگر، نظام ہاضمہ کے مسائل بشمول قبض، ہیضہ اور سینے میں جلن، گردوں کے مسائل، ٹانگوں اور پھیپھڑوں میں بلڈ کلاٹس، جلد پر خارش، بالوں سے محرومی، جوڑوں میں درد مسلز کی کمزوری، خسرہ، تھکاوٹ اور خون کی کمی قابل ذکر ہیں۔
ویسے تو کسی مریض کو بھی ان تمام مسائل کا ایک ساتھ سامنا نہیں ہوا مگر بیشتر میں متعدد مسائل ضرور دریافت ہوئے جس سے صحت اور زندگی کا معیار منفی انداز سے متاثر ہوا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد میں پیچیدگیوں کا خطرہ فلو کے مریضوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے جبکہ موت کا امکان 50 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ کووڈ کی شدت جتنی زیادہ ہوگی ان کو لاحق طبی خطرات کی شدت بھی اتنی زیادہ ہی ہوگی۔