شکار پور میں ڈاکوؤں کی مدد کا الزام، قبیلے کے سربراہ تیغو خان ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
کندھ کوٹ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بدھ کے روز سردار تیغو خان تیغانی کو 7 دن کے ریمانڈ پر پولیس کی تحویل دے دیا ہے۔
خیال رہے کہ 23 مئی کو شکارپور ضلع کے دریائی علاقے خان پور میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ کے ہمراہ پولیس اہلکاروں سمیت تین افراد کے قتل کے بعد پولیس نے ڈاکوؤں کو پناہ دینے اور جرائم پیشہ عناصر کی حمایت پر سردار تیغو خان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ اور پاکستان پینل کوڈ کی شقوں کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
مزید پڑھیں: کچے کے علاقے سے جلد ڈاکوؤں کا صفایا کردیں گے، وزیراعلیٰ سندھ
بعدازاں انہیں کراچی کے علاقے گلستان جوہر کے ایک مکان سے دیگر 6 افراد اور نوکروں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا اور گرفتاری سرکاری سطح پر ریکارڈ پر لانے کے لیے انہیں شکار پور منتقل کردیا گیا۔
تیغو خان بالائی سندھ کے گڑھی تیغو علاقے میں ایک بااثر شخص سمجھے جاتے ہیں اور ڈاکوؤں میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، انہوں نے متعدد یرغمال افراد کو رہا کرانے میں پولیس کی مدد کی تھی اور پچھلے سال پولیس نے انہیں امن ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
انہوں نے پولیس کی تحویل میں دیے جانے سے قبل کندھ کوٹ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، میں اب پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سردار عابد سندھرانی اور وزیر شبیر علی بجارانی کی حمایت نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ پولیس کی مدد کی جس کا مجھے یہ کا بدلہ دیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی وزیرداخلہ کو سندھ کے دورے اور جرائم کے خلاف حکمت عملی بنانے کی ہدایت
یاد رہے کہ تیغو خان نے ایک لوک موسیقار جگر جلال چانڈیو کی باحفاظت رہائی میں اپنا کردار ادا کیا تھا جنہیں 2019 میں اغوا کیا گیا تھا، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس راؤ شفیع اللہ مغویوں کی بازیابی کے لیے کندھ کوٹ کے علاقے میں کیے گئے آپریشن کا حصہ تھے لیکن وہ مارے گئے تھے، ان کے ماتحت بابر اگست 2019 میں ہونے والے پولیس مقابلے میں زخمی ہو گئے تھے۔
15 مئی کو کندھ کوٹ میں چاچھر برادری کے 9 افراد کے قتل کے بعد بالائی سندھ خصوصاً کندھ کوٹ اور شکارپور کے اضلاع میں سندھ پولیس آپریشن میں مصروف ہے، دوسری جانب پولیس حکام ان 8 ڈاکوؤں کو مارنے کے ثبوت پیش نہیں کر سکے جہاں ان کا دعویٰ تھا کہ 15 مئی کی قتل کی واردات کے بعد ان تمام ڈاکوؤں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔
شکارپور پولیس میں تبدیلیاں
دریں اثنا حکومت سندھ نے وزیر اعلیٰ سندھ کے دورہ شکارپور کے بعد ایک مرتبہ پھر لاڑکانہ کے بالائی علاقوں کی حدود میں پولیس میں سینئر سطح پر تبدیلیوں کا فیصلہ کیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ نے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
لاڑکانہ کے ڈی آئی جی پولیس ناصر آفتاب پٹھان کا تبادلہ کرکے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ (ایس اینڈ جی اے ڈی) کو رپورٹ کرنے کو کہا گیا ہے جبکہ شکارپور کے ایس ایس پی عامر سعود مگسی کو ایس ایس پی بینظیر آباد تعینات کیا گیا ہے، ایس ایس پی تنویر تُنیو نے شکارپور میں عامر مگسی کی جگہ لی ہے۔
مزید پڑھیں: سندھ کا بدنام ڈاکو نذرو ناریجو مبینہ مقابلے میں ہلاک
مگسی کو حال ہی میں ایس ایس پی کامران پنجوٹا کی برطرفی کے بعد شکار پور میں تعینات کیا گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے شکارپور کے دورے کے دوران کہا تھا کہ پولیس دریائی علاقے میں ڈاکوؤں کا صفایا کرنے کے لیے کارروائی جاری رکھے گی۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے 15 مئی اور 23 مئی کے دو بڑے واقعات کے پسِ منظر میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔
15 مئی کو عیدالفطر کے تیسرے دن سبزوئی نے جگی رانیوں کی مدد سے زمان چاچڑ گاؤں پر حملہ کیا تھا اور اس حملے میں نو دیہاتیوں کو ہلاک کردیا تھا، جو بظاہر اکتوبر نومبر 2020 میں ایس ایس پی امجد شیخ کی زیر سربراہی کندھ کوٹ اور کشمور ڈسٹرکٹ میں کیے گئے پولیس آپریشن کا انتقال معلوم ہوتا ہے۔
اس کارروائی میں بدنام ڈاکو جیانڈ جگیرانی کی بیوی، بیٹے اور بھتیجے سمیت جگیرانی قبیلے کے چھ افراد کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، حکومت سندھ نے جگیرانی گھرانے کے ایک فرد پر 5 لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کر رکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شکارپور میں پولیس اہلکاروں پر حملے، کراچی سے تیغانی قبیلے کے سردار بیٹوں سمیت گرفتار
ایس ایس پی امجد شیخ نے کندھ کوٹ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے کے بعد سے جگیرانی اور سبزوئی شکارپور ضلع کے گڑھی تیغو بھاگ گئے تھے لیکن ہم کندھ کوٹ میں کچے کے علاقے کا کافی حصہ صاف کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور ہم نے ڈاکوؤں کے ٹھکانے جلا دیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک ایسے مقام پر ہیں جہاں سے ہمیں فائدہ حاصل ہوا ہے کیونکہ ہم نے مواصلات کے ذرائع رسد کی فراہمی روک دی ہے۔
انہوں نے ماضی میں ان علاقوں کو ناقابل رسائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ گڑھی تیغو جانے والے راستے پر پولیس تعینات ہے۔
15 مئی کا واقعہ کندھ کوٹ کے علاقے درانی ماہر تھانہ میں پیش آیا، جیانڈ جگیرانی کا ماننا ہے کہ چاچڑوں نے کندھ کوٹ پولیس کو جگیرانیوں تک پہنچنے کے لیے مدد فراہم کرتے ہوئے اپنے علاقے تک رسائی دی۔
مزید پڑھیں: سندھ میں گورنر راج آرہا ہے نہ آپریشن کرنے جارہے ہیں، وزیر داخلہ
جگیرانیوں نے حکام کی جانب کندھ کوٹ-گھوٹکی پل کی تعمیر کی مخالفت کی ہے جس کی وجہ سے پچھلے سال ان کے خلاف پولیس آپریشن ہوا تھا۔
کندھ کوٹ کو ضلع گھوٹکی سے جوڑنے والے اس پُل پر کام عارضی طور پر معطل کردیا گیا تھا، کندھ کوٹ ایک ضلع ہے جو دریائے سندھ کے مشرق میں واقع ہے اور گھوٹکی دریائے سندھ کے مغرب میں واقع ہے۔