روانڈا کی نسل کشی میں اپنی 'ذمے داری' تسلیم کرتے ہیں، فرانسیسی صدر
فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون نے روانڈا کے دورے کے موقع پر کہا ہے کہ فرانس 1994 میں روانڈا کی نسل کشی میں اپنی 'ذمے داری' کو تسلیم کرتا ہے اور ساتھ ہی اس تنازع میں اپنے ملک کے کردار کے لیے ذاتی حیثیت میں معافی مانگی۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو انہوں نے یہ بیان کیگالی نسل کشی کی یادگار پر ایک منعقدہ تقریر کے دوران دیا، جہاں اجتماعی قتل عام کے دوران ڈھائی لاکھ افراد کو دفن کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: روانڈا میں بدترین نسل کشی کے 25 برس مکمل
اپریل 1994 میں شروع ہونے والی 100 روزہ خونریزی کے دوران ہوٹو ملیشیا کے ذریعے تقریبا 8 لاکھ نسلی توتسی اور اعتدال پسند ہوتس مارے دیے گئے تھے، نسل کشی جولائی 1994 میں اس وقت ختم ہوئی جب موجودہ صدر کاگامے کی زیر سربراہی روانڈن پیٹریاٹک فرنٹ (آر پی ایف) یوگنڈا سے ملک میں داخل ہوئے اور ملک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
میکرون نے کہا کہ فرانس نے ان لوگوں کی بات نہیں مانی جنہوں نے روانڈا میں ہونے والے قتل عام کے بارے میں خبردار کیا تھا اور اس نسل کشی کے دوران غیرجانبدار رویہ رکھا جو شاید قانوناً درست نہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ آج آپ کے ساتھ عاجزی اور احترام کے ساتھ کھڑے ہو کر میں اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کرنے آیا ہوں تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس نسل کشی میں فرانس کا کوئی کردار نہیں تھا۔
میکرون نے کہا کہ فرانس کا فرض ہے کہ وہ سچائی جاننے کے بعد اختیار کی گئی مجرمانہ خاموشی کے دوران اس کی وجہ سے روانڈا کے عوام پر گزرنے والی مشکلات کو تسلیم کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف وہی لوگ جو معاف کر سکتے ہیں جو خوفناک دہشت سے بچ گئے تھے اور معافی بطور تحفہ دینے کی درخواست کی۔
یہ بھی پڑھیں: روانڈا میں تاریخی نسل کشی کا مقدمہ بیس سال بعد
اس موقع پر صدر کاگامے نے فرانسیسی صدر کی تقریر کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کے الفاظ معافی سے کہیں زیادہ قیمتی اور سچائی پر مبنی ہیں۔
گوکہ میکرون نے اپنے پیشرو سے زیادہ عاجزانہ رویہ اختیار کیا لیکن روانڈا میں بہت سے لوگوں کو اس تقریر کے دوران سرکاری معافی کی امید تھی۔
ملک میں نسل کشی سے بچنے والے اہم گروہ ایبوکا نے کہا کہ ہمیں اس تقریر سے مایوسی ہوئی ہے، انہوں نے واضح معافی نہیں مانگی۔
ایسوسی ایشن کے صدر ایگڈے نینکنگا نے کہا کہ میکرون نے معافی دینے کی درخواست نہیں کی بلکہ واقعتاً نسل کشی کی وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ یہ سب کیسے ہوا، انہوں نے کیا نہیں کیا، ان کی ذمہ داریاں کیا تھیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمیں سمجھتے ہیں۔
میکرون کا یہ دورہ مارچ میں ایک فرانسیسی انکوائری پینل کی اس رپورٹ کے اجرا کے بعد ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نوآبادیاتی رویے نے فرانسیسی عہدے داروں کو اندھا کردیا ہے اور حکومت نے اس قتلِ عام کی پیش گوئی نہ کرنے کی سنجیدہ اور بھاری ذمہ داری قبول کی ہے تاہم اس رپورٹ میں فرانس نے ان ہلاکتوں میں براہ راست ملوث ہونے سے انکار کردیا۔
مزید پڑھیں: روانڈا نسلی کشی کے 25 برس بعد 85 ہزار افراد کی باقیات کی تدفین
صدر کاگامے نے کہا کہ روانڈا کے عوام شاید فرانس کے اپنے کردار کو کبھی بھلا نہ سکیں لیکن وہ معاف کر سکتے ہیں۔
میکرون نے اپریل میں سابق صدر فرینکوئس مٹیرینڈ کی روانڈا کے حوالے سے دستاویزات کھولنے پر اتفاق کیا ہے، مٹیرینڈ نسل کشی کے دوران انچارج تھے، اس کے فوراً بعد ہی روانڈا نے اپنی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا کہ فرانس کو معلوم تھا کہ نسل کشی کی تیاری کی جارہی ہے اور اسے فعال کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس نے روانڈا کے اس وقت کے صدر جووینل ہبیریمانا کی حمایت جاری رکھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ فرانسیسی عہدیداروں نے روانڈا کی حکومت کو مسلح کیا، مشورے دیے، تربیت کی، اسلحے سے لیس کیا اور تحفظ فراہم کیا، اس کے بعد فرانس نے کئی سالوں تک اپنے کردار کو چھپانے کی کوشش کی۔
یاد رہے کہ 6 اپریل 1994 کو روانڈ کے اس وقت کے صدر جوینال ہابیاری مانا (ہوتو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے) کولے جانا والا جہاز فائرنگ کے نتیجے میں گر کر تباہ ہوا جس کے نتیجے میں جہاز میں سوار تمام افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ہوتو انتہاپسندوں نے توتسی مخالف گروہ روانڈن پیٹریوٹک فرنٹ (آر پی ایف) پر حملے کا الزام عائد کیا تھا تاہم انہوں نے مسترد کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: روانڈا میں نسل کشی کا سب سے زیادہ مطلوب ملزم فرانس میں گرفتار
7 اپریل 1994 کو ہوتو قبیلے کی جانب سے توتسی افراد کی نسل کشی کا آغاز ہوا جو 100 دن تک جاری رہی اس میں 8 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
4 جولائی کو توتسی قبیلے کی جماعت آر پی ایف کے سپاہیوں نے دارالحکومت کگالی پر قبضہ کرکے 100 دن بعد اس نسل کشی کا خاتمہ کیا تھا۔