• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سرحد پار کی شہہ رگ

شائع August 14, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

ہم تمام پاکستانیوں کوجشنِ آزادی مبارک ہو.

کیسی آزادی اور کس کی آزادی یہ سوال غیر متعلق ہے, اس لئے پوچھنے سے گریز کریں۔

آزادی مبارک کہ اس ریاست کے تین صوبوں میں اک ان دیکھی، انجانی سی جنگ جاری ھے۔ عید کے دن بھی ہمارے مجاہدوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی گنتی اب انگلیوں پہ ممکن نہیں۔ اس کے لیئے بھی کیلکیولیٹر چاہیے۔ ان مجاہدوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تعداد یاد رکھنا تو درکنار، اب ان کے خون سے رنگیں اس ارضِ وطن کے دامن سے خون کے دھبّے دھونے کے لیئے حالیہ سیلاب بھی ناکافی ہے۔

کم سے کم ہمارے شیخ جی کے گھن گرج والے گرجتے برستے ٹاک شوز کا مطلب تو یہی ہے کہ انہوں نے اچھے پڑوسی ہونے کے لئے بزورِ طاقت کشمیر کے جہادیوں کو وانا، وزیرستان میں روکا ہوا ہے ورنہ تو وہ خود بھی اس مقدس لڑائی میں سرحدوں کے اس پار رتبہِ شہادت پانے کے خواہشمند ہیں۔

شیخ جی کروڑوں عوام کو دوبارہ یاد دلانے سے بھی باز نہیں آتے کہ شہادت مسلمان کی معراج ہے، موت اس کی محبوبہ ہے اور جہاد اسکے ماتھے کا جھومر ہے۔

سرحد کے اس پار سے بھی اسی دیوانگی کی خبریں کچھ کم نہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس ریاست کی ساری سرحدیں تو پہلے ہی غیر محفوظ تھیں، اب پنجابی طالبان نے بھی آخر نون لیگ کو پمفلیٹ ڈال دیا کہ اب کے جنگ کا طبل ان کے خلاف بھی بجے گا کہ انکی حکومت جیلوں میں قید کچھ مجاہدین کو ڈیتھ وارنٹ اشو کر چکی ہے۔

ان پھانسیوں سے اب نئی جنگ کا آغاز ہوگا جس میں بقول مجاہدین کے، میاں صاحب کی حکومت بھی بالکل اسی طرح ان کا نشانہ بنے گی، جس طرح پچھلے دور میں اے۔ این۔ پی بنی تھی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں صاحب کی حکومت اس دھمکی کے بعد قومی سلامتی والی کون سی پالیسی تشکیل دیتی ہے۔ اور کچھ ہو نہ ہو وزارتِ داخلہ والے خان صاحب نے یہ تو کہہ ہی دیا ہے کہ انہیں اس پلیسی سازی کی کوئی جلدی نہیں۔

تاریخی اعتبار سے کسی قوم و ریاست کو تشکیل کے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے سنِ بلوغت میں پہنچنے کے لیئے جو زمانے درکار ہوتے ہیں، اس حساب سےتو اس ریاست کو ابھی اپنے پاؤں پہ کھڑا ھونے کی مشق سے گزرنا چاہیے تھا۔

مذہب کی بنیاد پہ تشکیل ہونے والی ریاست کے نظریاتی تجربے سے فقط اک قومِ یہود نے ہی استفادہ کیا مگر ہمارے علماؤں نے تصدیق فرما دی ہے کہ ہمارے مذہبی صحیفوں نے ان کو ہمارا دائمی دشمن قرار دیا ہے۔

چونکہ تمام تر دنیا اسلام مخالف تعصبات سے بھری ہوئی تھی اس لیئے لازم ٹھہرا کہ اس ریاست کے بنتے ہی بقائے ریاست و اسلام کے لیے جہاد فقط ہم پہ ہی فرض ہو۔ جیسا کہ یہ ریاست بیسویں صدی میں تشکیل لیتی تمام قومی ریاستوں کے عین برعکس ایک نظریاتی مذہبی ریاست تھی اس لئے اس کی سرحدیں بھی زمینی کے بجائے نظریاتی ٹھہریں اور زیادہ مقدس قرار پائیں۔

پس زمینی سرحدوں کے محافظوں ہی کو نظریاتی سرحدوں کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ مذہب کی سرحد پر ملا کا پہرہ تو نظریاتی سرحد پر اس سپاہی کا جس کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ یوں عوام کو اس ریاستی تشکیل کے امور سے بالکل ہی بےدخل کردیا کیا۔

ریاست و اسلام کی لیے جہاد کی یہ جنگ کشمیر و کابل کے پہاڑوں سے نیچے اترتی، درگاہوں، امام باڑوں، مسجدوں اور عام انسانوں کے سروں کو نشانہ بناتی اب اسلام آباد کی پہاڑیوں تک یوں پہنچی ہے کہ اب اس شہرِ ناقابلِ تسخیر نے بھی ریڈ الرٹ کا سائرن بجانا شروع کردیا۔ اس لیئے اب سرحدوں پہ فائرنگ کے واقعات پہ گرجتے برستے شیخ جی کے قائدِ محترم بھی روتے ہیں کہ یہ کسی دوسرے کی جنگ ہم پہ مسلط کی گئی ہے۔

شیخ جی کے قائد اس جنگ کی تاریخ نائین الیون سے جوڑتے ہیں تو دوسرے اس سلسلے کو نائین الیون سے پہلے افغان جہاد کی مد میں آئے ہوئے ڈالر سے۔ جب یہ ڈالر بدنامِ زمانہ سی۔آئے۔ اے کو ہماری سرحد پار کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کر گیا تھا۔

مگر تاریخ کے چھپاۓ جانے والے صفحات اس سلسلے کو وہاں سے جوڑتے ہیں جہاں اس نظریاتی و زمینی سرحدوں کی پاسبان سپاہ نے امورِ ریاست میں دخل اندازی کا جواز پیدا کرنے کے لئے مغربی ہمدردیاں لوٹنے پر ساری تواناییاں صرف کیں تاکہ مغرب کی بھرپور حمایت سے پاکستان کے اندر جمہوری روایات کو ختم کر کے اس آمرانہ طرزِ حکومت کی بنیاد ڈاال دی جائے جہاں ہر اٹھنے والے سر کو بزورِ شمشیر قلم کیا جاسکے۔

* ملاحظہ ہوں پاکستانی سپریم کمانڈر کے خیالات جو کہ امریکی قونصلیٹ نے بذریعہِ ٹیلی گرام اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بھیجے

23 دسمبر 1954

ٹاپ سیکریٹ امریکن قونصلیٹ، لاہور

’جنرل ایوب نے بیان کیا کہ انہوں نے پاکستان کے سر کردہ سیاستدانوں سے کہہ دیا ہے کہ انہیں ذہنی طور پہ دل کی گہرایوں سے مغرب کے ساتھ چلنے کا فیصلہ قبول کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج سیاستدانوں کو اپنی گرفت سے نکلنے کی اجازت نہیں دے گی اور پاکستانی عوام کو بھی کنٹرول میں رکھا جائے گا۔ ایوب نے کہا کہ انہیں اندازہ ہے کہ وہ بڑی ذمہ داری لے رھے ہیں مگر فوج کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کا تحفظ کرے۔‘

’کمانڈر انچیف نے کہا ہے کہ سیاستدانوں اور عوام کی جانب سے موجودہ حکوت کو کوئی خطرہ نہیں، اگر حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو فوج فوری طور پہ مارشل لا نافذ کردے گی اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لے گی۔ اگر حالات مزید خراب ھوئے تو فوج پاکستان کے استحکام کے لیئے فوجی حکومت کا اعلان کردے گی۔ پاک فوج سیاستدانوں اور عوام کو پاکستان تباہ کرنے کی اجازت کبھی نہیں دے گی۔‘

(ٹاپ سیکریٹ امریکن قونصلیٹ، لاھور، ٹیلی گرام 13 فروری 1953)

میرے پیارے ہموطنو کو جشنِ آزادی مبارک۔

حوالہ: "Secret Papers": True history is revealed, selected by Qayyum Nizami (secret, confidential, declassified papers of State department USA & Public record office) -- Published by Jahangir Books page # 1


amar sindhu80   امرسندھو ایک لکھاری، ایکٹوسٹ اور کالمنسٹ ہیں اور ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔

امر سندھو

امرسندھو ایک لکھاری، سماجی کارکن اور کالم نگار ہیں۔ ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

Faisal Aug 14, 2013 09:53am
افسوس صد افسوس! ۱۴ اگست کو بھی جب قوم 67 واں جشن آزادی منا رہی ہے موصوفہ خاصی دل گرفتہ اور رنجیدہ ہیںاسی وجہ سے کوسنوں سےبھرپور یہ شاندار کاوش تحریر کر ڈالی
b.m.kutty Aug 14, 2013 04:20pm
I congratulate you Amar Sindhu for the courage you have demonstrated in calling the spade the spade, or rather, calling the killer the killer. I would have loved to comment in Urdu but I am very poor in Urdu. I took every word of what you wrote very seriously. After reading this morning, Zubeida Mustafa's article in DAWN,: Licence to Kill?, I was wondering where we are headed for as a nation (which we never have been!), when, in the evening, I happened to stray into this thought-provoking piece of writing from you. God save us if at all He........ From B.M.Kutty, an 83 years old political worker who spent 62 of those 83 for what?, he is wondering today at Pakistan's 67th birthday being celebrated with all the josh - o - kharosh. With apologies to friends who may disagree. ,
Ali Aug 14, 2013 07:17pm
Faisal saab, waise itnay khush hoonay ki zaroorat bhi nahi hai! agar sub he aap he tarah shatar'murgh ki tarah mo zameen main gaar ke khush rahay to shayed kuch time baad saans ghut jaye ga. kissi na kissi ko haqeeqat bataani hai, and aap log unhi ko burra bolte hain. zara ja kay un say poochein jin ka issi saal koyi na koyi nuqsaan (maali and jaani) howa hai- woh aap ko sahi jawaab, izzat-o-ahtram kay saat dein ge.
Faisal Aug 15, 2013 08:12am
علی صاحب! ہميں تسلیم ہے کہ بد قسمتی سے آپ کا تعلق بھی اسی طبقہ ہائے فکر سے ہے جو مسلسل خود ملامتی کے مرض میں مبتلا ہے اور اپنی رائے اور نقطہءنظر کو مستند سمجھتا ہے اور اسی بناء پر آپ قوم کے اپنےیوم آزادی پر خوشياں منانے سے خاصے نالاں نظر آرہے ہيں اوریہی کیفیت آپ کے اس بے سروپا تبصرے میں بھی عیاں ہے۔
Daud Aug 15, 2013 03:33pm
koi 66 saal ka, pakke ghar say kache ghar main a gia ho. ghar main bijli na ho, paani khatam hoone ko ho, ghar main sub kuch bik chuka ho, toot chukka ho. us ka ik bhai chor ke ja chuka ho. us ke ghar main her roz jhagre hoon, khon kharaaba ho... her koi "khaleefa" ho. theek hai, agar woh is baat pe khush hai kay 66 saal to pore howay, to theek hai. woh bhi khush hai, and us kay bhai bhi happy birthday josh-o-kharoosh se manain.
Faisal Aug 15, 2013 06:23pm
ارے واہ واہ داؤد بھائی!! آپنے تو مجھے کچھ لکھنے سےہی روک دیا کيونکہ اسکی ضرورت ہی نہيں پڑی بس ميرے پچھلے تبصرے کو ہی پڑھ ليجئے گا اور ہاں علی کی جگہ داؤد شامل کرنا ہے یا نہيں ؟ خير چھوڑئيے کیا فرق پڑتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024