قومی اسمبلی میں 3 آرڈیننس پیش کرنے کے خلاف اپوزیشن کا واک آؤٹ
اسلام آباد: قومی اسمبلی میں 8 پرائیویٹ اراکین کی جانب سے پیش کردہ بل کے بعد حزب اختلاف نے 3 صدارتی آرڈیننس پیش کرنے پر اسمبلی سے واک آؤٹ کردیا بعدازاں آرڈیننس کو مزید 120 دن کے لیے بڑھا دیے گئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کی جانب سے پیش کردہ جرنلسٹ کے تحفظ بل پر اپوزیشن اور حکومت کے اراکین کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
مزیدپڑھیں: قومی اسمبلی میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور
اپوزیشن کا دعوی تھا کہ یہ ایک پرانا بل ہے لیکن حکومت اس کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے۔
واک آؤٹ کے فورا بعد ہی حزب اختلاف کے رکن ابرار علی شاہ نے نا مکمل کورم کی نشاندہی کی اور سیشن 20 منٹ کے بعد شروع ہوا۔
اجلاس شام 8 بجکر 15 منٹ تک جاری رہا اور اس وقت اختتام پذیر ہوا جب حزب اختلاف کی ایک اور رکن شاہدہ رحمانی نے نامکمل کورم کی نشاندہی کی۔
بعدازاں ایوان جمعہ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
8 پرائیوٹ ممبروں کے بلوں میں منشیات سے متعلق مادوں کے کنٹرول (ترمیمی) بل 2021، زخمی شخص کیلئے لازمی علاج کا بل 2021، آئین (ترمیمی) بل 2021 (آرٹیکل 37 میں ترمیم)، انتخابات (ترمیمی) بل202 ایل شامل ہیں، اسلام آباد ہیلتھ کیئر ریگولیشن (ترمیمی) بل 2021، مغربی پاکستان خالص خوراک (ترمیمی) بل 2021، آئین (ترمیمی) بل 2021 (آرٹیکل - 140 اے میں ترمیم) اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (ترمیمی) بل 2021 شامل تھے۔
ٰیہ بھی پڑھیں: شاہد خاقان کی اسپیکر قومی اسمبلی کو جوتا مارنے کی دھمکی
سید محمود شاہ، سید آغا رفیع اللہ، کیسو مال کھیل داس، سید جاوید حسنین، ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو، نصرت واحد، کشور زہرہ اور نوید عامر جیوا نے ایوان میں یہ بل پیش کیے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تبادلہ خیال کے لیے بلوں کو متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے حوالے کردیا۔
کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ترمیمی) آرڈیننس 2021، انکم ٹیکس (ترمیمی) آرڈیننس 2021 اور پی اے ایف وار کالج انسٹی ٹیوٹ آرڈیننس 2021 میں مزید 120 دنوں کے لیے توسیع شدہ تین آرڈیننس ہیں۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے ان آرڈیننسز کو پیش کیا۔
اس پر اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا اور اجلاس 20 منٹ کے لیے معطل کردیا گیا۔
جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر واپس آئے اور اجلاس ساڑھے آٹھ بجے تک جاری رہا۔
مزیدپڑھیں: 'غزہ کی صورتحال پر جنرل اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے، جہاں فیصلے ویٹو نہیں ہوسکتے'
وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے ان آرڈیننسز کو منتقل کیا۔ اس پر اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا اور اجلاس 20 منٹ کے لئے معطل کردیا گیا۔
جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر واپس آئے اور اجلاس ساڑھے آٹھ بجے تک جاری رہا۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے نجی ممبروں کے دن حکومتی ایجنڈا لینے کے لیے قواعد کو معطل کرنے کی قرارداد پیش کی۔
حزب اختلاف کے قانون سازوں سید نوید قمر اور شاہدہ اختر علی نے سرکاری معاملات کو آگے بڑھانے کے اقدام پر اعتراض کیا لیکن ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ یہ قراردادیں پیر کے ایجنڈے میں تھیں لیکن انہیں ایوان کو معصوم فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر تبادلہ خیال کرنے کی اجازت دینے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔
جب ڈاکٹر شیریں مزاری نے جرنلسٹس کے تحفظ بل کو پیش کیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے دعوی کیا کہ یہ وہی بل تھا جس کو حکومت نے 2012 میں پیش کیا تھا۔
تاہم ڈاکٹر شیریں مزاری نے زور دیا کہ یہ بل نیا ہے اور انہوں نے خود اس کا مسودہ تیار کیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ نواز (ن) کی قانون ساز رکن مریم اورنگزیب نے کہا کہ ان کی حکومت نے 2016 میں پی پی پی کے بل کو اپ گریڈ کیا تھا اور اس طرح کے تین بلوں کو منظوری کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ سن 2015 میں پیش کردہ بل کو میڈیا ہاؤسز اور تنظیموں نے مسترد کردیا تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے تین سال کی سخت محنت کے بعد ایک نیا بل پیش کیا جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول ہے۔
اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ وہ یہ جاننے کے لیے کہ یہ پرانا تھا یا نیا دونوں بلوں کی جانچ پڑتال کریں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے یونیورسٹی کے قیام کا بل پیش کیا جس سے اسلامی اصول و اقدار کو فروغ ملے گا۔
تاہم وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ بل کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تمام ضروریات کو پورا کیے بغیر بحث کے لیے متعلقہ کمیٹی کے پاس نہیں بھیج سکتا۔