• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں پر وحشیانہ تشدد کیا—فوٹو: اے پی

اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟

صیہونی حملوں میں 7 مئی سے 18 مئی کی سہ پر تک 85 بچوں سمیت 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے تھے۔
شائع May 18, 2021

صیہونی ریاست اسرائیل نے مسلمانوں کے لیے اہم مہینے رمضان المبارک میں مقدس ترین رات ليلۃ القدر کے موقع پر فلسطینیوں پر مظالم اور حملوں کا آغاز کیا۔

اسرائیل فوج نے اس مرتبہ ليلۃ القدر کے موقع پر مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے علاقے شیخ جراح سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالے جانے کے دوران حملے شروع کیے جو دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد ہوگئے۔

اسرائیلی کارروائیوں سے 7 سے 18 مئی کی سہ پہر تک 58 بچوں اور 34 خواتین سمیت 201 افراد جاں بحق ہوچکے تھے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج نے اتنے کم عرصے میں پرتشدد کارروائیاں کرکے اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی زندگیاں ختم کی ہوں۔

اسرائیل گزشتہ 73 برس سے وقتاً بوقتاً فلسطینیوں پر حملے کرتا آ رہا ہے، جس میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور لاکھوں نقل مکانی پر مجبور کیے گئے۔

اگرچہ گزشتہ 73 سال کا مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے تاہم مختلف رپورٹس کے مطابق اسرائیلی قبضے کے بعد فلسطینی سرزمین پر ہونے والے حملوں میں ایک سے ڈھائی لاکھ تک فلسطینی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ (یو این) کے فلسطینی سرزمین پر نظر رکھنے والے خصوصی ادارے (او سی ایچ اے) کے اعداد و شمار کے مطابق صرف آخری 20 سال میں ہی اسرائیلی حملوں میں 10 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے۔

اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ادارے فلسطینی سرزمین ہر ہونے والی دہشت گردی کو اسرائیل - فلسطین تنازعے کے طور پر رپورٹ کرتے ہیں، جس پر پوری مسلم دنیا سمیت دنیا کے 135 سے زائد ممالک کو اعتراض رہتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2020 کے اختتام تک اسرائیلی حملوں سے 5 ہزار 590 فلسطینی جاں بحق جب کہ فلسطینیوں کی جوابی کارروائیوں سے محض 251 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر تعداد اسرائیلی فوجیوں کی تھی۔

اقوام متحدہ اپنی رپورٹس میں متعدد مرتبہ تسلیم کرچکا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کی تعداد جوابی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود عالمی ادارے نے کبھی بھی اسرائیلی جارحیت کو دہشت گردی یا حملے قرار نہیں دیا۔

اقوام متحدہ کو چھوڑ کر اگر یہودیوں کی جانب سے بنائی گئی ورچوئل لائبریری کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کے ہلاک ہونے کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

یہودیوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 1948 سے 2014 تک اسرائیلی حملوں میں 91 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جب کہ اسی عرصے کے دوران 24 ہزار اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔

ووکس میڈیا کی 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینی سرزمین پر ہونے والے حملوں میں ہونے والی ہر 24 اموات میں سے 23 اموات فلسطینیوں کی ہوتی ہیں جب کہ وہاں ہونے والے ہر طرح کے دہشت گردانہ حملوں میں اسرائیلیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کے امکانات 15 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔

اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2000 سے 2014 تک فلسطینیوں پر کیے جانے والے حملوں میں 7 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جب کہ ان حملوں کے رد عمل میں کیے جانے والی کارروائیوں میں 1100 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کیے جانے کے ابتدائی دو سال میں ہی صیہونی فوج نے 70 قتل عام کے واقعات میں 15 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔

رونگٹے کھڑے کردینے والی مذکورہ رپورٹ کے مطابق صیہونی ریاست کو بنائے جانے کے وقت میں اسرائیلی مظالم کے دوران فسلطینیوں کی 10 فیصد مرد آبادی کو قتل کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے باضابطہ قیام سے بھی 6 ماہ قبل اسرائیلی فوج نے برطانوی و مغربی ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے 220 گاؤں پر حملے کرکے وہاں سے ساڑھے 4 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو نکال دیا اور صیہونی ریاست بننے سے قبل ہی متعدد قتل عام کے واقعات میں معصوم فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت دیگر افراد کو قتل کردیا گیا جب کہ 9 اپریل 1948 کو 110 فلسطینی افراد کو ذبح بھی کیا گیا۔

الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوری بعد ساڑھے 7 لاکھ فلسطینیوں کو اپنی آبائی سرزمین چھوڑ کر قریبی ممالک مصر، اردن، عراق، لبنان اور شام جانے پر مجبور کیا گیا جب کہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب فلسطینی اس وقت بنائی گئی اسرائیلی ریاست میں رہ گئے، جن کے ساتھ آج تک مظالم جاری ہیں۔

اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد 3 لاکھ کے قریب فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر گھروں سے محروم ہوگئے اور ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔

مذکورہ 2017 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غرب ارد (مغربی پٹی) میں 30 لاکھ کے قریب فلسطینی افراد گھروں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ان کے گھر صیہونی ریاست کی جانب سے مسمار کرکے وہاں 100 سے زائد یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔

غزہ کی پٹی میں بھی 20 لاکھ کے قریب فلسطینی صیہونیوں کے ظلم و جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ اس وقت اسرائیلی ریاست میں 18 لاکھ کے قریب فلسطینی اقلیتی برادری کے طور پر سخت قوانین کے تحت انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

تین سال قبل 2017 تک 75 لاکھ سے زائد فلسطینی افراد دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے تھے، جن میں سے زیادہ تر فلسطینی اقوام متحدہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں بنائے گئے 50 ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔

گزشتہ 73 برس میں اسرائیلی فوج نے 10 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انہیں سزائیں دیں جب کہ حملوں میں ایک لاکھ سے زائد گھروں کو مسمار کیا اور بدقسمتی سے 7 دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کی سرحد کے قریب کوئی فلسطینی بستی تعمیر نہیں ہوئی جب کہ درجنوں یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔

اسرائیل کا قیام کیسے ہوا؟

مئی 1948 میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا—فوٹو: منسٹری آف فورین افیئر اسرائیل ویب سائٹ
مئی 1948 میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا—فوٹو: منسٹری آف فورین افیئر اسرائیل ویب سائٹ

اگرچہ اسرائیل کے وجود کو 73 برس ہی گزرے ہیں لیکن اسے فلسطینی سرزمین پر بنائے جانے کی کوششیں 200 سال پرانی ہیں اور یہودیوں کو صیہونی ریاست بنانے کی پہلی پیش کش فرانسیسی ڈکٹیٹر نیپولین بونا پارٹ نے 1799 میں کی تھی۔

اس کے بعد 1882 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی قائم کی گئی اور گزرتے سالوں میں فلسطینی سرزمین پر دنیا کے مختلف ممالک اور کونوں سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا جانے لگا اور اس عمل میں جنگ عظیم اول کے بعد تیزی دیکھی گئی۔

جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک اور خطوں پر کنٹرول حاصل کیا اور فلسطین انگریزوں کے حصے میں آیا۔

برطانوی کابینہ کے یہودی ارکان نے 1915 میں تجویز پیش کی کہ فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کا ملک بنایا جائے، جس کے بعد امریکا اور برطانیہ میں صیہونی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں تیز ہوئیں اور 1922 میں اس وقت کے عالمی ادارے لیگ آف نیشن نے بھی فلسطینی سرزمین پر صیہونی ریاست کی منظوری دی۔

جنگ عظیم دوئم کے آغاز میں ہی برطانوی حکومت نے یورپ کے مختلف ممالک سے یہودیوں کو فلسطینی سرزمین پر منتقل کرنا شروع کیا، جس کے خلاف فلسطینیوں نے اس وقت بھی مظاہرے کیے لیکن ان مظاہروں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

برطانوی حکومت نے 1936 میں فلسطینی سرزمین کو تقسیم کرنے کے لیے پیل کمیشن کا قیام کیا، جس نے تاریخی طور پر عربوں کی سرزمین پر صیہونی ریاست کو قائم کرنے کی تجویز دی، جس کے بعد دنیا بھر کے یہودی اپنی پہلی ریاست کے قیام کے لیے متحرک ہوگئے اور انہیں امریکا سمیت اس وقت کی دیگر بڑی ریاستوں کی حمایت حاصل رہی۔

اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے چند سال بعد ہی 1947 کو ایک قرار داد پاس کی، جس میں فلسطینی سرزمین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔

اقوام متحدہ نے 23 ستمبر 1947 کو ریزولیشن 181 کے تحت فلسطین کو یہودیوں اور عرب قوم میں تقسیم کرکے ’بیت المقدس‘ کو ایک الگ اور خودمختار حیثیت دے دی، جس کے بعد فلسطینی سرزمین پر برطانیہ اور دیگر ممالک کے تعاون سے یہودیوں نے خونریزی شروع کردی۔

صیہونیوں کی جانب سے ریاست کے قیام سے قبل ہی شروع کی گئی دہشت گردی کے چند ماہ بعد 15 مئی 1948 کو اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ اور سوویت یونین کی حمایت سے آزاد اسرائیل ریاست کا قیام عمل میں آیا۔

اسرائیل کے قیام کا اعلان داوید بن گوریون نے کیا، جنہیں بانی اسرائیل اور صیہونی ریاست کے پہلے وزیر اعظم کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

خود اسرائیلی حکومتی ویب سائٹس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کا عمل مختلف ممالک اور اداروں کے تعاون کے بعد 1948 میں عمل میں آیا۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ، اس وقت کے سوویت یونین اور حالیہ روس سمیت دیگر بڑے ممالک نے صیہونی ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تو وہ کس طرح اب صیہونیوں کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیں گے؟