گزرتا وقت آپ سے جتنا دُور ہوتا جاتا ہے، آپ کے تصور میں اس سے متعلق اتنی ہی پُراسراریت کی جڑیں اُگتی جاتی ہیں۔ چونکہ وہ زمانہ جو گزرا وہ ہماری زندگی کا حصہ رہا اس لیے سحر کی وہ جڑیں ہمیں ہر وقت اپنی طرف بلاتی رہتی ہیں۔ یہ عجیب سی کشش کی ڈوری ہوتی ہے جو ماضی اور حال کو آپس میں انتہائی مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
یہ 1810ء کے گرم اپریل کا تپتا دن ہے۔ ایک قافلہ جس کے ہمراہ 2 اونٹ اور 5 لوگ ہیں، بلوچستان کے ریگزاروں سے مغرب شمال کی طرف بڑھ رہا ہے کہ اس طویل سفر کی آخری منزل شیراز ہے۔
اس فاقلے کو جانا تو ایران ہے مگر راستے میں یہ قافلہ جہاں ٹھہرتا ہے وہاں پوچھنے والوں کو کوئی بھی نئی کہانی بتا دیتا ہے کہ اسے کہاں جانا ہے۔ یہ قافلہ گھوڑوں کے بیوپاریوں کے روپ میں 2 جنوری کو بمبئی بندرگاہ سے ایک دیسی کشتی پر سوار ہوکر نکلا تھا۔ یہ سارے لوگ کمپنی بہادر کے افسران ہیں، جنہوں نے جاسوسی کے لیے یہ بھیس بدلا ہے اور کمپنی بہادر کے ایک اہم انتہائی مشن پر روانہ ہوئے ہیں۔ گوری سرکار کے لیے یہ سفر اور اس سفر کے بعد جو سروے ہوگا وہ انتہائی اہم ہوگا کہ کمپنی بہادر کا جھنڈا ہر جگہ، ہر مقام پر ایسے ہی نہیں جھولتا تھا۔
ہندوستان اور روس کے وسطی ایشیا پر برطانیہ کا بڑھتا قبضہ عالمی منظرنامے کو روز بروز تبدیل کر رہا تھا۔ کمپنی نے 1757ء میں بنگال کو فتح کیا۔ 1783ء تک اودھ، بِہار، اُڑیسہ،، بنارس، مدراس اور بمبئی میں اپنا جھنڈا لہرایا۔ 1791ء کے آتے آتے گوری سرکار روس کے قبضے سے خائف ہونے لگی۔ 1797ء میں احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ زماں نے سرحد صوبے کے کچھ حصوں پر قبضہ کرکے اپنی حکومت کو وسعت دینی چاہی۔ 1798ء میں برطانیہ نے سیلون، مالابار اور دیگر علاقوں کو شامل کرکے اپنی سلطنت کو وسعت بخشی۔ 1809ء برطانیہ کے لیے فرانس کا نپولین خطرے کی گھنٹی بن گیا، جس نے برِصغیر میں پرشیا، میسور اور دیگر جگہوں پر مسلمان حکمرانوں سے تعلقات قائم کیے اور پرشیا کی وساطت سے سندھ کے حکمرانوں سے بھی سفارتی تعلقات استوار کیے۔ اسی زمانے میں نپولین کے مصر پر حملے نے یورپی طاقتوں کے روس اور ہندوستان سے دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کے عمل کو تیز کردیا کہ جتنا اور جو مل جائے وہ اچھا۔
1801ء میں 'ماؤنٹ اسٹوارٹ ایلفونسٹون' (Mountstuart Elphonstone) کے دورہ افغانستان، 1808ء اور 1810ء میں 'ہینری پوٹنجر' (Henry Pottinger) کے سندھ اور بلوچستان سے ایران تک کے سفر نے برطانیہ کو ان علاقوں کے معروضی حالات، لوگوں کی نفسیات، ثقافت، فصلوں و آبپاشی سے متعلق معلومات کے ذخیرے مہیا کیے جس کی بنیاد پر کمپنی بہادر کو ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے روڈ میپ تیار کرنے میں انتہائی آسانی ہوئی۔
ہینری پوٹنجر کے اس سفر میں ہم بھی اس کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ آج سے 200 برس ان قدیم راستوں پر اس نے کن کن مشکلات، ماحولیاتی اور موسمی حالات میں سفر کیا۔ اس کی مقامی لوگوں سے متعلق کیا رائے ہے یا لوگ اس بہروپیے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ وہ کمپنی بہادر کا ایک ذمہ دار افسر تھا مگر اس سفر میں اس نے ایک بیوپاری کا روپ اختیار کیے رکھا۔ ایک ایسا بیوپاری جو کبھی کچھ نہ خریدتا ہے اور نہ بیچتا ہے۔ ہاں البتہ قبضہ ضرور کرتا ہے کہ برطانیہ کے سرمائے داروں کا یہی تو بیوپار تھا، جس میں وہ آنکھیں بند کرکے پیسے لگاتے تھے کہ برٹش سرکار ان کے پیسے ڈوبنے سے بچانے کی ذمہ داری اپنے سر لیتی تھی۔ اب ایک سرمائے دار کو اس سے زیادہ اور کچھ چاہیے بھی نہیں۔
یہ سفر جو ٹھنڈے موسم میں 2 جنوری 1810ء کو بمبئی کی بندرگاہ سے شروع ہوا تھا، اس میں پوٹنجر، بمبئی دیسی پیدل فوج کے انگریز کیپٹن چارلس کرسٹی کے ماتحت تھا۔ کشتی کا یہ سفر سمندر کے کنارے کنارے بلوچستان کی بندرگاہ 'سون میانی' تک تھا۔ یہ گجرات سے ہوتے ہوئے سندھ کے سمندری کنارے سے گزرے۔ پوٹنجر لکھتا ہے 'ہم سندھ کے سمندری کنارے سے گزر رہے تھے تو ہم نے پانی کی وہ بڑی لہریں دیکھیں جو دریائے سندھ کے پانی کے سمندر میں داخل ہونے سے پیدا ہو رہی تھیں‘۔ یہ 15 جنوری کا ذکر ہے۔
ان دنوں پہاڑوں پر برف گر رہی ہوتی ہے اور یقیناً یہ میلٹنگ سیزن نہیں ہوتا مگر پھر بھی دریائے سندھ کا پانی اتنی مقدار میں سمندر میں گر رہا تھا اور ان وقتوں میں دریائے سندھ کا پانی انڈس کوسٹ میں دریائی بہاؤ کے 11 مختلف راستوں سے سمندر میں گرتا تھا۔ شاید اس موسم میں بہاؤ کے دیگر راستوں میں اتنا زیادہ پانی نہ ہو اور مرکزی بہاؤ میں ہی پانی ہو، یہ ممکنات کے دائرے میں آتا ہے۔ پھر بھی ایک تصوراتی آنکھ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گزری صدیوں میں انڈس ڈیلٹا اور دریائے سندھ کے کیا شاندار دن رہے ہوں گے۔ وہ سمندر کنارے سے ہوتے کراچی کے قریب سے گزرے اور آگے 'سون میانی' خلیج میں داخل ہوئے۔
اسی شام وہ قافلہ پورالی ندی بلوچستان کے سمندری اختتامی مہانے پر پہنچا۔ سون میانی کی بستی وہاں سے 2 میل شمال مشرق میں تھی اور وہ رات کو وہاں پہنچے۔ اگلے روز 16 جنوری، منگل کا دن تھا اور عیدالاضحیٰ تھی۔ مگر وہاں آباد ماہی گیر بستی کے لوگوں سے زیادہ غربت کا بسیرہ تھا۔
پوٹنجر لکھتے ہیں کہ 'یہاں کے لوگ بہت غریب ہیں اس لیے عید کے حوالے سے کوئی چہل پہل نظر نہیں آئی اور نہ ہی کوئی قربانی کی گئی۔ یہاں کے لوگوں کی خوراک اور ذریعہ معاش مچھلی ہے‘۔
ایک دو دن وہ سون میانی کے قریب واقع گاؤں میں رہے۔ اپنے بال منڈوائے اور دیسی بلوچی لباس پہنا جس کی وجہ سے ان کا حلیہ بالکل تبدیل ہوگیا۔ اسی گاؤں میں ان کو ایک افغانی بیوپاری ملا، اس کو جب پتا چلا کہ یہ بیوپاری ہیں اور قلات جانا چاہتے ہیں تو ان کو صلاح دی کہ وہ بلوچستان کے راستے سے وہاں نہ جائیں کیونکہ راستہ پُرخطر ہے، راستے میں جو قبائل ہیں وہ لوٹ مار کرتے ہیں، اور قتل کرنا ان کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں، اس لیے بہتر ہے کہ سندھ سے قلات کی طرف جائیں، وہ خود بھی سندھ کے راستے قلات جا رہا ہے۔ جاتے جاتے افغانی نے کہا کہ مجھے امید تو نہیں ہے مگر آپ زندہ قلات پہنچ گئے تو وہاں ملاقات ضرور ہوگی۔
22 جنوری کو وہ 'بیلہ' (لس بیلو سندھ اور فارس کے بیچ میں مکران کا قدیم تجارتی راستہ رہا ہے۔ سکندرِ اعظم 325 قبل مسیح میں یہاں سے فارس کی طرف گیا تھا جبکہ محمد بن قاسم نے اسی راستہ سے سندھ پر حملہ کیا تھا) پہنچے۔ یہاں کے قرب و جوار میں ان کو گنے کے کھیت نظر آئے جن سے مقامی لوگ گڑ بنا رہے تھے۔
اگلے دن لسبیلہ کے حاکم جاموں (لسبیلہ کے حاکموں کو 'جام' کے لقب سے پکارا جاتا ہے) نے ان کو بلایا اور ان سے اچھے طریقے سے ملے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں تو سرداروں کو بتایا کہ وہ ہندوستانی بیوپاری 'سندر جی' کے ملازم ہیں، اور ہندوستان میں بیچنے کے لیے یہاں سے گھوڑے خریدنے آئے ہیں اور قلات تک پہنچنے کے لیے آپ کی مدد کے طلبگار ہیں۔ یہ بات چیت فارسی اور سندھی زبان میں ہوئی۔ لسبیلہ کے سرداروں نے ان کی اخلاقی مدد کی۔
اس کے بعد وہ 'خضدار' پہنچے۔ یہ پہاڑوں کے بیچ میں بسا ہوا ایک چھوٹا سا شہر تھا جہاں 500 سے زیادہ گھر نہیں تھے۔ اس شہر میں ان کو ایک قندھار کا سوداگر ملا، جس نے یہاں اور قرب و جوار بستیوں سے 500 بھیڑیں خریدی تھیں۔ پوٹنجر لکھتا ہے کہ 'خضدار سے قندھار کم سے کم 500 میل دُور ہے اور یہ بیوپاری اتنی دُور ان 500 بھیڑوں کو لے جائے گا۔ ہم خضدار سے 50 میل کا فاصلہ طے کرکے 'سریاب' پہنچے، سردی اتنی زیادہ تھی کہ ہمارے مشکیزوں میں رکھا پانی برف ہوگیا تھا۔ وہاں ایک گاؤں میں ایک مینگل نے ہمیں الاؤ جلا کر دیا تب ہماری جان میں جان آئی۔ اس کے بعد اس شریف انسان نے اپنے گھر کے افراد کو دوسرے گھر میں منتقل کیا اور ہمیں اپنا گھر رات رہنے کے لیےدیا‘۔
9 فروری کو یہ قافلہ 'قلات' پہنچا، جہاں ان کا سہولت کار 'شالومل' (جس کی قلات میں اپنی دکان تھی اور جو سندرجی کا آدمی تھا) موجود تھا، چنانچہ ان کو یہاں قلات میں زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ قلات میں ان کو بہت سارے افغانی بیوپاری نظر آئے۔ انہوں نے یہاں قلاتی سوداگروں جیسا نیا لباس سلوا کر پہنا جس سے ان کے حلیے میں بڑی تبدیلی آئی۔ 10 فروری کو ان کو قلات کے 'خان' کے بھائی میر مصطفیٰ خان کے داروغے کا پیغام ملا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیے۔ پوٹنجر قلات کے قلعے کے 3 دروازوں کا ذکر کرتا ہے۔ 1: خانی، 2: قندھاری، 3: بیلائی۔
وہ لکھتا ہے کہ 'ان مرکزی دروازوں پر ہر وقت پہریدار موجود ہوتے ہیں۔ البتہ قلعے کی حالت خستہ ہو رہی ہے۔ قلعے کے اندر ڈھائی ہزار سے زیادہ گھر ہوں گے۔ البتہ قلات کا بازار وسیع ہے جس میں ہر قسم کا سامان موجود رہتا ہے، جیسے گوشت، سبزی، میوہ جات اور روزمرہ کی اشیا ضروریات بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔ شہر کو پانی ایک شیریں چشمے سے ملتا ہے جو وادی کے بیچ میں سے بہتا ہے اور ان کے اطراف میں باغ باغیچے بھی ہیں‘۔
20 فروری کو قلات میں ہی پوٹنجر کو ایک ایران کا مولوی ملا جو کرمان سے بھن پور اور کیچ کے راستے سے یہاں پہنچا تھا۔ اس نے ان کو بتایا کہ قلات سے 70 میل شمال مغرب میں 'نوشکی' نامی مقام واقع ہے، جہاں آکر سارے راستے ملتے ہیں۔
مارچ کے آغاز میں یہ قافلہ قلات سے نکلا۔ سردی بہت زیادہ تھی 'گھڑک' سے آگے کچھ میلوں کے سفر کے بعد 8 مارچ کو انہوں نے قلات کا مشکل درہ پار کیا۔ اس درے پر پہنچنے پر پوٹنجر اپنی کیفیت کچھ اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ '8 مارچ کو ہم جب اس درے کو پار کرنے کے لیے اونچائی پر پہنچے تو ہم سارے ریگستان کا نظارہ کرسکتے تھے۔ اس ریگستان سے متعلق ہمیں جو شکوک تھے وہ ختم ہوگئے۔ ہم نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی کہ ہم جس کام کے لیے نکلے ہیں وہ اپنی کامیابی کی طرف بڑھ رہا ہے'۔
ایک دن کے بعد یہ قافلہ نوشکی پہنچا۔ یہاں سے کیپٹن کرسٹی اس قافلے سے الگ ہوا اور پوٹنجر 25 مارچ کو نوشکی سے نکلا۔ راستے میں اسے کچھ زردشتوں کے مقبروں کے نشان نظر آئے۔ راستے میں ندی اور برساتی نالے ملے، جن کو پار کرتے ہوئے یہ سراوان پہنچے جہاں کا سردار گل محمد خان قمبرانی تھا۔ اس کے بعد سخت ریگستان پار کرکے ایک خشک ندی بودور پہنچے۔ اس کے بہاؤ میں گھنا جنگل تھا، اسے وہاں بھیڑیے، گیدڑ اور دیگر جانوروں کی موجودگی کا پتا چلا۔ اسی ندی کے کنارے اس قافلے نے رات گزاری۔
اپریل کے ابتدائی دن تھے اور گرمیوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'گرمی کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ مقامی لوگ اسی موسم کے ابتدا میں چلنے والی ہوا کو 'جلوت' یا جلو یعنی شعلہ یا 'باد سموم' یعنی بیمار کردینے والی ہوا کہتے ہیں، جو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ ہم 4 اپریل کو 50 میل کے قریب پیدل چل کر مکران کی پہاڑیوں میں گھری ہوئی ایک خوبصورت وادی 'کلوگن' پہنچے۔ یہاں پر میں نے خود کو 'پیرزادہ' کہہ کر تعارف کروایا‘۔
12 اپریل کو جب یہ قافلہ آسمان آباد چھوڑ کر ہفتور پہنچا تو وہاں کے ایک بلوچ نے ان سے سوال کیا کہ وہ کون ہے اور کہاں جا رہا ہے؟ تو پوٹنجر نے بڑے اعتماد سے جھوٹ بولتے ہوئے جواب دیا میں پیرزادہ ہوں اور مشہد کے مقدس شہر جانے کا ارادہ ہے۔
پوٹنجر جب 18 اپریل کو شام کے وقت 'ہفتور' سے 16 میل جنوب مغرب میں بھنپور پہنچا تو اسے وہاں کا سردار شاہ محراب خان ملا۔ پوٹنجر نے بڑی حرفت سے اس سے حال احوال دریافت کیے۔ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ بلوچوں اور ایرانیوں کے آپس میں تعلقات کس نوعیت کے ہیں کیونکہ اس کی اگلی منزل 'باسمان' کے بعد 'نرماشیر' (نرمنشیر) تھی۔
اس نے سردار سے پوچھا کہ 'کیا آپ کا کرمان کی سرکار سے بیوپاری اور لین دین کے تعلقات ہیں؟'
سردار نے ہنس کر کہا کہ 'نہیں، نہیں، 2 برس سے ہماری ان سے کوئی لین دین نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ہونے کا کوئی امکان بھی ہے‘۔
شاہ محراب نے اسے یہ بھی بتایا کہ کابل اور ایران کے راستوں سے انہیں اپنے ملکوں میں داخل نہ ہونے کے احکامات ہیں کیونکہ 3 ماہ پہلے اس نے دوسرے سرداروں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ فوج تشکیل دی اور 'لارستان' (ایران کا جنوبی صوبہ) پر حملہ کرکے برباد کردیا اور 3 ماہ وہ صوبہ ان کے کنٹرول میں رہا۔ یہ باتیں شاہ محراب نے بڑے غرور سے بیان کیں۔ اسے یہ سب بتاتے ہوئے اچھا لگا تھا۔
پوٹنجر 18 اپریل کو بھنپور سے نکلا اور 50 میل شمال مغرب میں سفر کرکے 'باسمان' پہنچا۔ وہاں اس نے پہاڑی سلسلے میں ابلتے ہوئے گندرف کے چشمے دیکھے۔ باسمان بلوچستان کی آخری پکی بستی تھی۔ 21 اپریل کو وہ نرمنشیر کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں اسے ایک چرواہا ملا، جس کو اس نے سید حاجی کہہ کر اپنا تعارف کروایا اور اسے کہا کہ اگر وہ اس کے قافلے کو 'ریگن' جو نرمنشیر کا پہلا شہر ہے وہاں تک پہنچنے اور راستہ دکھانے میں مدد کرے گا تو وہ اسے انعام دے گا۔ اس طرح اس چرواہے کی مدد سے وہ طویل مسافت کے بعد 22 اپریل کو 'ریگن' پہنچا جہاں شہر قلعہ بند تھا۔ جب قلعہ کے حاکم عباس علی خان نے ان سے پوچھا تو اس نے خود کو ہندو بیوپاری کا ملازم ظاہر کیا اور کہا کہ وہ بیوپار کے سلسلے میں قلات سے کرمان جا رہا ہے۔ کچھ دن وہاں آرام کرنے کے بعد ان کا قافلہ 28 اپریل کو ریگن سے صبح سویرے روانہ ہوا اور طویل سفر کرکے 'لور آباد' سے ہوتا ہوا 'بم' شہر پہنچا۔
پوٹنجر جیسے ہی ریگن سے نکلتا ہے تو پیش منظر تبدیل ہونے کی بات کرتا ہے۔ اسے نہریں، درخت اور فصلیں نظر آتی ہیں۔ اس نے بم (یہ ایران کے صوبہ کرمان کا کھجوروں کے حوالے سے مشہور شہر ہے۔ کچی اینٹوں سے بنے دنیا کے سب سے بڑے قلعے کا اعزاز بھی بم کے قلعے کو حاصل ہے، اس کی تاریخ قبل مسیح زمانے سے ملتی ہے، تجارتی راستے ہونے کی وجہ سے ریشمی اور سوتی کپڑوں کا مرکز رہا، یہ قلعہ اب عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے) کے حاکم لطف علی خان سے جب ملاقات کی تو اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھا کہ 'میری پوشاک کی حالت انتہائی خستہ ہوچکی تھی، میں نے ایک موٹا بلوچوں والا جبہ پہنا ہوا تھا، شلوار جو کسی وقت میں سفید رنگ کی تھی، 6 ہفتوں کے بعد بینگنی رنگ کی ہوگئی تھی، میرے سر پر کالے رنگ کی پگڑی بندھی ہوئی تھی اور کمربند کے لیے ایک سوتی کپڑے کی رسی کمر پر بندھی ہوئی تھی، میرے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جو پیدل چلنے میں مدد کے ساتھ کتوں کو بھگانے میں بھی خوب مدد کرتی تھی‘۔
پوٹنجر ایرانیوں کے رویوں کی تعریف کرتا ہے، یہاں اس نے لطف علی کے دربار میں کہا کہ وہ تہران میں انگریزی سفیر جنرل مالکوم سے ملنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وہ نرماشیر علاقے کی ذرخیزی کی بہت تعریف کرتا ہے اور پانی کے فراوانی کا بھی ذکر کرتا ہے۔ وہ 2 مئی کو 'ماہون' سے گزرا جو 'کرمان' سے 24 میل مشرق جنوب میں واقع ہے اور 3 مئی کو وہ کرمان پہنچا۔ وہ متعدد صفحات پر کرمان کی تاریخ قلمبند کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ 'اس شہر کی بنیاد کس نے رکھی اس بات کا تو علم نہیں، البتہ اس پر جب عرب حملہ آور ہوئے تھے تب یہ بہت بڑا شہر تھا۔ عربوں کے حملے کی وجہ سے شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا اور زردشت کے ماننے والے بکھر گئے۔ مکران کی فتح کے وقت کرمان بہت بڑا شہر تھا، یہاں کی بنی شالیں اور ہتھیار بہت مشہور تھے۔ شہر کے قلعے کی حالت خستہ ہے، قلعے کے اندر آٹھ نو کے قریب کارواں سرائے ہیں۔ اس سے باہر بھی رہنے کے لیے رہائش مل جاتی ہے۔ اس شہر کی آبادی 30 ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ یہاں کا بازار خوبصورت ہے اور ہر چیز دستیاب ہے‘۔
پوٹنجر نے بڑے دنوں بعد کرمان کے بازار میں گندم کی روٹی دیکھی اور دکان سے خرید کر کھائی۔ پوٹنجر گندم کی روٹی کی مہک، خستگی اور لذت کا ذکر اس انداز اور گہرائی سے کرتا ہے کہ پڑھنے والے کو بھی روٹی کی مہک، خستگی اور لذت محسوس ہونے لگتی ہے۔ کرمان میں پہلی رات کی نیند اور خوراک سے متعلق اس نے اپنی بات کچھ یوں قلمبند کی کہ 'رات کے کھانے کے لیے میں نے بازار سے انتہائی لذیذ بنا ہوا پلاؤ منگوایا اور کھایا، پلاؤ کی لذت میرے منہ میں گھلتی تھی، اس کے بعد میں سوگیا۔ گزشتہ 3 ماہ میں، میں نے ایسی پُرسکون نیند نہیں کی تھی‘۔
اگلے دن 4 مئی کو قاصد کے ہاتھوں برگیڈیئر جنرل مالکوم، جو شیراز میں تھے، کو تحریری پیغام بھیجا کہ وہ کرمان سلامتی اور خیریت سے پہنچ گئے ہیں اور دو تین ہفتوں میں شیراز پہنچ جائیں گے۔ اس پیغام کے 21 دنوں بعد اس قافلے نے کرمان سے وداعی لی اور شیراز کے لیے نکل پڑا۔
اس کے راستے میں، 'مینن'، 'بابق'، 'روبات'، 'کرد' نامی چھوٹی چھوٹی آبادیاں آئیں۔ ان آبادیوں کے بعد جیسے جیسے وہ شیراز کے قریب ہوتا گیا، علاقے سرسبز ہوتے گئے، ان علاقوں میں اسے جابجا دھان کے کھیت نظر آئے۔ بہتی ندیاں تھیں اور درخت تھے، یہ مناظر اسے ویرانوں اور بے رنگ لینڈاسکیپ کے بعد بہت اچھے لگے۔ آگے بڑھتے ہوئے اس فاقلے نے 'بند امیر' (اس بند پر یہ نام 'بند امیر' اس وجہ سے پڑا کہ عباسی خاندان کے 25ویں خلیفہ القادر کے وقت، 365ھ میں 'امیر آزاد دولہ' نے اس کولبر ندی پر یہ پشتہ تعمیر کروایا تھا کہ پانی دوسرے بہاؤ میں جائے اور میر دشت کے علاقے تک پہنچے جہاں پرسیپولس کے قدیم شہر کے آثار ہیں، اور وہاں سے وہ پانی نہروں کے راستے سارے ملک میں پہنچایا جاتا تھا) کے قریب بنے پل کو پار کیا اور 25 میل کے سفر کے بعد وہ شیراز پہنچے۔ وہ 5 جون 1810ء کی گرم شام تھی۔
وہ شیراز کی خوبصورتی کا تذکرہ کرتا ہے، اگرچہ شیرازی کا مقبرہ اس کو بالکل بھی پسند نہیں آتا البتہ وہ اس کی شاعری کو پسند کرتا ہے۔ تکنیکی طور پر یہ سفر پوٹنجر کے اس نوٹ کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے کہ، 'سون میانی سے یہاں (شیراز) تک میں 1500 میل (2414 کلومیٹر) سے زائد کا سفر کرکے پہنچا ہوں۔ ان میں سے 1300 میل سیدھے مشرق سے مغرب کی طرف تھے۔ بلوچستان اور ایران کے ابتدائی علاقے انتہائی بنجر اور ویران ہیں۔ یہاں کی زمین کے مختلف رنگ اور کیفیتیں ہیں۔ 1809ء کے آواخر تک، یورپی لوگ بلوچستان کے فقط سمندری کناروں سے واقفیت رکھتے تھے، انہیں ایک طویل سفر طے کرکے یہاں جنوبی اور مغربی کناروں پر پہنچنا پڑتا تھا۔ مگر میرے اس سفر کے بعد وہ اس راستے سے انجان نہیں رہیں گے۔ قلات سے بھنپور تک میرا راستہ انتہائی شمال کی طرف تھا، میں نے یہاں سے متعلق انتہائی اہم معلومات حاصل کی ہے اور اب یہاں آسانی سے کام کیا جاسکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ بلوچستان اور ایران کا یہ سفرنامہ پڑھنے والوں کو ضرور دلچسپ لگا ہوگا‘۔
پوٹنجر، شیراز سے اصفہان گیا جہاں اس کی ملاقات کیپٹن کرسٹی سے ہوئی۔ پھر یہ دونوں اکھٹے کاشان پہنچے۔ پھر کمپنی کی ہدایات کے مطابق وہ 20 ستمبر بغداد پہنچا اور آخرکار 13 ماہ کے بعد 6 فروری 1811ء کو بمبئی پہنچ گیا۔
دوسری طرف نومبر 1812ء میں روس کے ایک فوجی جتھے نے ایرانی چھاؤنی پر حملہ کیا جس میں کیپٹن کرسٹی مارا گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے جہاں جہاں پنجے گاڑے، وہاں قبضے سے پہلے ان علاقوں کے تمام عناصر کو ہر زاویے سے جاننے اور سمجھنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر کام کیا۔ ہم یہاں اس بحث کے لیے بالکل بھی نہیں بیٹھے کہ ایسا ہونا چاہیے تھا یا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جو بھی تھا وہ ہوچکا ہے۔ کمپنی بہادر نے جو ہمارے علاقوں کے اس طرح سروے کیے، جو احوال اور سفرنامے لکھے وہ اب ہماری تاریخ کی بنیادی اثاث ہے۔ ہم ان سفرناموں اور ان کی تحریر کردہ کتابوں کی پگڈنڈیوں پر چل کر اپنے گزرے زمانوں کو دیکھ پاتے ہیں، جن سے ہمارا اٹوٹ رشتہ ہے کہ ہم ماضی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
حوالہ جات:
۔ 'تاریخ بلوچستان'۔ رائے بہادر ہتورام۔ 2016ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
۔ Travels in Balochistan and Sinde- Henry Pottinger-1816, London
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
تبصرے (11) بند ہیں