آر ایس ایف کا غزہ میں میڈیا دفاتر پر اسرائیلی حملے کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی چیف پراسیکیوٹر فاٹو بینسودا سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں میڈیا کے 20 سے زیادہ دفاتر پر اسرائیلی بمباری کو غزہ اور مغربی کنارے کے حالات کی تفتیش میں شامل کرکے جنگی جرم کی وضاحت کریں۔
آر ایس ایف کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق آر ایس ایف کے سیکریٹری جنرل کرسٹوف ڈیلوئیر نے کہا کہ 'جان بوجھ کر میڈیا کے دفاتر کو نشانہ بنانا جنگی جرم ہے'۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کی غزہ پربمباری جاری، اے پی، الجزیرہ سمیت میڈیا کے دفاتر بھی تباہ
انہوں نے کہا کہ 'اسرائیلی فورسز جان بوجھ کر میڈیا کے اداروں کو تباہ کرکے نہ صرف نیوز آپریشنز سے متعلق آلات کو ناقابل قبول نقصان پہنچایا بلکہ تنازع کی میڈیا میں رکاؤٹیں پیدا کر رہی ہیں جس سے عام آبادی پر براہ راست اثرات پڑتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی پراسیکیوٹر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تعین کریں کہ کیا یہ فضائی کارروائیاں جنگی جرائم ہیں'۔
آر ایس ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے میڈیا کے دفاتر پر پہلا حملہ 12 مئی کو کیا گیا جب غزہ سٹی میں 10 منزالہ الجواہرا ٹاور کو تباہ کردیا گیا جہاں فلسطین ڈیلی نیوز اخبار اور ٹی وی چینل العرابی سمیت میڈی کے 14 دفاتر تھے۔
اسرائیل نے اگلے روز غزہ سٹی میں الشروک ٹاور کو تباہ کیا جو 14 منزلہ عمارت تھی جہاں الاقصیٰ اور ٹی وی سمیت میڈیا کے 7 اداروں کے دفاتر قائم تھے۔
واضح رہے کہ 15 مئی کو اسرائیل نے غزہ میں کثیرالمنزلہ عمارت کو نشانہ بنایا تھا جہاں الجزیرہ اور امریکی خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سمیت دیگر بین الاقوامی میڈیا کے دفاتر بھی تباہ ہوگئے تھے۔
غیرملکی خبرایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق الجلا ٹاور کے مالک نے میڈیا کو اسرائیلی حملے کے حوالے سے پہلے ہی خبردار کردیا تھا اور عمارت کو خالی کردیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کی اس کارروائی کو دنیا بھر کے صحافیوں نے جنگی جرم قرار دیا تھا۔
اے پی کے صدر اور سی ای او گیری پروٹ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ 'یہ ناقابل یقین حد تک دہلا دینے والی پیش رفت ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: 'صحافیوں کو نشانہ بنانا جنگی جرم ہے'، غزہ میں میڈیا دفاتر کی تباہی پر ردعمل
انہوں نے کہا تھا کہ 'ہم جانی نقصان سے بال بال بچےہیں، اے پی کے درجنوں صحافی اور فری لانس عمارت کے اندر موجود تھے اور شکر ہے ہم وقت پر ان کو وہاں سے باہر نکال پائے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'آج جو کچھ ہوا ہے اس کی وجہ سے دنیا کو غزہ میں ہونے والے واقعات کا کم علم ہوگا'۔
الجزیرہ کی پروڈیوسر لینہ الصافین نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ اسرائیل نے 'ایک دھمکی' دی تھی کہ وہ 'الجزیرہ کے دفاتر اور غزہ سٹی میں قائم بین الاقوامی میڈیا کے دیگر چینلوں کے دفاتر پر مشتمل عمارت پر ایک گھنٹے میں بمباری کریں گے، ہمارے ساتھی پہلے ہی وہاں سے نکل گئے تھے'۔
تباہ شدہ عمارت میں مڈل ایسٹ آئی کا بھی دفتر تھا، جس نے ایک ویڈیو میں رپورٹ کیا کہ عمارت کے مالک اسرائیلی فوج کے ایک افسر سے ٹی وی پر لائیو بات کر رہےتھے اور وہ بلڈنگ پر بم مارنے سے قبل صحافیوں کو اپنا سامان عمارت سے باہر نکالنے کی اجازت دینے کے لیے بات کر رہے تھے۔