• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

کورونا ویکسین سے متعلق پوچھے جانے والے اکثر سوالات کے جواب

بچپن اور بلوغت میں ہونے والے انفیکشن سے بچانے کیلئے استعمال ہونے والی ویکسین مردوں یا خواتین کی تولیدی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
شائع May 17, 2021 اپ ڈیٹ May 22, 2021

ملک میں 30 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کو کورونا وائرس کی ویکسین لگانے کے لیے رجسٹریشن اتوار (16 مئی) سے شروع ہوجائے گی۔ پاکستان میں اب تک کورونا وائرس کی 5 ویکسینز کی منظوری دی جاچکی ہے۔ ان میں سائنو فارم، کین سائنو، سائنو ویک، اسپٹنک اور ایسٹرا زینکا شامل ہیں۔

حکومتی سطح پر عوام کو ویکسین لگانے کے عمل میں تیزی آرہی ہے۔ اس دوران ڈان ڈاٹ کام نے میڈیکل مائکرو بائیولاجی اینڈ انفیکشس ڈیزیز سوسائٹی آف پاکستان کی صدر اور آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ جمیل سے رابطہ کرکے ان سے کورونا ویکسین سے متعلق کچھ سوالات کیے۔

ڈاکٹر بشریٰ کورونا وائرس کے حوالے سے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر سے رضاکارنہ طور پر وابستہ ہیں اور آپ نے وزارتِ صحت کی جانب سے کورونا ویکسین کے حوالے سے اختیار کیے جانے والے رہنما اصول بھی وضع کیے ہیں۔

اکثر پوچھے جانے والے سوالات

سوال: کیا کورونا ویکسین جسم میں اینٹی باڈیز بنانے کی صلاحیت کو کم کردیتی ہے یا مدافعتی نظام پر اثر کرتی ہے؟

جواب: نہیں، کورونا کی ویکسین جسم میں اینٹی باڈیز بنانے کی صلاحیت کو کم نہیں کرتی اور نہ ہی مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہے۔


سوال: کیا ذیابطیس، بلند فشار خون اور گٹھیا کے مریضوں کے لیے کورونا کی ویکسین محفوظ ہے؟

جواب: ذیابطیس، بلند فشار خون اور دل کی بیماریوں کا شکار افراد کو ویکسین لگوانی چاہیے۔ ان بیماریوں کے شکار افراد کو نسبتاً زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور انہیں ویکسین ضرور لگوانی چاہیے۔


سوال: کیا ڈائلیسس کروانے والے، انسولین لگانے والے یا جن لوگوں کو پیس میکر لگا ہوا ہو یا جنہوں نے اعضا کی پیوند کاری کروائی ہوئی ہو، انہیں ویکسین لگوانی چاہیے؟

جواب: انسولین لگوانے والے افراد، ڈائلیسس کروانے والے افراد اور وہ جن کے اعضا کی پیوند کاری ہوچکی ہے انہیں فوری ویکسین لگوانی چاہیے۔ ڈائلیسس کروانے والے افراد اور جن کے اعضا کی پیوندکاری ہوچکی ہو ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے اور جیسے جیسے ویکسین کے حوالے سے مزید معلومات آرہی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ ان افراد کے ویکسینیشن کے شیڈول میں تبدیلی کی جائے۔ لیکن فی الحال موجودہ طریقے پر ہی عمل کرنا چاہیے۔


سوال: کیا ہیپاٹائٹس، ٹی بی اور ایچ آئی وی میں مبتلا افراد کو ویکسین لگوانی چاہیے؟

جواب: ٹی بی، ایچ آئی وی اور طویل عرصے سے ہیپاٹائٹس کا شکار افراد کو بھی ویکسین لگوانی چاہیے۔ ایسے افراد کو اپنی صحت کے بارے میں اپنے معالج سے تفصیلی گفتگو کرنی چاہیے۔


سوال: میں ایک شادی شدہ مرد/ عورت ہوں اور صاحبِ اولاد ہونے کی خواہش رکھتا/ رکھتی ہوں۔ کیا کورونا کی ویکسین میری تولیدی صحت پر اثر انداز ہوگی؟

جواب: دیگر ویکسینز کی طرح کورونا وائرس کی ویکسین بھی تولیدی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ بچپن اور بلوغت میں ہونے والے انفیکشنز سے بچانے کے لیے استعمال ہونے والی کوئی بھی ویکسین مردوں یا خواتین کی تولیدی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔

ویکسین انسانی سیل اور ٹشو کے بجائے بیکٹیریا اور وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرتی ہیں۔ سائنسی طور پر کسی ویکسین کے ذریعے بانجھ پن پیدا کرنا ناممکن ہے۔


سوال: کیا حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کے لیے کورونا کی ویکسین محفوظ ہیں؟

جواب: دودھ پلانی والی ماؤں کے لیے تمام ویکسینز محفوظ ہیں۔ اور حاملہ خوتین کے لیے بھی تقریباً تمام ہی ویکسین محفوظ ہیں۔ تاہم جیسے جیسے مزید معلومات دستیاب ہوں گی ویسے ویسے کچھ ویکسینز کے لیے رسک اور فوائد کو مدِنظر رکھتے ہوئے تجاویز دی جائیں گی۔


سوال: کیا کچھ ایسے افراد بھی ہیں جنہیں ویکسین نہیں لگوانی چاہیے؟

جواب: بہت زیادہ بیمار افراد، اسپتال میں داخل مریضوں اور کورونا سے بہت زیادہ متاثرہ افراد کو ویکسین نہیں لگانی چاہیے۔

اس کے علاوہ جن افراد کو ویکسین پریزرویٹیو/ اسٹیبلائزر سے سخت الرجی کا سامنا ہوتا ہو انہیں بھی ویکسین نہیں لگوانی چاہیے۔ ایسی صورت میں ویکسین کی رہنما تجاویز کو دیکھنا چاہیے۔


سوال: بچوں کو ویکسین کیوں نہیں لگائی جارہی؟

جواب: اس وقت اس حوالے سے مناسب ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ عموماً کسی بھی کلینیکل ٹرائل میں بچوں کو سب سے آخر میں شامل کیا جاتا ہے۔

تاہم کچھ ابتدائی ڈیٹا ضرور موجود ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کورونا کی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ ہیں۔ ہمیں اس ضمن میں مزید معلومات اور تجاویز کی ضرورت ہے۔


سوال: 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو کورونا کی ویکیسن کیوں لگائی جارہی ہے؟ کیا یہ ان کے مدافعتی نظام کے لیے کچھ زیادہ سخت ثابت نہیں ہوگی؟

جواب: اس وبا سے سب سے زیادہ خطرہ 60 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کو ہے۔ اس وجہ سے ان افراد کو ترجیحاً ویکسین لگائی جارہی ہے۔


سوال: میں اور میری اہلیہ ویکسین لگوا رہے ہیں لیکن میرے والدین جن کی عمر 60 سال سے زائد ہے وہ اسے لگانے سے انکار کررہے ہیں۔ انہیں ٹائپ 2 ذیابطیس بھی ہے۔ میرے گھر پر چھوٹے بچے بھی ہیں۔ میں کیا کروں؟

جواب: اپنے والدین کو وبا کے پھیلنے اور 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو کورونا ہونے کی صورت میں شدید بیماری اور جان جانے کے خطرے کے بارے میں آگاہ کریں اور انہیں ویکسین لگوانے کے لیے قائل کریں۔


سوال: مجھے اسپٹنک/ فائزر کی ویکسین لگ چکی ہے۔ کیا میں اضافی تحفظ کے لیے چینی ویکسین بھی لگواؤں؟

جواب: اگر کسی کو ایک ویکسین کی مکمل خوارک لگ چکی ہے تو اسے کوئی اور ویکسین لگوانے کی تجویز نہیں دی جاتی۔


سوال: 50 سال سے زائد عمر کے کسی ایسے شخص کو بھی ویکسین لگوانی چاہیے جو وائرس سے صحت یاب ہوچکا ہو؟

جواب: کورونا کے بعد صحت مند ہونے والے افراد کو بھی ویکسین لگوانے کی تجویز دی جاتی ہے۔ کورونا سے صحت یاب ہونے کے بعد ویکسین کے ذریعے مدافعت کو بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔


سوال: کورونا سے صحت یاب ہونے کے کتنے عرصے بعد ویکسین لگوانی چاہیے؟

جواب: وائرس سے مکمل صحت یاب ہونے کے بعد جلد ہی ویکسین لگوا لینی چاہیے۔


سوال: اینٹی باڈیز بننے میں کتنا وقت لگتا ہے اور ویکسین سے حاصل ہونے والا تحفظ کتنے عرصے برقرار رہتا ہے؟ کیا مجھے مستقبل میں ایک اضافی خوراک کی بھی ضرورت ہوگی؟

جواب: ویکسین کی دوسری خوراک لگنے کے بعد اینٹی باڈیز بننے کے عمل میں 3 ہفتے لگ سکتے ہیں۔ تاہم مدافعتی نظام بہت پیچیدہ چیز ہے۔ جسم میں تحفظ فراہم کرنے والے دیگر میکینزم بھی موجود ہوتے ہیں۔

اس وجہ سے ویکسین لگوانے کے بعد اینٹی باڈیز کی جانچ کرنے کو تجویز نہیں کیا جاتا۔ مدافعت 6 سے 7 ماہ میں کم ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اضافی خوراک کی ضرورت پڑے لیکن فی الحال اس حوالے سے کوئی تجویز موجود نہیں ہے۔


سوال: ایسٹرا زینیکا ویکسین کو پاکستان میں منظوری کیوں دی گئی ہے؟

جواب: اس کا فیصلہ ماہرین کی جانب سے جمع کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر ہوا ہے۔ وبا کی روک تھام کا بنیادی اصول رسک (مہلک اثرات) اور فوائد (اموات کو روکنا) کو جانچنا ہوتا ہے۔ ایسٹرا زینیکا کی ویکسین یورپی یونین کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کورونا سے بچاؤ کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ اب تک بالغ افراد سمیت ہر عمر کے لوگوں میں اس ویکسین کے فوائد اس کے نقصانات سے کہیں زیادہ ثابت ہوئے ہیں۔ یہ کورونا کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہونے، آئی سی یو میں جانے اور اموات سے محفوظ رکھتی ہے۔

بڑھتی عمر اور وائرس کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ ساتھ ویکسین کے فوائد میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے عمومی مضر اثرات بہت معمولی ہوتے ہیں اور کچھ دن میں ختم ہوجاتے ہیں۔ اس کے سنجیدہ مضر اثرات میں خون جمنا شامل ہے لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ اندازے کے مطابق یہ سائڈ افیکٹ ویکسین لگوانے والے 1 سے ڈھائی لاکھ افراد میں سے ایک میں سامنے آئے ہیں۔

دنیا بھر میں ویکسین کی محدود سپلائی کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں 40 سال سے زائد عمر کے افراد کو ایسٹرا زینیکا کی ویکسین لگائی جارہی ہے۔ یہ فیصلہ ڈبلیو ایچ او کے تجویز کردہ طریقہ کار کے مطابق کیا گیا ہے جس میں وائرس کی مقامی صورتحال (وائرس کا پھیلاؤ اور اس سے ہونے والی اموات)، عمر کے اعتبار سے ویکسین کے ہدفی گروہ، ویکسین کے ممکنہ مضر اثرات کے حوالے سے معلومات اور متبادل ویکسین کی فراہمی کو مدِنظر رکھا گیا ہے۔

جیسے جیسے نئی معلومات آتی رہیں گی ویسے ویسے ویکسین کے استعمال کے اصول بھی تبدیل ہوتے رہیں گے۔ مجموعی طور پر ملک میں دستیاب کورونا کی تمام ویکسینز محفوظ اور مؤثر ہیں۔ پاکستان میں جاری کورونا کی تیسری لہر اور پڑوسی ممالک میں کورونا کی صورتحال کی وجہ سے یہ بہت ضروری ہے کہ تمام بالغ افراد جتنا جلدی ہوسکے ویکسین کی پہلی خوراک لگوا لیں۔


سوال: ویکسین لگوانے کے لیے رجسٹریشن کا طریقہ کار کیا ہے؟

جواب: 30 سے 39 سال کے شہری اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر 1166 پر ایس ایم ایس بھیج کر یا نیشنل امیونائزیشن مینجمنٹ سسٹم (NIMS) کی ویب سائٹ کے ذریعے اپنی رجسٹریشن کرواسکتے ہیں۔ ویکسینیشن مرکز، پِن کوڈ اور تاریخ کی معلومات بذریعہ ایس ایم ایس فراہم کی جائیں گی۔

40 سال سے زائد العمر افراد بھی اسی طریقہ کار کے تحت رجسٹریشن کرواسکتے ہیں۔ NIMS کی ویب سائٹ یا ایس ایم ایس کے ذریعے قومی شناختی کارڈ نمبر بھیجنے پر آپ کو 24 گھنٹوں کے دوران 4 ہندسوں پر مشتمل پن کوڈ موصول ہوگا۔ کوڈ حاصل کرنے کے بعد آپ اپنے قریبی ویکسینیشن مرکز کا رخ کرسکتے ہیں۔

رجسٹرشدہ طبی کارکنان کے لیے سینٹر اور تاریخ کی معلومات بذریعہ ایس ایم ایس فراہم کی جائیں گی۔ وہ covid.gov.pk/vaccine پر اپنی رجسٹریشن کرواسکتے ہیں۔


سوال: ویکسین لگوانے کے لیے کتنے پیسے خرچ ہوں گے؟

جواب: حکومت پاکستان کین سائینو، سائینوفارم، سائینو ویک اور ایسٹرا زینیکا ویکسینز مفت فراہم کر رہی ہے۔ جبکہ اسپوتنک ویکسین نجی شعبے کی جانب سے شہریوں کو لگائی جا رہی ہے جس کی قیمت آپ اس سہولت کو فراہم کرنے والے ہسپتالوں سے معلوم کرسکتے ہیں۔


سوال: کورونا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کی فیس کیا ہے؟ میں یہ سرٹیفکیٹ کہاں سے حاصل کرسکتا ہوں؟

جواب: ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کی فیس 100 روپے ہے۔ آپ یہ سرٹیفیکٹ NIMS کی ویب سائٹ یا قریبی نادرا سینٹر سے حاصل کرسکتے ہیں۔


سوال: کیا میں ویکسینیشن کا مرکز تبدیل کرواسکتا ہوں؟

جواب: اگر آپ حکومت کی فراہم کردہ کورونا ویکسینیشن کی مفت سہولت کا انتخاب کرتے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ ویکسین پیغام کے ذریعے بتائے گئے سینٹر سے ہی لگوائی جائے۔

اگر آپ مرکز کی تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ کا نام فہرست میں نیچے جاسکتا ہے اور شیڈول میں تبدیلی کی وجہ سے چند دن انتظار کرنا پڑسکتا ہے۔

تمام سرکاری ویکسینیشن مراکز نے ویکسینیشین کے عمل کو قابلِ تحسین انداز میں انجام دیا ہے۔ شہریوں نے بھی سوشل میڈیا پر اپنے خوشگوار تجربات کا اظہار کیا ہے۔


سوال: ویکسینیشن مرکز جانے سے قبل کن خاص باتوں کو ذہن میں رکھا جائے؟

جواب: مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن میں رکھیں:

  • 1166 پر ایس ایم ایس بھیج کر یا NIMS کی ویب سائیٹ کے ذریعے اپنی رجسٹریشن کو یقینی بنائیں۔

  • اپنے 4 ہندسوں پر مشتمل تصدیقی کوڈ کے پیغام کو یاد رکھیں۔ اپنے فون میں اس پیغام کو محفوظ کرلیں اور ایک پرچے پر لکھ لیں۔

  • اپنا اصل قومی شناختی کارڈ لازمی ساتھ لے کر ویکسینیشن مرکز پہنچیں۔

    • بچوں اور بالخصوص نوزائیدہ بچوں کو اپنے ساتھ ویکسینیشن مرکز مت لے کر جائیں۔ اگر آپ بچوں کو گھر پر نہیں چھوڑسکتے تو براہ مہربانی اپنے ساتھ گھر کے کسی ایسے فرد یا دوست کو ضرور ساتھ لائیں جو ویکسینیشن مرکز کے باہر ان کی نگرانی کرسکے۔
  • ڈھیلی یا آدھی آستین والی قمیض پہن کر جائیں کیونکہ ویکسین آپ کے غیر غالب بازو پر لگائی جائے گی۔ براہ مہربانی صاف کپڑے پہن کر جائیں اور حفظان صحت کا خاص خیال رکھیں۔

  • ماسک کا استعمال کریں اور اپنے ساتھ ہینڈ سینی ٹائزر اور پانی کی بوتل ساتھ لے کر جائیں۔

  • اپنی باری کا تحمل سے انتظار کریں۔

  • ویکسینیشن مرکز کے عملے سے خوشگوار انداز میں ملیے اور شائستگی سے پیش آئیں۔

  • جب آپ کی باری آئے تو ٹیکے کی جگہ (یعنی غیر غالب بازو کے بالائی حصے) سے خود کپڑا ہٹائیں۔ براہ مہربانی عملے سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ آستین اوپر چڑھانے میں آپ کی مدد کریں گے۔ انہیں اپنے ہاتھ صاف رکھنے ہوتے ہیں اور انہیں ہر قسم کی آلودگی سے بچنا ہوتا ہے۔

  • ممکن ہے کہ آپ کو کسی قسم کے سائڈ افیکٹس کا سامنا ہو، اس لیے آپ کو مرکز پر کچھ دیر تک ٹھہرنے کے لے کہا جائے گا۔ عملہ جب آپ کی طبعیت میں بگاڑ کا جائزہ لے تو ان کے ساتھ براہ مہربانی تعاون کیجیے۔

  • مرکز سے نکلنے سے پہلے ویکیسن لگانے والے کا شکریہ ادا کریں۔ آپ کے چند تعریفی کلمات عالمی وبا کے ان دنوں میں دیرپا مثبت اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔

  • ویکسینیشن کے ایک دن بعد آپ کو ایک خودکار پیغام موصول ہوگا جس میں آپ سے ویکسین لگوانے کے بعد 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران کسی قسم کے سائڈ افیکٹس کے حوالے سے پوچھا جائے گا۔ آپ اس پیغام کا جواب 7 دنوں کے اندر دے سکتے ہیں، اس صورت میں آپ کو صحت مرکز جانے کی ہدایت دی جائے گی۔

  • شہری NIMS کے آن لائن پورٹل پر اپنی شکایات، ویکسین کے بعد طبیعت میں کسی قسم کے بگاڑ کا اندراج کرسکتے ہیں۔

  • اگر آپ 2 خوراکوں پر مشتمل ویکیسن کی پہلی خوراک لگواچکے ہیں تو اپ کو مقررہ تاریخ سے 24 سے 48 گھنٹے قبل خوراک کی دسیتابی کے مطابق دوسری خوراک لگوانے کے لیے پیغام موصول ہوگا۔


ملک میں دستیاب ویکسینز پر ایک نظر

ذیل میں وزارتِ صحت کی جانب سے منظور کی گئی کورونا وائرس کی 5 ویکسینز کا مختصر تعارف دیا جارہا ہے:

سائنوفارم:

سائنوفارم ویکسین بیجینگ انسٹیٹیوٹ آف بائیولاجیکل پروڈکٹس (BBIBP) کی جانب سے تیار کی گئی ہے جو چائنا نیشنل بائیوٹیک گروپ (CNBG) کا ذیلی ادارہ ہے۔ BBIBP-CorV ویکسین جو سائنوفارم کے نام سے مقبول ہے کورونا وائرس کی ایک کیمیکلی اِن ایکٹیویٹیڈ ہول وائرس ویکسین ہے۔ سائنوفارم کے اعلان کے مطابق اس ویکسین کی افادیت 79.34 فیصد ہے۔

اس ویکسین کے فیز 3 ٹرائل میں 60 ہزار سے زائد افراد شامل تھے اور یہ ٹرائل دسمبر 2020ء کے اواخر میں ارجنٹینا، بحرین، مصر، مراکش، پاکستان،پیرو اور متحدہ عرب امرات میں کیے گئے۔ BBIBP-CorV کی ٹیکنالوجی کورونا ویک (سائنوویک) اور BBV152 (جسے بھارت بائیو ٹیک) نے تیار کیا ہے سے مماثلت رکھتی ہے اور اس میں کورونا کے لیے اِن ایکٹیویٹیڈ وائرس ویکسینز کا استعمال کیا گیا ہے۔

7 مئی 2021ء کو ڈبلیو ایچ او نے سائنو فارم کی ویکسین کو ہنگامی استعمال کی فہرست میں شامل کردیا اور یوں اس ویکسین کی عالمی سطح پر استعمال کی اجازت مل گئی۔

صحت کی اشیا تک رسائی کے حوالے سے ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر مارینگیلا سمیونو کا کہنا تھا کہ ’اس ویکسین کی فراہمی سے ان ممالک میں ویکسین تک رسائی میں آسانی ہوگی جو اپنے مزدوروں اور آبادی کو کورونا کے خطرے سے بچانا چاہتے ہیں۔ ہم ویکسین تیار کرنے والوں سے کہتے ہیں کہ وہ کو ویکس میں شامل ہوں اور ویکسین کی منصفانہ تقسیم کا حصہ بنیں‘۔

ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر موجود ایک رپورٹ کے مطابق اس ویکسین کی جانچ کے عمل کے دوران ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ویکسین تیار کرنے والی فیکٹری کا دورہ بھی کیا گیا تھا۔

سائنو ویک:

چینی کمپنی سائنو ویک بائیو ٹیک کی تیار کردہ کورونا ویکسین کورونا ویک کو پاکستان میں سائنو ویک کہا جاتا ہے۔ یہ کورونا کی اِن ایکٹیویٹڈ وائرس ویکسین ہے۔ اس کے فیز 3 ٹرائل برازیل، چلی، انڈونیشیا، فلپائن اور ترکی میں ہوئے۔ اس کی ٹیکنالوجی بھی سائنو فارم، BBV152 اور دیگر اِن ایکٹیویٹڈ ویکسینز جیسی ہی ہے۔

چلی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق یہ ویکسین انفیکشن سے محفوظ رکھنے میں 67 فیصد مؤثر ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق چلی کی حکومت کا کہنا تھا کہ ’کورونا ویک ویکسین مریض کو اسپتال میں داخل ہونے سے بچانے میں 85 فیصد اور اموات کو روکنے میں 80 فیصد مؤثر ہے‘۔

رائٹرز میں 6 مئی 2021ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کے مطابق چین کی سائنو ویک بائیو ٹیک کی بنائی گئی ویکسین 60 سال سے کم عمر بالغ افراد کے لیے مؤثر تو ہے لیکن اس کے مضر اثرات کے حوالے سے درکار مواد بہت کم ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے اسٹریٹیجک ایڈوائزری گروپ آف ایکسپرٹس (SAGE) کے آزاد ماہرین نے چین، برازیل، ترکی، انڈونیشیا اور چلی میں اس ویکسین کے فیز 3 ٹرائل کی جانچ کی‘۔

اسپٹنک V:

روس کے گمالیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف ایپیڈیمالجی اینڈ مائیکرو بائیولاجی کی تیار کردہ اسپٹنک V کورونا کی ایک اڈینووائرس ویکٹر ویکسین ہے۔ یہ ویکسین وصول کنندہ کے خلیوں میں مطلوبہ انٹیجن کی جنیٹک مٹیریل کوڈنگ پہنچانے کے لیے تبدیل شدہ وائرل ویکٹر کا استعمال کرتی ہے۔ دی لینسٹ میں اس ویکسین کے ٹرائل کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک عبوری رپورٹ میں غیر معمولی مضر اثرات کے بغیر اس کی افادیت کو 91.6 فیصد بتایا گیا۔ دسمبر 2020ء میں روس، ارجنٹینا، بیلاروس، ہنگری، سربیا اور متحدہ عرب امارات نے اس ویکسن کے ہنگامی استعمال کی اجازت دی۔

ویکسین تیار کرنے والے ادارے کے مطابق یہ دنیا کی ان 3 ویکسینز میں سے ایک ہے جس کی افادیت 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ ’اس ویکسین کی 91.6 فیصد افادیت 19 ہزار 866 رضاکاروں کے اعداد و شمار کے نتیجے میں سامنے آئی ہے ان رضاکاروں کو ویکسین کی دونوں خوراک یا پھر پلیسبو دیے گئے تھے۔ ان میں 78 کورونا کے مریض تھے‘۔

ڈبلیو ایچ او کے ماہرین نے یورپین میڈیکل ایجنسی کے ساتھ مل کر 10 مئی کو روس کی اسپٹنک V ویکسین کی جانچ کا دوسرا مرحلہ شروع کرنا تھا۔

کین سائنو (AD5-nCOV):

چینی فوج اور تیانجن میں قائم کین سائنو بائیو لاجکس کی تیار کردہ کورونا ویکسین AD5-nCOV کا تجارتی نام کونویڈیسیا ہے۔ ایک خوراک والی یہ ویکسین بھی وائرل ویکٹر ویکسین ہے۔ ویکسین کے ٹرائل کے حوالے سے فروری 2021ء میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق درمیانے درجے کی علامات سے بچانے میں اس کی افادیت 65.7 فیصد ہے جبکہ شدید بیماری سے بچانے میں اس کی افادیت 91 فیصد ہے۔

اس کے فیز 3 ٹرائل ارجنٹینا، چلی، میکسیکو، پاکستان، روس اور سعودی عرب میں ہوئے جن میں 2020ء کے اواخر تک 40 ہزار لوگ شریک ہوئے۔

ایسٹرا زینیکا:

آکسفورڈ-ایسٹرا زینیکا کورونا ویکسین کا نام ویکسزرویا اور کووی شیلڈ (کوڈ نام AZD1222) ہے۔ یہ ویکسین 18 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے موزوں ہے۔ ایسٹرا زینیکا ویکسین میں تبدیل شدہ اڈینو وائرس موجود ہے جس میں SARS-Cov-2 کا ایک پروٹین بنانے والی جین ہوتی ہے۔ اس ویکسین میں چونکہ وائرس موجود نہیں ہے اس وجہ سے اس سے کورونا وائرس نہیں ہوتا۔

اس ویکسین کی دوسری خوراک لگنے کے دو ہفتے بعد کورونا کی علامات کے خلاف اس کی افادیت 62 فیصد رہی ہے۔

اس ویکسن سے خون کے خلیوں میں کمی کے ساتھ خون جمنے کا خطرہ بھی وابستہ ہے۔ یورپین میڈیکل ایجنسی کے مطابق 4 اپریل 2021ء تک یورپین اکنامک ایریا اور برطانیہ میں جہاں تقریباً 3 کروڑ 40 لاکھ افراد کو ویکسین لگ چکی ہے وہاں خون جمنے کے 222 کیس سامنے آئے ہیں۔

تاہم نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت نے اپنی ہدایات میں کہا ہے کہ یہ ویکسین 40 سال سے کم عمر افراد کو نہ لگائی جائے (ویکسین کے محفوظ ہونے کی معلومات کے فقدان کی وجہ سے) ساتھ ہی ان افراد کو بھی یہ ویکسین نہ لگائی جائے جنہیں ویکسین کے اجزا میں شامل کسی بھی چیز (جیسے پالی سوربیٹ) سے الرجی ہو، جنہیں جی آئی بلیڈنگ ڈس آرڈر ہو یا اس کی وجہ سے دورے پڑتے ہوں یا پھر جنہیں ہیپارین انڈیوسڈ تھرومبوسائٹوپینیا اور تھرومبوسس (HITT یا پھر HIT ٹائپ 2) جیسی بیماریاں ہوں۔

ویکسین کے حوالے سے ہدایات

ایسٹرا زینیکا

کن لوگوں کو ایسٹرا زینیکا ویکسین لگوانی چاہیے

  • 40 سال سے زائد عمر کے افراد۔

  • ویکسن لگوانے کے اہل وہ بالغ افراد جنہیں ذیابطیس، بلند فشار خون، دل کی بیماری یا دیگر مستقل دائمی امراض ہوں۔

  • جن افراد میں کورونا کی شدت نہ ہو وہ آئسولیشن کا عرصہ گزار کر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

  • جن افراد میں کورونا کی شدت زیادہ ہو وہ خطرے سے باہر آکر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

  • طویل عرصے سے مدافعتی نظام کی کمزوری کا شکار افراد بھی یہ ویکسین لگوا سکتے ہیں تاہم ان میں اس ویکسین کی افادیت کم ہوسکتی ہے۔

کن افراد کو ایسٹرا زینیکا ویکسین نہیں لگوانی چاہیے

  • 40 سال سے کم عمر افراد (ان کے حوالے سے ابھی مناسب حفاظتی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے)۔

  • ویکسین تیار کرنے کے کسی بھی جزو (جیسے پالی سوربیٹ) سے شدید الرجی کا شکار ہونے والے افراد۔

  • مزید تحقیق کے نتائج آنے تک اس ویکسین کو 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے تجویز نہیں کیا گیا ہے۔

  • وہ افراد جنہیں ایسٹرا زینیکا ویکسین کی پہلی خوراک لگنے کے بعد خون جمنے کی شکایت کا سامنا ہو۔

  • وہ افراد جنہیں ویکسین لگوانے کے وقت بخار ہو (ایسے افراد بیماری کے بہتر ہونے بعد ویکسین لگوا سکتے ہیں)۔

  • ایسے افراد جنہیں شارٹ ٹرم امیونو سپریسیو ادویات دی گئی ہوں۔ وہ ادویات کا استعمال مکمل ہونے کے بعد بھی 28 دن انتظار کریں۔

  • وہ افراد جنہیں جی آئی بلیڈنگ ڈس آرڈر یا دورے پڑنے کی شکایت ہو۔

  • جنہیں ہیپارین انڈیوسڈ تھرومبوسائٹوپینیا اور تھرومبوسس (HITT یا پھر HIT ٹائپ 2) جیسی بیماریاں رہی ہوں۔

  • وہ جنہیں کورونا ویکسین لگنے کے بعد پلیٹلیٹس کی کم سطح کے ساتھ خون جمنے کا سامنا ہو۔

سائنو ویک ویکسین (کورونا ویک)

کن افراد کو کورونا ویک ویکسین لگوانی چاہیے

  • 18 سال سے زیادہ عمر کے افراد۔

  • وہ افراد جنہیں موٹاپا، دل کے امراض، سانس کی بیماریاں اور ذیابطیس سمیت ایسی بیماریاں ہوں جو کورونا کا خطرہ بڑھا دیتی ہوں ان کے لیے ویکسینیشن تجویز کی جاتی ہے۔

  • حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین۔

کن افراد کو کورونا ویک ویکسین نہیں لگوانی چاہیے

  • 18 سال سے کم عمر افراد۔ ان افراد میں کورونا ویک کی افادیت اور اس کا محفوظ ہونا ابھی ثابت نہیں ہوا ہے۔

  • وہ افراد جنہیں کورونا ویک یا کسی دیگر اِن اکٹیویٹڈ ویکسین سے، یا کورونا ویک کے کسی جز (ایکٹو یا ان ایکٹو اجزا یا تیاری میں شامل کسی دوسری چیز) سے الرجی ہو۔

  • ماضی میں ویکسین سے شدید الرجک ری ایکشن ہوا ہو (جیسے کہ اکیوٹ اینا فلیکسس، انجیوڈیما، ڈسپنیا وغیرہ)۔

  • شدید اعصابی بیماریوں (جیسے ٹرانسورس مائیلائٹس، گیلین-بیری سنڈروم، ڈی ایمیلینیٹنگ امراض وغیرہ) کے حامل افراد۔

امیونائزیشن کے بعد ہونے والے منفی واقعات (AEFI)

کونسل آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز آف میڈیکل سائنسز (CIOMS) کی منفی اثرات کو جانچنے کی درجہ بندی یہ ہے۔ بہت عام (10 فیصد)، عام (1 سے 10 فیصد)، غیر معمولی (0.1 سے 1 فیصد)، کم (0.01 سے 0.11 فیصد) اور بہت کم (0.01 فیصد سے کم)۔

ٹیکا لگنے کے مقام پر ہونے والے منفی اثرات

  • بہت عام: درد

  • عام: سوجن، خارش، سرخ نشانات پڑنا، انڈیوریشن

  • غیر معمولی: ٹیکا لگنے کے مقام پر جلنا

ٹیکا لگنے کے مقام سے دُور ہونے والے منفی اثرات

  • بہت عام: سر درد، تھکن

  • عام: میالجیا، متلی، اسہال، گٹھیا، کھانسی، سردی لگنا، خارش، بھوک میں کمی، ناک بہنا، گلے میں درد، ناک بند ہونا، پیٹ میں درد ہونا۔

منفی اثرات کی شدت

  • کلینیکل ٹرائل میں ان منفی اثرات کی شدت درجہ 1 (بہت کم) رہی جبکہ درجہ 3 اور اس سے اوپر کے منفی اثرات کے وقوع پذیر ہونے کی شرح 1.31 فیصد رہی۔

  • درجہ 3 اور اس سے اوپر کے منفی اثرات میں ٹیکا لگنے کے مقام پر درد، کھانسی، بخار، سر درد، گلے میں درد، پیٹ میں درد، چکر آنا اور غنودگی شامل ہیں۔

سنجیدہ منفی واقعات (SAE)

  • ویکسینیشن سے متعلق کوئی سنجیدہ منفی اثرات سامنے نہیں آئے۔

سائنو فارم

کن افراد کو ویکسین لگوانی چاہیے

  • 18 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد۔

  • وہ افراد جنہیں موٹاپا، دل کے امراض، سانس کی بیماریاں اور ذیابطیس سمیت ایسی بیماریاں ہوں جو کورونا کا خطرہ بڑھادیتی ہوں ان کے لیے ویکسینیشن تجویز کی جاتی ہے۔

  • حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین۔

کن افراد کو سائنو فارم کی ویکسین نہیں لگوانی چاہیے

  • وہ افراد جنہیں ویکسین لگوانے کے وقت بخار ہو (ایسے افراد بیماری کے بہتر ہونے بعد ویکسین لگواسکتے ہیں)۔

  • وہ مریض جن میں کورونا وائرس ایکٹو ہو۔

  • جن افراد میں کورونا کی شدت نہ ہو وہ آئسولیشن کا عرصہ گزار کر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

  • جن افراد میں کورونا کی شدت زیادہ ہو وہ خطرے سے باہر آکر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

  • ایسے افراد جنہیں شارٹ ٹرم امیونو سپریسیو ادویات دی گئی ہوں وہ ادویات کا استعمال مکمل ہونے کے بعد بھی 28 دن انتظار کریں۔

  • طویل عرصے سے مدافعتی نظام کی کمزوری کا شکار افراد بھی یہ ویکسین لگوا سکتے ہیں تاہم ان میں اس ویکسین کی افادیت کم ہوسکتی ہے۔

  • جن افراد کے اعضا کی پیوند کاری ہوئی ہو وہ پیوندکاری کے 3 ماہ بعد ویکسین لگواسکتے ہیں۔

  • جن افراد کی کیمو تھراپی ہوئی ہو وہ کیمو تھراپی کے 28 دن بعد ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

کین سائنو بائیو

کن افراد کو ویکسین لگوانی چاہیے

  • 18 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد۔

    • وہ افراد جنہیں موٹاپا، دل کے امراض، سانس کی بیماریاں اور ذیابطیس سمیت ایسی بیماریاں ہوں جو کورونا کا خطرہ بڑھادیتی ہوں ان کے لیے ویکسینیشن تجویز کی جاتی ہے۔

    • حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین۔

کن افراد کو کین سائنو ویکسین نہیں لگوانی چاہیے

  • وہ افراد جنہیں ویکسین لگوانے کے وقت بخار ہو (ایسے افراد بیماری کے بہتر ہونے بعد ویکسین لگواسکتے ہیں)۔

  • وہ مریض جن میں کورونا وائرس ایکٹو ہو۔

  • جن افراد میں کورونا کی شدت نہ ہو وہ آئسولیشن کا عرصہ گزار کر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

  • جن افراد میں کورونا کی شدت زیادہ ہو وہ خطرے سے باہر آکر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

  • ایسے افراد جنہیں شارٹ ٹرم امیونو سپریسیو ادویات دی گئی ہوں وہ ادویات کا استعمال مکمل ہونے کے بعد بھی 28 دن انتظار کریں۔

  • طویل عرصے سے مدافعتی نظام کی کمزوری کا شکار افراد بھی یہ ویکسین لگوا سکتے ہیں تاہم ان میں اس ویکسین کی افادیت کم ہوسکتی ہے۔

  • جن افراد کے اعضا کی پیوند کاری ہوئی ہو وہ پیوندکاری کے 3 ماہ بعد ویکسین لگواسکتے ہیں

  • جن افراد کی کیمو تھراپی ہوئی ہو وہ کیمو تھراپی کے 28 دن بعد ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

اسپٹنک V

کن افراد کو ویکسین لگوانی چاہیے

  • 18 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد۔

  • وہ افراد جنہیں موٹاپا، دل کے امراض، سانس کی بیماریاں اور ذیابطیس سمیت ایسی بیماریاں ہوں جو کورونا کا خطرہ بڑھادیتی ہوں ان کے لیے ویکسینیشن تجویز کی جاتی ہے۔

  • حاملہ خواتین ڈاکٹر سے مشورے کے بعد ویکسین لگواسکتی ہیں۔ بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین ویکسین لگوا سکتی ہیں۔

کن افراد کو اسپٹنک ویکسین نہیں لگوانی چاہیے

  • وہ افراد جنہیں ویکسین لگوانے کے وقت بخار ہو (ایسے افراد بیماری کے بہتر ہونے بعد ویکسین لگواسکتے ہیں)۔

  • وہ مریض جن میں کورونا وائرس ایکٹو ہو۔

  • جن افراد میں کورونا کی شدت نہ ہو وہ آئسولیشن کا عرصہ گزار کر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

  • جن افراد میں کورونا کی شدت زیادہ ہو وہ خطرے سے باہر آکر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

  • جن افراد کو ویکسین کی پہلی خوراک لگوانے کے بعد شدید منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہو وہ ویکسین کی دوسری خوراک نہ لگوائیں۔

پہلے سے موجود بیماری

  • جو لوگ اکیوٹ سیویئر فیبریل اِلنس کا شکار ہوں انہیں دیگر ویکسینز کی طرح اسپٹنک V ویکسین بھی نہیں لگانی چاہیے۔ تاہم زکام یا کم درجے کے بخار جیسے معمولی انفیکشن کی وجہ سے ویکسین لگانے میں تاخیر نہیں کرنی چایے۔

تھروموبائسیپینیا اور کوایگولیشن ڈس آرڈر

  • تھروموبائسیپینیا، کسی کوایگولیشن ڈس آرڈر کا شکار افراد یا اینٹی کوایگولیشن تھراپی میں موجود افراد کو اسپٹنک V ویکسین لگاتے ہوئے احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ان افراد میں انٹرامسکلر ویکسین لگاتے ہوئے خون جاری ہونے یا چوٹ لگنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے افراد

  • یہ معلوم نہیں ہے کہ کمزور مدافعتی ردعمل کے حامل افراد، بشمول مدافعتی تھراپی حاصل کرنے والے افراد، ویکسین پر اسی طرح کا ردِعمل دیں جیسا کہ مضبوط مدافعتی نظام کے حامل افراد دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کمزور مدافعتی نظام کے حامل افراد کا ویکسین کے حوالے سے ردِعمل بھی کمزور ہو۔

  • ایسے افراد جنہیں شارٹ ٹرم امیونو سپریسیو ادویات دی گئی ہوں وہ ادویات کا استعمال مکمل ہونے کے بعد بھی 28 دن انتظار کریں۔

  • طویل عرصے سے مدافعتی نظام کی کمزوری کا شکار افراد بھی یہ ویکسین لگوا سکتے ہیں تاہم ان میں اس ویکسین کی افادیت کم ہوسکتی ہے۔

  • جن افراد کے اعضا کی پیوند کاری ہوئی ہو وہ پیوندکاری کے 3 ماہ بعد ویکسین لگواسکتے ہیں

  • جن افراد کی کیمو تھراپی ہوئی ہو وہ کیمو تھراپی کے 28 دن بعد ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

تحفظ کا دورانیہ اور اس کی سطح

  • اب تک تحفظ کے دورانیے کا تعین نہیں ہوسکا ہے۔

  • دیگر کسی بھی ویکسین کی طرح اسپٹنک V بھی شاید ہر وصول کنندہ کو تحفظ فراہم نہ کرے۔


یہاں دی گئی تجاویز پر منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کو آرڈینیشن کی جانب سے باقاعدگی سے نظرثانی کی جارہی ہے اور قومی اور بین الاقوامی تجاویز اور بہترین طریقہ کار کی بنیاد پر انہیں بہتر بنایا جائے گا۔


انگلش میں پڑھیں۔

سمیرا ججہ

لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: SumairaJajja@

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں:

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔