اپنے فن 'پُتلی تماشا' یا 'کٹھ پتلی' میں عوامی مقبولیت پانے والے فاروق قیصر، جنہوں نے اپنے ہی تخلیق کردہ کردار 'انکل سرگم' سے شہرت حاصل کی، وہ ہم سے ایسے موسم میں جدا ہوئے ہیں، جسے 'جدائی کا موسم' کہا جاسکتا ہے۔
فاروق قیصر کے پتلی تماشوں کے کردار اور مکالمے، یادوں کی صورت مہکتے ہوئے، اب تک ہماری یادداشت میں موجود تھے، لیکن ان کے بچھڑنے کے ساتھ ہی کہیں ہمارا بچپن بھی ہم سے جدا ہوگیا ہے۔
دنیا کے قدیم ترین فنون میں سے ایک فن 'پتلی تماشا' ہے، جس کو تھیٹر کی ہی ایک قسم بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اس فن کی تاریخ 3 ہزار سال قبل مسیح تک پھیلی ہے۔ یونان میں تخلیق پانے والے اس فن نے دنیا بھر میں اپنے چاہنے والے اور فنکار پیدا کیے۔ پاکستان میں اس فن کو تھیٹر کے منچ پر رفیع پیر نے متعارف کروایا تھا جبکہ ٹیلی وژن پر فاروق قیصر نے پیش کیا۔
ان کا شمار پاکستان کے معروف مزاح نگاروں میں ہوتا تھا، جنہوں نے کپڑے کے بنے ہوئے پُتلوں کے ذریعے مزاح پیش کیا اور پھر کارٹون کے ذریعے بھی اس فن کی آبیاری کی۔ آج کی دنیا میں اینی میشن کے آرٹ کی بنیاد یہی فن ہے اور پاکستان میں فاروق قیصر اس فن کے ماسٹر تھے۔ وہ پُتلی تماشے کے اس فن میں تاک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ پروڈیوسر، ہدایت کار، اداکار، صداکار، کالم نگار، کہانی نویس، خاکہ نگار، شاعر اور مدرس بھی تھے۔
فاروق قیصر کی ولادت 31 اکتوبر 1945ء کو سیالکوٹ میں ہوئی جبکہ انتقال 14 مئی 2021ء کو اسلام آباد میں ہوا۔ ان کے والد سرکاری ملازم تھے جس کی وجہ سے وہ پاکستان کے کئی شہروں میں مقیم رہے۔ ان کے بچپن کے ابتدائی برس کوہاٹ اور پشاور میں بسر ہوئے۔ میٹرک پشاور اور ایف اے کوئٹہ سے کیا، پھر لاہور منتقل ہوگئے۔ بچپن سے ہی ان کو بامعنی لکیریں تخلیق کرنے سے قدرتی شغف تھا، یعنی ڈرائنگ سے دلچسپی تھی۔
انہوں نے 1970ء میں پاکستان کے سب سے مستند فائن آرٹس کے ادارے 'نیشنل کالج آف آرٹس' لاہور سے گریجویشن کیا اور وہاں ان کو پاکستان کے معروف مصور 'شاکر علی' کی صحبت حاصل ہوئی جو ان کے پرنسپل تھے۔
فاروق قیصر نے شاکر صاحب کی رہنمائی میں جملے کو فقرے میں تبدیل کرنا سیکھا۔ طنز و مزاح کے باریک کام کو بھی سمجھا، بین السطور بات کہنے کے ہنر سے بھی بہرہ مند ہوئے۔ اسی صلاحیت کی وجہ سے آگے چل کر ان کی اسکرپٹ نویسی کی بنیاد پڑی اور انکل سرگم جیسا کردار تخلیق ہوا کہ جس نے ان کو پاکستان میں پتلی تماشے کی تاریخ میں بھی محفوظ کردیا۔
یہ وہی دور ہے جب فاروق قیصر ایک طرف تو فائن آرٹ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور دوسری طرف ان کو اپنے عہد کے بڑے لوگوں کی رفاقت حاصل تھی۔ فیض احمد فیض کی بیٹی اور پاکستان کی معروف مصورہ 'سلیمہ ہاشمی' ان کی استاد بھی تھیں۔ ان کے تعاون سے انہیں 1971ء میں پاکستان ٹیلی وژن سے اپنے کیریئر کی ابتدا کرنے کا موقع ملا۔
فاروق قیصر نے اس سے پہلے دستاویزی فلم ساز کے طور پر کام شروع کیا تھا لیکن ان کی توجہ بہت جلد پتلی تماشے کے فن پر مرکوز ہوگئی جس کے لیے انہوں نے زندگی وقف کردی۔ انہوں نے پی ٹی وی پر بچوں کے لیے نشر ہونے والے ایک پروگرام 'اکڑ بکڑ' کے لیے کچھ پتلی کردار تخلیق کیے اور ان پر اپنی آواز بھی جمائی۔ اس پروگرام کی پروڈیوسر منزہ ہاشمی تھیں جبکہ اس پروگرام کے تخلیق کار شعیب ہاشمی تھے۔
سونے پر سہاگہ فیض احمد فیض کی صحبتوں کے توسط سے فیض صاحب کے استاد، اردو، پنجابی اور فارسی زبان پر قدرت رکھنے والے شاعر 'صوفی غلام مصطفی تبسم' سے ان کی عقیدت مندی ہوگئی تھی، جس سے ان کو خاص طور پر بچوں کے ادب کا فہم و ادراک حاصل ہوا۔ انہوں نے صوفی غلام مصطفی تبسم کی کتاب 'ٹوٹ بٹوٹ' کے لیے آرٹ ورک بھی کیا، جس کو صوفی صاحب نے بے حد سراہا تھا۔
اسی دور میں جب مالی تنگی بھی تھی، فاروق قیصر اپنے ایک دوست کا کافی ذکر کیا کرتے جن کا نام اکبر سبحانی ہے جو معروف اداکار ہیں، لیکن ابھی ہمارے لوگوں کو بھولے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں دوست ایک ہی کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور اپنے دیگر اخراجات بھی مل بانٹ لیتے تھے۔ اس وقت کی بہت ساری لطیف یادیں بھی فاروق قیصر اپنی گفتگو میں بیان کیا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں ان کی شادی بھی ہوئی۔
اس طرح کے تخلیقی ماحول میں رہتے ہوئے فاروق قیصر کا دل کیا کہ اپنے فنی شعبے میں مزید گیان حاصل کیا جائے۔ اس لیے وہ 1976ء میں اسکالرشپ پر یورپ کے ایک ترقی پسند ملک 'رومانیہ' گئے جہاں سے انہوں نے گرافک آرٹس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور پپیٹ کی عملی تعلیم و تربیت مستعار لینے کا سنہری موقع بھی ملا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ وہ ایک ذہین طالب علم تھے اور اس کی ایک مثال نیشنل کالج آف آرٹس سے گریجویشن کرتے ہوئے گولڈ میڈل حاصل کرنا تھا۔
ان کی جامعہ کے ایک استاد 'موہن لال' تھے، جن سے فاروق قیصر بہت متاثر تھے۔ جب فاروق قیصر نے اپنا تعلیمی عرصہ مکمل کرلیا اور پاکستان واپسی کے لیے تیار تھے تو ان کے مشفق استاد نے ان سے کہا 'واپس جاکر تم بھی مجھے دیگر طالب علموں کی طرح بھول جاؤ گے'، لیکن فاروق قیصر ان کو نہ بھولے۔ انکل سرگم کی صورت والا کردار، ان کے اسی استاد کی مرہون منت ہے، یعنی ان کی شخصیت اور چہرے کے خطوط کو ذہن میں رکھتے ہوئے قیصر فاروق نے یہ پُتلا ڈیزائن کیا۔ اس کے علاوہ فاروق قیصر نے 1999ء میں امریکی جامعہ سے ابلاغ عامہ (ماس کمیونیکیشن) سے ماسٹرز کی سند بھی حاصل کی۔ اس طرح زندگی میں وہ آگے بڑھتے رہے۔
70ء کی دہائی میں شہرت کی دیوی ان کے انتظار میں تھی۔ 1976ء میں پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) سے ایک شو 'کلیاں' شروع کیا گیا تھا۔ یہ ان کا پہلا آزادانہ اور باقاعدہ پتلی تماشے پر مبنی پروگرام تھا، جس کا مجموعی خاکہ، کردار نگاری اور پتلے سازی تک، سب کچھ ان کے ہاتھ سے تیار ہوا تھا۔
اس پروگرام کا مرکزی کردار 'انکل سرگم' تھا جس کا نام درحقیقت پروفیسر سرگم تھا لیکن پی ٹی وی کے متعلقہ حکام کے اعتراض کی وجہ سے اس کو 'انکل سرگم' ہونا پڑا۔ فاروق قیصر صاحب نے اس کا نام سرگم بھی اس لیے رکھا کہ اس کردار سے جڑے ہوئے مزید 7 کردار تھے۔ جس طرح موسیقی میں 7 سُر ہوتے ہیں، اسی طرح موسیقی کے جڑاؤ اور بندش کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کردار تخلیق کیے اور ان کے ذریعے سے ایسا مزاح پیش کیا جاتا تھا، جس میں معاشرتی مسائل، سماجی ناہمواری، سیاسی الجھنیں، عوامی حالات، ملکی واقعات اور بچوں کے معاملات کو ہلکا پھلکا بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔
پی ٹی وی کے اس معروف پروگرام 'کلیاں' کو ابتدائی طور پر بچوں کے لیے تخلیق کیا گیا تھا پھر اس کی شہرت جب بڑوں تک پہنچی تو اس کو بڑوں کے لیے بھی لکھا جانے لگا، یوں سمجھیے کہ اس پروگرام کے خیال کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ یہ بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے یکساں دلچسپی کا پروگرام تھا۔
اس پروگرام کے چند مشہور کرداروں میں ماسی مصیبتے، مسٹر ہیگا، رولا، شرمیلی، نونی پا اور گورا صاحب سمیت کئی متاثر کن کردار شامل تھے۔ اس پروگرام میں 70ء اور 80ء کی دہائی کی کئی معروف شخصیات نے بطور مہمان بھی شرکت کی، جن میں نازیہ حسن، زوہیب حسن، جنید جمشید و دیگر شامل ہیں۔ یہ پروگرام 2010ء میں 'سیاسی کلیاں' کے عنوان سے دوبارہ شروع کیا گیا جو ڈان نیوز سے نشر ہوا کرتا تھا۔
فاروق قیصر کے کریڈٹ پر ایک اور بہت شاندار تخلیقی اقدام ہے جس نے پاکستان میں مزاح بالخصوص ٹیلی وژن پر مزاح کو ایک نیا رجحان عطا کیا، اور وہ تھا مزاحیہ صدا کاری کا، جس میں وہ انگریزی فلموں پر پنجابی فلموں کے انداز کی پنجابی زبان میں ڈبنگ کرتے تھے۔
'حشر نشر' کے نام سے پیش کیے جانے والے پروگرام نے پاکستان میں ایک نیا رخ دیا جس سے متاثر ہوکر اس شعبے میں بہت کام ہوا بلکہ آج تک مختلف انگریزی فلموں اور کلپس پر مزاحیہ ڈبنگ کا کام جاری ہے۔ اس کام کے خالق بھی پاکستان میں فاروق قیصر ہی تھے۔ اسلام آباد میں واقع 'پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس' کا 'لوگو' بھی انہوں نے ہی ڈیزائن کیا تھا۔
فاروق قیصر نے زندگی میں بہت سارے کام کیے، وہ پاکستان اور انڈیا میں یونیسیکو کے منصوبوں سے جڑے رہے۔ انہوں نے دیہی علاقوں میں صحت و صفائی، تعلیم اور فنون کی آگاہی کے لیے عملی طور پر خدمات فراہم کیں۔ وہ لوک ورثہ کے سابق بورڈ آف گورنر بھی رہے۔ ان کی پاکستان ٹیلی وژن کے علاوہ نجی میڈیا ہاوئسز سے بھی مختلف حیثیتوں میں وابستگی رہی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس اور فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین سمیت کئی جامعات سے بھی جز وقتی منسلک رہے۔ کئی اخبارات کے لیے مستقل طور پر کالم نویسی کرنے کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر کارٹون بھی تخلیق کیے۔ وہ پتلی تماشے کی آگاہی کے لیے بھی کوشاں رہتے تھے۔
انہوں نے پی ٹی وی کے لیے کلیاں، سرگم سرگم، پتلی تماشا اور سرگم بیک ہوم جیسے پروگرام تشکیل دیے جبکہ این ٹی ایم کے لیے ڈاک ٹائم اور ڈان نیوز کے لیے سیاسی کلیاں پروگرام بھی تخلیق کیا۔ انہوں نے تقریباً 120 کردار تخلیق کیے، جن میں سے کوئی درجن بھر سے زائد ایسے کردار ہیں جن کو بہت شہرت ملی۔ انہوں نے 40 ڈرامے لکھے اور بقول ان کے بے شمار نغمات بھی لکھے جن میں قومی نغمے بھی شامل ہیں۔ ان کی تحریروں پر مبنی 4 کتابیں بھی شائع ہوئیں، جن کے نام ہور پچھو، کالم گلوچ، میٹھے کریلے اور میرے پیارے اللہ میاں شامل ہیں۔
انہوں نے بڑے بڑے حکمرانوں، سیاسی رہنماؤں اور دیگر صاحبانِ وقت کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ ڈنکے کی چوٹ پر کیا اور اپنے بیانیے میں بے باک رہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں انہوں نے اپنے فن کو پیش کیا، جن میں امریکا، انڈیا، ملائیشیا اور کئی یورپی ممالک شامل ہیں۔ ان کے پروگرام 'کلیاں' کو جرمنی میں ٹیلی وژن کے ہونے والے مقابلے میں ایوارڈ ملا۔ ملائیشیا میں انہیں یونیسیف کی طرف سے 'ماسٹر پپٹ آف دی ریجن' کا خطاب بھی ملا۔ پاکستان کے 2 بڑے سول اعزازات 'ستارہ امتیاز' اور'تمغہ حسن کارکردگی' سے بھی ان کو نوازا گیا۔
راقم کو 2008ء میں فاروق قیصر کے گھر پر ان سے ایک انٹرویو کرنے کا موقع ملا، جس کی وجہ سے میں نے ان کی شخصیت کو قریب سے دیکھا۔ میرے انٹرویو میں جو گفتگو انہوں نے کی اس میں ایک مطمئن شخص اور دوسرا بے چین شخص منعکس ہو رہا تھا۔ وہ ذاتی زندگی سے تو مطمئن تھے البتہ فنی تشنگی اب بھی باقی تھی۔ ان کی بے چین شخصیت میں جو غصہ پنہاں تھا وہ پاکستان میں سیاسی اشرافیہ کی طرف سے ان سے اس فن کے فروغ کے لیے جو وعدے کیے گئے تھے، ان کو پورا نہ ہونے پر تھا۔ اسی لیے وہ کہتے تھے 'میں بحیثیت فاروق قیصر سخت بات نہیں کہہ سکتا لیکن تلخ سے تلخ بات بھی 'انکل سرگم' کے کردار کے ذریعے کہہ دیتا تھا‘۔
مجھے دیے ہوئے انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ 'ہمارے ہاں عدل کی کمی ہے، یہاں عدل سے مراد صرف عدالتوں کا عدل نہیں ہے بلکہ وہ عدل ہے جو گھر سے شروع ہوتا ہے۔ 3 'ب' ایسے ہیں جو عدل کرنا شروع کردیں گے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا، وہ 3 'ب' ہیں 'باپ، باس، بادشاہ'۔ ان تینوں کے انصاف کرنے سے گھر، ملک اور معاشرے میں انصاف کا دور دورہ ہوجائے گا‘۔
میرے انٹرویو میں انہوں نے اپنے ایک پچھتاوے پر بھی بات کی، کہتے ہیں کہ 'مجھے ایک پچھتاوا ہے، جس کا ذکر میں پہلی بار آپ سے بات کرتے ہوئے کر رہا ہوں۔ ’پپٹ کی ایک قسم 'مونولاگ' کہلاتی ہے، اس میں ہاتھ میں پپٹ پہن کر آپ آواز نکالتے ہیں، مجھے یہ فن بھی سیکھنا چاہیے تھا‘۔
فیس بک پر ان کے آفیشل پیج پر ان کی شاعری، کارٹونز و دیگر چیزیں موجود ہیں۔ 12 مئی 2021ء کو انہوں نے کورونا اور عید کے تناظر میں ایک دعائیہ پیغام بھی اپ لوڈ کیا جو ان کی آخری پوسٹ تھی۔
23 مارچ 2021ء کو صدرِ پاکستان عارف علوی سے 'ستارہ امتیاز' وصول کیا، جس کے لیے وہ وہیل چیئر پر آئے تھے، یہ ان کی آخری عوامی سرگرمی تھی۔ فاروق قیصر کی زندگی اور ان کے فن کے بارے میں ہم جتنی بات کریں، کم ہے۔ 50 برسوں پر پھیلے ان کے فنی منظرنامے پر جگہ جگہ ہمارا بچپن بکھرا پڑا ہے، ان کے رخصت ہونے سے ایسا محسوس ہو رہا ہے، جیسے وہ ہمارا بچپن بھی ساتھ لے گئے۔
دھیمے لہجے میں دلکش گفتگو کرنے والے کے ہاں کسی کے لیے شکوہ و شکایت نہیں تھی لیکن بطور انسان، دل کے نہاں خانوں میں سماجی ناانصافی، معاشرتی دکھوں کو رگِ جاں سے قریب محسوس کرتے تھے۔ کہیں ان کے اندر ذاتی دکھ بھی موجود تھے، جس کو خاص طور پر ان کی شاعری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کی لکھی ہوئی ایک غزل، ان کے باطنی احوال کو پیش کر رہی ہے اور ہماری اداسیوں کو بھی۔ ایک ایک کرکے ہمارے بچپن کے تمام چراغ گُل ہو رہے ہیں۔
بچوں سے کھیلتے ہو
بوڑھے جو ہوچکے ہو
نظریں چُرا رہے ہو
کیا تم بھی رو چکے ہو
باہر کیا ڈھونڈ رہے ہو
جو گھر میں کھو چکے ہو
آنکھیں کھلی ہوئی ہیں
لگتا ہے سو چکے ہو
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
تبصرے (7) بند ہیں