• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

تکینکی خامیوں کے باعث فلسطین سے متعلق پوسٹ حذف ہوئیں، ٹوئٹر و انسٹا گرام

شائع May 12, 2021
جنوبی افریقہ میں ایک شخص فلسطینیوں کی جبراً بے دخلی کے خلاف اھتجاج کررہا ہے—
جنوبی افریقہ میں ایک شخص فلسطینیوں کی جبراً بے دخلی کے خلاف اھتجاج کررہا ہے—

انسٹاگرام اور ٹوئٹر نے مقبوضہ بیت المقدس سے فلسطینیوں کے ممکنہ انخلا کے بارے میں پوسٹوں کو حذف کرنے کے معاملے میں کسی سازش کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے اسے تکنیکی خرابی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے دعوؤں کے باوجود انسانی حقوق کے گروپ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 'امتیازی سلوک' کا حامل الگوریتھم کام کررہا ہے جس کی وجہ سے زیادہ شفافیت درکار ہے۔

مزید پڑھیں: غزہ: حماس کے ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے، 9 بچوں سمیت 25 جاں بحق

شیخ جراح میں مقیم فلسطینیوں کی زمین پر یہودی آباد کاروں نے قبضہ کر لیا ہے جس کے بعد فلسطینیوں نے سوشل میڈیا پر احتجاج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ انہیں بے دخل کیا جا رہا ہے۔

تاہم اس احتجاج کے دوران بڑی تعداد میں فلسطینیوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی پوسٹس، تصاویر یا ویڈیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز انسٹا گرام اور ٹوئٹر سے ہٹا دی گئیں یا ان کے اکاؤنٹس کو پچھلے ہفتے بلاک کردیا گیا۔

شیخ جراح میں فلسطینیوں کو گھروں سے بے دخل کرنے کا قانونی معاملہ ایک عرصے سے چل رہا ہے تاہم اس معاملے میں حال ہی میں صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب پیر کو سیکڑوں فلسطینیوں پر اسرائیلی پولیس نے حملہ کر دیا۔

سوشل میڈیا پر توجہ مرکوز رکھنے والی غیرمنافع بخش تنظیم 7ایملے کو پیر تک شیخ جراح کے حوالے سے 200 سے زائد پوسٹس ڈیلیٹ یا اکاؤنٹس معطل ہونے کی شکایات موصول ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری، فلسطین کی موجودہ صورت حال پر اسرائیل کا احتساب کرے، سعودی عرب

7ایملے کی مشیر مونا شتایا نے کہا کہ انسٹاگرام پر زیادہ تر مواد کو ہٹا دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ پرانی اسٹوریز کی آرکائیو بھی ڈیلیٹ کردی جاتی ہیں، ٹوئٹر پر زیادہ تر معاملات اکاؤنٹ کی معطلی کے ہیں۔

انسٹاگرام اور ٹوئٹر نے اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اکاؤنٹس کو ہمارے خود کار نظاموں نے غلطی سے معطل کردیا اور اس مسئلے کو حل کر دیا گیا ہے جبکہ مواد کو بھی دوبارہ بحال کیا جا چکا ہے۔

انسٹاگرام نے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ ہفتے ایک خودکار اپ ڈیٹ ہوئی جس کی وجہ سے متعدد صارفین کی جانب سے شیئر کردہ مواد غائب ہو گیا جس میں شیخ جرح، کولمبیا، امریکا اور کینیڈا کی مقامی آبادی کی پوسٹس متاثر ہوئیں۔

انسٹاگرام نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ ایسا ہوا، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کولمبیا، مقبوضہ بیت المقدس اور دیگر مکتلف برادریوں کے بارے میں تھیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی آواز کو جان بوجھ کر دبایا گیا لیکن ہمارا ہرگز ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: 'یوم یروشلم' کے موقع پر اسرائیلی فورسز کے تازہ حملے، مزید درجنوں فلسطینی زخمی

لیکن 7 ایملے سمیت ڈیجیٹل حقوق کی مختلف تنظیموں نے اپنے بیان میں ٹوئٹر اور انسٹاگرام سے مطالبہ کیا کہ وہ شفاف اور مربوط اعتدال پسندی کی پالیسیاں اپنائیں۔

ڈیجیٹل حقوق کی تنظیم ایکسز ناؤ کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے پالیسی ایڈوائزر مروہ فتافتا نے کہا کہ ٹوئٹر اور انسٹاگرام صارفین کو گزشتہ ہفتے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے تھامسن رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ حل نہیں ہوا، ہم اس سینسرشپ پر وضاحت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اب خودکار نظام کی خرابیوں کو بطور عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔

متاثرہ افراد میں سے ایک ترکی میں مقیم 25 سالہ فلسطینی صحافی ہند خدری ہیں جنہوں نے گزشتہ جمعرات کو مشاہدہ کیا تھا کہ ان کے انسٹاگرام آرکائیوز سے شیخ جارح کے بارے میں کچھ پوسٹ لوڈ نہیں ہو رہی تھیں۔

ہند خدری نے کہا کہ میں نے اپنا فون اور اپنی وائی فائی کو دوبارہ شروع کیا لیکن اس کے باوجود کچھ فائدہ نہ ہوا اور انسٹاگرام بہت ہی سست تھا۔

جمعہ کی دوپہر تک ان کی کچھ پوسٹیں بحال ہوگئی تھیں لیکن کچھ اب بھی غائب ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے، ملالہ کا عالمی رہنماؤں سے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ

کچھ متاثرہ صارفین کو انسٹاگرام سے 'کمیونٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی' کے بارے میں پیغامات موصول ہوئے۔

شتایا نے کہا کہ 7ایملے کو ابھی بھی گمشدہ مواد کے بارے میں شکایات موصول ہو رہی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ حل ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہمیں ابھی تک رپورٹس موصول ہو رہی ہیں۔

ڈیٹا رائٹس گروپس نے کہا کہ تکنیکی خرابی نے خود کار طریقے سے الگوریتھم کے استعمال کی خامیوں کو عیاں کردیا ہے۔

الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن میں بین الاقوامی آزادی اظہار رائے کے ڈائریکٹر جلیان یارک نے کہا کہ کمپنیاں فلسطین جیسے ثقافتی سیاق و سباق پر اتنی توجہ نہیں دیتی ہیں جہاں بنیادی طور پر کم منافع ہوتا ہے لہٰذا انہوں نے بڑی منڈیوں میں مواد کو معتدل اور خودکاری کے نظام کو مؤثر بنانے کی بہت زیادہ کوششیں کیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں ایسا مواد جو انسٹاگرام ، فیس بک یا ٹویٹر کے معیارات کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے وہ خود کار ٹولز کے ذریعے زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024