اسپیکر اسمبلی نے انتخابی اصلاحات میں اپوزیشن کو شامل کرنے کیلئے کمیٹی قائم کردی
اسلام آباد: انتخابی اصلاحات سے متعلق خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اراکین نامزد کرنے کے لیے 7 ہفتوں کے انتظار کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے اپوزیشن کو معاملے میں شامل کرنے کے لیے وفاقی کابینہ کے اراکین پر مشتمل 5 رکنی 'کمیٹی' تشکیل دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ایک اعلامیے کے مطابق اسپیکر کی تشکیل کردہ 'پارلیمانی کمیٹی' میں وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر، وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ملک عامر ڈوگر شامل ہیں۔
اس اعلان کے فوراً بعد دو اہم اپوزیشن جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، نے اسپیکر کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ایوان کی منظوری کے بغیر کوئی کمیٹی تشکیل دینے کا حق اور اختیار نہیں ہے، انہیں اسپیکر کے ساتھ ساتھ حکمراں جماعت پی ٹی آئی اور اس کی حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'شاید اسپیکر کو قواعد کا پتا ہی نہیں ہے، انہیں ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، یہ پارلیمنٹ کا کام ہے، قائمہ کمیٹیوں کے علاوہ کوئی بھی کمیٹی ایوان کی منظوری سے تشکیل دی جاتی ہے'۔
مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کا انتخابی اصلاحات متعارف کروانے کا فیصلہ
شاہد خاقان عباسی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پہلے اپنے اصل ارادے ظاہر کرے اور انتخابی اصلاحات کے بارے میں ایوان کے فلور پر ایک پالیسی بیان دے تاکہ اراکین کو کوئی قانون سازی کرنے سے پہلے مکمل بحث و مباحثے کی اجازت ملے۔
شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر کے اس اقدام کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمیں اسپیکر کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی اعتماد نہیں ہے، وہ ہمارا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں'۔
انہوں نے پانچ رکنی وزرا کی کمیٹی کو پارلیمانی کمیٹی قرار دینے کے بارے میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے سرکاری ہینڈ آؤٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ 'جب اسمبلی کی طرف سے اس طرح کی کوئی قرارداد منظور نہیں کی گئی تو اسے پارلیمانی کمیٹی کیسے کہا جاسکتا ہے؟'
سیاسی انجینئرنگ
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے رابطہ کرنے پر اسپیکر کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کے ٹریک ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی معاملے پر اس پر اعتماد نہیں کرسکتے ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں حکومتی ارادوں پر شکوک شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'انتخابی اصلاحات کے اصل معاملات سیاسی جماعتوں کو بنانا اور توڑنا ہیں، ماضی میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) جیسے سیاسی اتحاد کو زبردستی بنانا، لوگوں کا مینڈیٹ چوری کرنا اور آخر کار جوڑ توڑ کے ذریعے ان لوگوں کا پیچھا کیا گیا تھا'۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 'عمران خان کی منتخب اور ہائبرڈ حکومت خود سیاسی انجینئرنگ اور ہیرا پھیری کی پیداوار ہے اور اس وجہ سے ان امور کو حل کرنے سے قاصر ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'پی ٹی آئی کی حکومت اپوزیشن کو اس بحث میں کسی بھی طرح شامل کرنے میں سنجیدہ نہیں تھی'۔
یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات کیلئے پارلیمانی رہنماؤں کو مراسلہ ارسال
انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ 'بات چیت کی پیشکش صرف دکھاوے کے لیے ہے، پی پی پی اس کو مسترد کرتی ہے'۔
اس سے قبل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے ایک ہینڈ آؤٹ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اسپیکر نے انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور اپوزیشن کا اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے پانچ رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اسپیکر اسمبلی کو پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل سے انتخابی اصلاحات کا کام شروع کرنے کے بارے میں خط کے بعد انہوں نے یہ کمیٹی تشکیل دی۔
اسپیکر نے ایک مختصر بیان میں ریمارکس دیے کہ انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات ضروری ہیں۔
انہوں نے یہ کہا کہ آئندہ انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کے عمل کو مکمل کرنے سے شفافیت اور انصاف پسندی کو یقینی بنایا جائے گا۔
18 مارچ کو اسپیکر نے تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو خطوط ارسال کیے تھے جن میں انتخابی اصلاحات کے معاملے پر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے اراکین نامزد کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: حکومت کی انتخابی اصلاحات پر پھر اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت
خط میں کہا گیا تھا کہ یہ کمیٹی 'وزیر اعظم کے ایجنڈے کے تحت پاکستان میں جمہوریت کے مفاد میں ایک قابل اعتماد اور شفاف انتخابی نظام کے قیام اور بدعنوانیوں کو ختم کرتے ہوئے پارلیمانی جمہوریت اور ہر سطح پر شفاف، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے قائم کی جارہی ہے'۔
تاہم اپوزیشن کی جماعتوں نے اسپیکر کے خط کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
یکم اپریل کو اپوزیشن نے اسپیکر کو انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا اختیار دینے کے لیے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کے حکومتی اقدام مں رکاوٹ ڈالی تھی۔