سفارتخانوں کا سمندر پار پاکستانیوں سے نو آبادیاتی دور والا رویہ ناقابل قبول ہے، وزیر اعظم
وزیر اعظم عمران خان نے دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں میں پاکستانیوں سے خراب رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انگریزوں کا پرانا نو آبادیاتی نظام تو اس طرح چل سکتا ہے لیکن موجودہ پاکستان میں یہ نظام نہیں چل سکتا۔
دنیا بھر میں تعینات پاکستانی سفرا سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے میں اس جانب اتنی توجہ نہیں دے سکا جتنی مجھے دینی چاہیے تھی۔
مزید پڑھیں: ’وزارت سمندر پار پاکستانی کو ناکام ڈویژن سے کامیاب محکمہ بنادیا‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اقتدار میں آنے کے بعد وزارت خارجہ کو رہنمائی بھی دی کہ ہم نے سمند پار پاکستانیوں کے لیے کیا کیا چیزیں کرنی ہیں کیونکہ وہ ہماری سب سے بڑی طاقت ہیں اور ان کی وجہ سے ہی پاکستان اب تک چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی وجہ سے ہی ہمارا ملک اب تک دیوالیہ نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں انگلینڈ میں کھیلنے کے لیے گیا تھا اس لیے مجھے انداز ہے کہ ہمارے سفارتخانوں کا رویہ کیا ہوتا ہے لہٰذا جب میں وزیراعظم بنا تو سب سے بڑی خواہش تھی کہ ہمارے سفارتخانوں میں سمندر پار پاکستانیوں سے روا رکھے جانے والا رویہ بدلے۔
انہوں نے کہا کہ پڑھے لکھے اور پوش لوگوں سے ہمارے سفارتخانوں کا رویہ اچھا رہتا ہے لیکن نچلے طبقے کو ہمیشہ بڑے مسائل کا سامنا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اتنے قرضوں کے باوجود معاشی اشاریے مثبت ہونا معجزہ ہے، وزیراعظم
وزیر اعظم نے کہا کہ 70 اور 80 کی دہائی میں انگلینڈ میں ہمارے سفیروں اور سفارتخانے کے عملے کا مزدور طبقے سے رویہ بہت خراب ہوتا تھا، مزدور کی توقعات تو اپنی سفارتخانے سے ہی وابستہ ہوتی تھیں لیکن کچھ سفیروں اور اہلکاروں کا نوآبادیاتی دور والا رویہ ہوتا تھا لیکن اب سفارتخانوں میں یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے سعودی عرب سے شکایات آنا شروع ہوئیں، ڈیڑھ سال سے ہمارے محنت کش لوگوں کی شکایات آ رہی تھیں کہ سفارتخانہ کوئی جواب نہیں دیتا اور اس کے بعد ایک دو واقعات ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا جن پاکستانیوں سے زیادہ رابطہ رہا ہے ان سے میں نے کہا کہ مجھے سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کے حوالے سے رائے دیں تو انہوں نے جو رائے دی اس سے بہت بڑا دھچکا لگا کہ عوام کی کوئی پرواہ نہیں، کوئی سروسز فراہم نہیں کی جا رہیں جبکہ ہمارے سٹیزن پورٹل پر بھی شکایات دیکھیں جو بالکل یکساں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ شکایات اس بات کی شاہد ہیں کہ ہمارے سفارتخانے اپنے سمندر پار پاکستانیوں سے نوآبادیاتی دور والا رویہ اپناتے ہیں لیکن میں بتا دوں کہ اس طرح ہم نہیں چل سکتے۔
مزید پڑھیں: سمندرپار پاکستانیوں کے لیے اسکیمیں: ماضی اور آج میں کیا فرق ہے؟
عمران خان نے کہا کہ انگریزوں کا پرانا نوآبادیاتی نظام تو اس طرح چل سکتا ہے لیکن موجودہ پاکستان میں یہ نظام نہیں چل سکتا، سفارتخانے کا کام اپنے لوگوں کو سروسز فراہم کرنا ہے اور اس کے بعد ان کی پوری کوشش اپنے ملک میں سرمایہ لانے کی ہونی چاہیے۔
اس موقع پر وزیراعظم نے بھارتی سفارتخانے کے عملے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے برعکس بھارت کے سفارتخانے اپنے ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لیے بہت زیادہ متحرک ہیں۔
اس موقع پر وزیراعظم نے سٹیزن پورٹل پر سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے درج کرائی گئی شکایات بھی پڑھ کر سنائیں جس کے مطابق روزمرہ امور التوا کا شکار ہوتے ہیں، دیے گئے وقت پر کام نہیں کرتے، عملے کا خراب رویہ، عوامی شکایات کے حوالے سے اعلیٰ سطح سے کوئی نگرانی نہیں، شکایات کے ازالے کے لیے غیرسنجیدہ رویہ شامل ہے۔
انہوں نے سفارتخانوں میں سمندر پار پاکستانیوں کو درپیش مسائل کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مستقل نشاندہی کے باوجود ان کے مستقل حل کے لیے کوئی پالیسی اقدامات نہیں کیے گئے، سفارتخانوں کے پاس مواصلات کے لیے کوئی نظام نہیں ہے، عملے کے رویے کی نگرانی کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
اس موقع پر عمران خان نے عوام کی جانب سے سٹیزن پورٹل پر کی گئی کچھ شکایات بھی باضابطہ طور پر پڑھ کر سنائیں۔
یہ بھی پڑھیں: ضمنی انتخابات: سمندر پار پاکستانیوں کا ایک ووٹ 15 ہزار کا پڑا
انہوں نے ایک شکایات پڑھی جس میں کہا گیا کہ کویت میں نادرا کے دفتر کا عملہ لوگوں کی درست رہنمائی کرنے کے بجائے غیرقانونی دستاویزات بنانے کے لیے 250 سے 500 درھم لے رہا ہے اور سفارتخانہ اس کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے کہہ رہا ہے کہ نادرا دستاویزات ہیڈ کوارٹر میں بنتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستانی سفارتخانوں کی جانب سے شکایات کے ازالے کی بجائے روایتی جواب دیا جاتا ہے لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے سفیروں کا رویہ بہتر رہے لیکن بدقسمتی سے پاکستانی سفارتخانوں کا اپنے شہریوں سے رویہ ناروا ہوتا ہے، عوامی شکایات کے ازالہ کیلئے سفارتخانوں میں کوئی نظام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ شکایات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے موصول ہوئیں جہاں سے پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلات زر آتی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ سعودی عرب میں جو ہوا اس پر بہت دھچکا لگا ہے اور ابھی اس بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں تو مزید چیزیں بھی سامنے آئیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے کی واضح نگرانی ہو، شاہ محمود قریشی آپ کے نیچے کوئی آدمی ہونا چاہیے جو اس معاملے کا فیڈبیک لے اور ہم کارروائی کے لیے سٹیزن پورٹل سے آنے والی تمام شکایات آپ کو بھجوائیں۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا سمندر پار پاکستانیوں کی رجسٹریشن کا حکم
انہوں نے قیدیوں کے معاملے کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غیرملکی جیلوں میں موجود ہمارے لوگوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے، ہم اس کے لیے فنڈ بنانے کے لیے تیار ہیں اور جتنے پر چھوٹے موٹے جرمانے ہیں، تو ہم ان کے جرمانے ادا کر سکتے ہیں۔
وزیر اعظم نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ کسی سفارتخانے سے زیادہ رقم غیرملکی سرمایہ کاری کی مد میں آ رہی ہے اور کون زیادہ متحرک طریقے سے کام کررہا ہے۔