آئی ایم ایف کی شرائط بہت سخت ہیں، نرمی کیلئے زور دیا جارہا ہے، وزیر خزانہ
اسلام آباد: وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ استحکام، پاکستان کی معیشت کے لیے سستا نہیں رہا جِسے اب زیادہ نمو کی جانب رفتار پکڑنی چاہیے اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو شرائط خصوصاً توانائی کی قیمتوں میں اضافے کو نرم کرنے کے لیے قائل کیا جائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سامنے بیان دیتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ توانائی کی بلند قیمتیں بدعنوانی کا باعث اور معاشی نمو کو متاثر کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جن شرائط پر اتفاق کیا گیا وہ بہت سخت ہیں، ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ حکومت گردشی قرض کم کرنے کے لیے متبادل اقدامات اٹھائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: گردشی قرضے میں کمی کے ہدف کا حصول معدوم ہونے لگا
اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹیکسز میں اضافے کے بجائے ٹیکس بیس کو وسعت دی جائے گی اور اعتراف بھی کیا کہ سرکاری ملکیت کے وہ ادارے جنہیں حکومت پبلک سیکٹر میں چلا نہیں پارہی ان کی نجکاری کردی جائے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر سے متاثر ہونے کے بعد آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے ہمدردانہ رویہ رکھنے کے لیے قائل کیا جارہا ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ جب تک ملک زیادہ معاشی نمو کی طرف نہیں جاتا، کچھ بھی بہتر نہیں ہوگا اور اگر ہم استحکام کو جاری رکھتے ہیں جو دو سالوں سے جاری ہے تو نہ ریونیو میں اضافہ ہوگا، نہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے اور نہ ہی معیشت کی پیداواری صلاحیت بہتر ہوسکتی ہے۔
وزیر خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک، سال 2019 سے استحکام کے دور میں ہے لیکن اگر حکومت نے یہی پالیسی جاری رکھی تو یہ مزید مستحکم نہیں رہ سکے گا اور آئندہ 2 سالوں میں کوئی معاشی نمو نہیں ہوگی۔
مزید پڑھیں: ایف بی آر کو اپریل میں ہدف سے 34 ارب روپے اضافی ٹیکس وصول
انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ تمام صوبوں کو نمو کے یکساں مواقع مل سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشی نمو نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں اور اس میں سے ایک پاور سیکٹر میں صلاحیت پیدا کرنے کی ادائیگیاں ہیں، حتیٰ کہ آئندہ برس 4 سے 5 فیصد نمو بھی کافی نہیں رہے گی۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ اعلیٰ معاشی نمو کی طرف بڑھنے اور رفتار کو بدلنے کے لیے حکمت عملی تیار کی جاچکی ہے، انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بلند پالیسی ریٹ پر تنقید کی اور کہا کہ ماضی میں پالیسی ریٹ 13.25 فیصد رکھنا غلطی تھی۔
شوکت ترین گزشتہ ماہ وزیر خزانہ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ قائمہ کمیٹی میں پیش ہوئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو یہ بات سمجھائی جانی چاہیے تھی کہ وبائی صحت کے تناظر میں دنیا مالی اور مانیٹری پرس کھو رہی ہے لیکن پاکستان کو اب بھی ان سخت شرائط کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ کم کرنے سے متعلق درخواست سماعت کیلئے مقرر
انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ حکومت کی جانب سے عالمی وبا کے پیش نظر ہمدردانہ رویہ رکھنے کی درخواست کے بعد آئی ایم ایف اسٹاف پاکستان کی پوزیشن کو سمجھے گا۔
کمیٹی کو انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چونکہ چین نے ملک بھر سے کارکنوں کو ملازمت فراہم کی تھی، اس لیے اس سے اپنی صنعتوں میں ایک کروڑ پاکستانیوں کو ملازمت دینے کی درخواست کی جائے گی۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی رہنما ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے وزیر خزانہ کی بریفنگ کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ مثبت تبدیلی تھی جو شاید نظام میں امید پیدا کرے۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ چیلنجنگ تھا لیکن ملک کو سخت شرائط سے نکلنے اور بجٹ کی حکمت عملی کی دستاویزات پر دوبارہ غور کرنا پڑا۔