• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

چاہے جتنی قانون سازی کرلیں، اسٹیبلشمنٹ کے کردار تک انتخابات متنازع رہیں گے، بلاول

شائع May 3, 2021 اپ ڈیٹ May 4, 2021
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاھات ضروری ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاھات ضروری ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات بہت ضروری ہیں اور اگر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا فعال کردار ہے تو پھر ہم چاہے جتنی بھی قانون سازی کر لیں، انتخابات متنازع رہیں گے۔

کراچی میں بے نظیر مزدور کارڈ کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مزدور تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہوں یا پھر گھروں میں کام کررہے ہوں، اگر آپ مزدور کارڈ میں رجسٹر ہوں گے تو ان کو بے نظیر مزدور کارڈ ملے گا اور وہ انہی سہولیات سے استفادہ کر سکیں گے جو اب تک صنعتی مزدوروں تک محدود رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: مزے کی بات یہ ہےکہ انتخابی دھاندلی پر سب خاموش رہتے ہیں

انہوں نے کہا کہ بے نظیر مزدور کارڈ ایک انقلابی قدم ہے اور پورے پاکستان میں مزدوروں کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور لیبر پالیسی کے سلسلے میں بہت بڑا قدم اٹھایا گیا ہے اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں کیونکہ ہمارے نظریے اور منشور کے مطابق جب مزدور خوشحال ہو گا تو ہی ہماری صنعت اور معیشت خوشحال ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ بے نظیر مزدور کارڈ سے ہم مزدوروں کو صحت اور علاج کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنا سکیں گے، زچگی کے دوران بھی یہ کارڈ قابل استعمال ہو گا، حادثے میں موت ہوتی ہے تو امدادی رقم فراہم کی جائے گی اور اس کے علاوہ بھی کئی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خواب ہے کہ بے نظیر مزدور کارڈ کو ہر مزدور کے ہاتھ میں پہنچا دیں تاکہ ہم سماجی تحفظ کی سوچ کی جانب بڑھ سکیں جو پیپلز پارٹی کے منشور کا اہم حصہ ہے۔

بلاول نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اس ملک کی خواتین کے لیے انقلابی قدم شروع کیا گیا تھا اور بے نظیر مزدور کارڈ سے ہم پاکستان کے مزدوروں کے لیے انقلابی قدم کا آغاز کررہے ہیں اور اس سے ہم ذوالفقار علی بھٹو کی لیبر پالیسی کو آگے لے کر چلیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا انتخابی اصلاحات متعارف کروانے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ ای او بی آئی کا ورکرز ویلفیئر فنڈز کے اختیارات کی منتقلی کو 18ویں ترمیم کے مطابق 2015 تک منتقل ہو جانا چاہیے تھے لیکن یہ نہیں ہوا، لہٰذا ہم مطالبہ دہراتے ہیں کہ ای او بی آئی ورکرز ویلفیئر فنڈز کے اختیارات فی الفور صوبے کو دیے جائیں تاکہ صوبے اپنے مزدوروں کے لیے زیادہ کام کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر 6 لاکھ صنعتی مزدوروں کو یہ کارڈ دیے جائیں گے اور ان کی رجسٹریشن کا عمل الیکٹرانک ہو گا لہٰذا جو مزدور ابھی تک صنعتوں میں رجسٹر نہیں ہیں وہ خود کو رجسٹر کرائیں تاکہ اس سے استفادہ کر سکیں۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے مزدوروں کی رجسٹریشن کے عمل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت نادرا کے دفاتر میں کاؤنٹر موجود ہیں لیکن تعداد بڑھنے کے بعد بڑی صنعتوں میں بھی کاؤنٹر بنائیں گے تاکہ وہاں کے مزدور بھی خود کو رجسٹر کرا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈیمانڈ بڑھنے کے ساتھ موبائل سینٹرز بھی بنیں گے اور گاڑیاں مختلف علاقوں میں جا کر لوگوں کی اسی طرح رجسٹریشن کریں گی جیسے نادرا کی گاڑیاں کرتی ہیں اور نادرا کے کارڈز کی طرز پر ہی کارڈ بنائیں گے۔

مزید پڑھیں: ڈسکہ سے کراچی، انتخابی نااہلی کی طویل داستان

ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی مسلسل انتخابی اصلاحات پر کام کرتی آ رہی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ 2018 اور اس سے قبل جو دھاندلی کی گئی، ایسا دوبارہ ہو اور اس کے لیے اصلاحات کرنی پڑیں گی جس کے لیے ہم تیار ہیں جبکہ الیکشن کمیشن اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ حکومت کے مؤقف کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا اور یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ دھاندلی کرنے والے کے ساتھ بیٹھ کر دھاندلی کو روکیں، اس سلسلے میں قانون سازی اور اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی روکنے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی نکتہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے اور اگر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا فعال کردار ہے تو پھر ہم چاہے جتنی بھی قانون سازی کر لیں، انتخابات متنازع رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اسٹیشلشمنٹ کو انتخابات سے دور رکھ سکتے ہیں، ان کا رویہ غیرجانبدار رہتا ہے تو پھر انتخابی اصلاحات کا بھی فائدہ ہو گا اور الیکشن میں دھاندلی بھی کم ہو گی۔

بلاول نے کہا کہ آپ سب نے دیکھا کہ این اے-249 کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی فعال کردار نہیں رہا تو ہم یہی چاہیں گے کہ اس اتفاق رائے کے ساتھ اصلاحات ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست اور انتخابی اصلاحات میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تشکیل کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو اگر انتخابات پر کوئی اعتراض ہے تو آپ کے پاس فورم دستیاب ہے، یہ ان کا حق ہے کہ اگر ان کے پاس کسی گڑبڑ کا کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو وہ الیکشن کمیشن سے ضرور امید رکھیں اور فوج سے اپیل نہ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) ایک سیٹ ہار کر فوج سے انتخابی عمل میں مداخلت کی اپیل نہ کرے، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر فوج کا الیکشن میں کردار ہو تو یہ انتخابی عمل کے لیے نقصان دہ ہے جیسے کہ 2018 کے انتخابات میں پاکستان کے ہر پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوج تعینات تھی اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوج اسی انتخابات میں تعینات کی گئی تھی۔

بلاول نے کہا کہ 2008 اور 2013 میں جب دہشت گردی عروج پر تھی تو اس وقت فوج تعینات نہیں کی گئی تھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے ناصرف الیکشن متنازع ہوتے ہیں بلکہ پاکستان کی فوج بھی بلاوجہ متنازع ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مسلم لیگ (ن) کی جانب سے فوج سے کی گئی اپیل کے مطالبے کا ہرگز ساتھ نہیں دیتے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے غیر ذمے دارانہ مطالبہ ہے کہ پولنگ باکسز کو فوج کی تحویل میں دیا جائے، ہم اس مطالبے کی حمایت نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی انتخابی اصلاحات کیلئے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کا واقعہ جس دن پیش آیا، اس دن ہمارے انتخابات چل رہے تھے، وہاں کام کو روکا جا چکا ہے اور مجھے اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ کی رپورٹ کا انتظار ہے۔

بلاول کی مزدور رہنماؤں سے ملاقات

پریس کانفرنس سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلاول ہاؤس میں مزدور رہنماؤں سے ملاقات کی، ملاقات کے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وزیر محنت سعید غنی اور وزیر اطلاعات ناصر شاہ بھی موجود تھے۔

ملاقات میں مزدور رہنماؤں نے ملک میں موجودہ مہنگائی کے تناظر میں مزدوروں کے حالات پر بریفنگ دی اور سندھ حکومت کی جانب سے بے نظیر مزدور کارڈ کے اجرا کے عمل کو سراہا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024