پردیس سے دیس: کیا مالک مکان ایسے بھی ہوتے ہیں؟ (تیسری قسط)
گزشتہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط
اپنی غلطیوں کا اعتراف انتہائی مشکل مرحلہ ہے خصوصاً تب جب آپ ان کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہوں۔ ایسے حالات میں یہ خاصا تکلیف دہ ہے کہ ان کو دہرایا جائے یا ان پر بات کی جائے۔ کچھ غلطیوں سے ہم آگاہ تھے، مگر حالات و واقعات کے ہاتھوں انہیں کرنے پر مجبور تھے۔ کچھ کے بارے میں شک تھا کہ شاید غلطی ہے اور کچھ کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ اس قدر بڑی غلطی ثابت ہوگی۔
ہمارے مالک مکان امریکا میں رہائش پذیر تھے اور ان کے ڈیلر کے بقول ‘بہت بڑے’ لوگ تھے بلکہ یہ ’بڑے لوگ’ کا سبق وہ ہمیں اتنی بار سُنا چکے تھے کہ ہم سوچنے لگے تھے کہ شاید کوئی 50 فٹ قد ہوگا اور 40 فٹ کی چوڑائی ہوگی۔ گھر میں ساری فٹنگ امپورٹڈ سامان کی ہے وہ یہ بات ہزاروں بار ہمیں بتا چکے تھے۔ مگر جس دراز اور جس ہینڈل کو بھی ہاتھ لگاتے وہ اکھڑ جاتی، فنشنگ کی غیر معیاری صورتحال ہم صبح و شام دیکھ رہے تھے مگر ڈیلر کی لمبی چوڑی باتیں سننے پر مجبور تھے۔
مکان کے پارٹیشن کا ابھی تک ذکر ہی نہیں چھیڑا گیا تھا بلکہ ہمیں آمادہ کرنے کی کوشش ہو رہی تھی کہ گھر کا داخلی حصہ تنگ ہوجائے گا، اس لیے ایسے ہی گزارا کرلیں۔ گھر کی ٹونٹیوں سے پانی انتہائی کم نکلتا تھا۔ میاں صاحب واپس ابوظہبی جاچکے تھے اور دوسرے یا تیسرے روز ان کی غیر موجودگی میں مالک مکان کے بھائی صاحب ٹونٹیاں چیک کروانے آئے تو صوفے پر پھیل کر بیٹھ گئے۔ ان کو مسائل بتا کر بڑی مشکل سے اٹھا کر واپس بھیجا اور ساتھ ہی ان کے ملازم کو بتایا کہ ٹونٹیاں ٹھیک کروانے کے لیے بندے کے ساتھ ملازم آئے، بھائی صاحب کی تشریف آوری کی ضرورت نہیں۔
مگر اگلے دن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ بھائی صاحب خراماں خراماں پلمبر کے ساتھ ہمارے گھر کے بیچ میں لاؤنج کے دروازے تک آگئے۔ ان کو نرمی سے کہا کہ میں یہ کام کروا لوں گی آپ جائیں، تو بھائی صاحب بضد ہوگئے کہ نہیں وہ کروا کر ہی جائیں گے۔ ان کے بقول میں کہاں اکیلی عورت یہ کام کروا سکوں گی۔ میں اپنے گھر میں ایک ملازم سے ڈر کر دوسرے بندے کو داخل کرلیتی اب اتنی بے وقوف نہیں تھی۔ عزت سے ایک دو بار منع کرنے پر نہ مانے تو میری بس ہوگئی۔
میں کمزور عورت، اکیلی عورت کے نام پر کسی بھائی بہن کا رشتہ پالنے کے قطعی حق میں نہیں تھی۔ چنانچہ جہاں میری بس ہوئی وہاں بات میرے اختیار سے نکل گئی۔ ہاؤسنگ کالونی کے ملازم کے سامنے میں نے ان بھائی صاحب کے خوب لتے لے لیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے دن گھر خالی کرنے کا نوٹس پہنچ گیا۔ یعنی ہم مکمل طور پر استحصال کی زد میں تھے۔
اس موقع پر میرے پاس بس 3 آپشن تھے،
- یا تو بھائی بہن کے چکر میں غیر ضروری تعلق داریاں پالتی،
- کمزور بن کر مسکراتے ہوئے مردوں کو بھائی بنا کر سہارا لیتی،
- یا پھر کرائے کا گھر خالی کرتی۔
یہاں سے وہ ذلالت شروع ہوئی کہ جس نے اگلے کئی دن تک میری رگوں سے تمام تر خون نچوڑ کر رکھ دیا۔ ہمارا سارا کنٹینر کا سامان کھل کر لگ چکا تھا، فرنیچر جڑچکا تھا، جگہ کے حساب سے نئی شاپنگ ہوچکی تھی، اے سی کے سنبھالے پیسے خرچ ہوچکے تھے، اور کھڑکیوں کے سائز کے پردے بن کر لگ چکے تھے۔
ڈیلر، 'بہت بڑے' مالک مکان اور ان کے بھائی نے صبح و شام وہ سیاست چلائی کہ میں چکرا کر رہ گئی۔ بقول ڈیلر چونکہ بڑی بیگم صاحبہ کے بھائی کی بے عزتی ہوئی ہے اس لیے وہ مان کر نہیں دے رہی۔ بقول ڈیلر وہ بڑے لوگوں کو منانے کی مسلسل کوشش کررہا تھا مگر روز صبح شام 'گھر چھوڑ دو، گھر چھوڑ دو' رہنے لگی۔
ہم آدھے گھر میں نہ سیٹ ہو پا رہے تھے نہ چھوڑ پارہے تھے۔ بھاری خرچہ کرچکے تھے، اب نئے سرے سے گھر ڈھونڈنا مشکل تھا، میاں صاحب واپس جاچکے تھے، کرنے کرانے والی میں اکیلی تھی اور ان حالات میں پورے گھر کا سامان دوبارہ اٹھا کر لے جانا بھی مشکل تھا۔ پھر اس قدر خرچہ ہوچکا تھا کہ اب مزید خرچ کرنے کی گنجائش تک نہیں بچی تھی۔ گھر کا 3 ماہ کا کرایہ اور سیکیورٹی سب دے چکے تھے۔ 75 ہزار کا کرایہ دینے کے 10 دن بعد بھی ہم ڈھنگ سے گھر سیٹ نہیں کرسکے تھے۔ لاؤنج سے باہر لابی کی سیڑھیوں کے سامنے والے الگ تھلگ ماسٹر بیڈ روم میں سامان رکھ کر اسے بند کردیا گیا تھا اور ہم 3 لوگ گھر کا پورا کرایہ دے کر بھی ابھی تک ایک کمرے کو اندر سے بند کیے، کنڈیاں لگا کر سونے پر مجبور تھے۔
ہم خود اوورسیز تھے، میں نے پردیسیوں کے خلوص اور مسائل پر کئی کالم لکھے تھے۔ جب لوگ اوورسیز سے خائف ہوتے تو میں ان کی حمایت میں تقریریں کرتی۔ مگر اب خود ایک اوورسیز فیملی میرے گلے پڑی تو جانا انسان کے پاس اختیار اور پیسے کی طاقت آجائے تو وہ کس قدر ظالم ہوسکتا ہے۔ کس قدر بے رحم، خود غرض اور ظالم ہوسکتا ہے۔ میں نے سوچا کہ امریکا میں یہی لوگ کیسے تمیز اور اخلاق سے رہتے ہوں گے، کسی کو غلطی سے کندھا بھی لگتا ہوگا تو پلٹ کر سوری کرتے ہوں گے۔
اپنے ہم وطنوں کے لیے کتنے بڑے لوگ ہوں گے اور یہاں پاکستان میں جہاں ہم خود اوورسیز ہوکر صرف اس لیے استحصال کا شکار ہو رہے ہیں کہ جس گھر کو پیسے دے کر ہم نے کرائے پر لیا ہے وہ ان کی ملکیت ہے۔ انہی کا ملک امریکا یا ہمارا ابوظہبی ہوتا تو اس حرکت پر ان کو جیل ہوجاتی۔ مگر یہ پاکستان ہے، جہاں انصاف کا قانوں موجود نہ ہو، وہاں خود کا بنایا ہوا قانون موجود ہوتا ہے۔
اسی دوران ایک اور زحمت ہماری زندگیوں میں آ ٹپکی۔ گھر شفٹنگ کے پہلے ہی دن جب یہ سب ہو رہا تھا تو ہمارے ایک قریبی عزیز وادی کاغان کی سیر کو جاتے جاتے ہمارے گھر ٹھہرے۔ ایک ایسے وقت جب ہمارے گھر ابھی گروسری بھی نہیں آئی تھی اور کھانا بھی دوست کے گھر سے بھیجا جا رہا تھا۔ 3 سے 4 دن بعد جب ان کی واپسی ہوئی تو انہوں نے گیٹ پر مالک مکان کے چھوٹے بھائی صاحب کا چیخنا چلانا دیکھا جو وہ مجھ سے عزت افزائی کرنے کے بعد نیچے کر رہے تھے۔
ساتھ ہی اس قیام کے دوران انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ گھر ون یونٹ ہے، ہمارے پاس تالے لگانے کا کوئی سسٹم نہیں ہے، اور اوپر سرونٹ کوارٹر میں جو عملاً ہماری تحویل میں تھا وہاں کوئی چوکیدار سو رہا ہے۔ ہمیں چونکہ شفٹ ہوئے ابھی ہفتہ ہی ہوا تھا تو ابھی چیزیں سیٹنگ کے مراحل میں تھیں۔ وہ عزیز جو کئی بار ابوظہبی ہمارے مہمان بن چکے تھے اور ہمارے دل کے خاصے قریب تھے، واپس آبائی شہر پہنچ کر ہمارے والدین کی خدمت میں پہنچے اور نہ جانے کیا کیا گپ بازی کی کہ اگلے کئی ماہ تک ہمارا جینا حرام ہوگیا۔
ہمیں امّاں ابّا کے فون پر فون آنے لگے، ہم پر اور ہمارے فیصلوں پر اعتراضات آنے لگے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ میاں صاحب ابوظہبی میں تھے اور میں 2 بچوں کے ساتھ اس شہر میں اکیلی تھی، اور اپنے آس پاس کے حالات سے لڑ رہی تھی، ایسے حالات میں ہمارے خاندان والے ہمیں تکلیف دینے والوں میں شامل ہوگئے۔
کئی دن کے ذہنی دباؤ اور کوفت میں مبتلا رہ کر بالآخر ایک دن میں نے میاں کو فیصلہ سُنا دیا کہ میں مالک مکان پر مزید اعتماد نہیں کرسکتی۔ وہ ہاں کریں یا ناں، مگر مجھے مزید اس گھر میں نہیں رہنا جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
اگلے کچھ دن میں نے بچوں کو ان عزیزوں کے گھر چھوڑا جن کی دھوپ کو بھی سایہ سمجھتے تھے اور دوبارہ سے ڈرائیور کے ساتھ تنہا کرائے کے گھر کی تلاش میں نکلی۔ میں ایک ایسے شہر میں تھی جہاں سوائے میرے منہ بولے سوشل میڈیائی دوستوں کے اور کوئی اصل عزیز اور دوست موجود نہیں تھا۔
گھر کی تلاش میں نکلتے وقت میرے دماغ میں یہ خیال بیٹھ چکا تھا کہ اب مجھے اس ہاؤسنگ اسکیم سے نکل کر دوسرے رہائشی علاقے میں منتقل ہونا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہاں ویسا کوئی نیا پورشن دستیاب نہیں تھا جیسا مجھے چاہیے تھا، دوسرا یہاں کے لوگوں اور ان کے رویوں پر سے میرا اعتبار اٹھ گیا تھا۔
جس عزیز فیملی کے بھروسے یہاں شفٹ ہوئے، مشکل حالات میں ان کی مکمل خاموشی نے ان کی موجودگی کی ضرورت سے ہمیں بے نیاز کردیا تھا۔ ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ پہلے کرائے کے گھر کے چکر میں ذلیل کرنے والا ڈیلر یہاں کی انتظامی کمیٹی کا ممبر بھی تھا اور اس اسکیم میں رہتے کئی طرح کے مواقع پر اس کا محتاج ہونا پڑتا جو میں قطعی نہیں چاہتی تھی۔ سو اس بار میں گھر کی تلاش میں دوسری طرف فوجیوں کے مقبول ترین علاقے کی طرف نکلی۔
ڈرائیور کے ساتھ اکیلے مختلف 7 گھروں کے چکر لگے تو عجیب حال دیکھا۔ لوگ ڈیل یوں کرتے تھے جیسے احسان کرتے ہوں اور کرایہ یوں مانگتے جیسے بھتہ مانگ رہے ہوں۔ ایک صاحب گیراج میں قمیض اتارے گاڑی دھو رہے تھے ویسے ہی ہمیں بیچ میں سے گزر کر اندر بیگم تک جانے کو کہہ دیا۔ انہیں قمیض پہننے کی درخواست ہمیں خود کرنی پڑی تاکہ ہم عزت سے گزر سکیں۔ لوگ اپنے دگرگوں حالت کے شکار گھر دکھاتے اور اپنے بڑی بڑی شرائط بتاتے اور ہمارے حقوق سے مکمل روگردانی کرتے۔
اچھے خاصے ادارے کے پڑھے لکھے لگتے ایک نوجوان نے ہمیں فرسٹ فلور دکھایا جہاں تک پہنچنے کے لیے سرونٹ کوارٹر کی طرح کا ایک باریک سا لوہے کا زینہ بنایا گیا تھا، اور وہاں چڑھتے ہوئے ایک گھر کے بجائے چوبارے کا تصور ابھرتا اور کرایہ 70 ہزار۔
جب ہم نے داخلی دروازے کی تنگی کا کہا تو انتہائی دھونس اور بدتمیزی سے گویا ہوئے کہ 'ایسا ہی ہے، لینا ہے تو لے لیں ورنہ جائیں'۔ ہم حیرت سے اس کے لہجے اور صورت کی طرف دیکھتے رہ گئے کہ شکل صورت سے تو آپ معقول پڑھے لکھے دکھتے تھے مگر حیرت ہے کہ آپ کو سرِ عام ایسی دھونس اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے کسی قسم کی شرم کا بھی احساس نہیں ہوتا۔
ایک علاقے میں ایک بہت ہی عزت مآب گھرانے کے ہاں ایک ایسا فلور ہمیں دکھایا گیا جس میں میڈ روم ایک غلیظ ڈربے سے بھی کمتر تھا اور حیرت انگیز طور پر دکھانے والوں کو اس میں کسی خفت کا سامنا بھی نہیں تھا۔ ہم اپنے موجودہ ملازمین کو انسان ہی سمجھتے تھے اور ایسی جگہ پر ان کو نہیں رکھ سکتے تھے جسے دیکھ کر ہم خود ابکائی کر بیٹھتے۔ چنانچہ حیلے بہانے سے نکل آنے کے سوا اور کوئی بھی صورت نہیں تھی۔
ایسے میں پوری سہ پہر جولائی کی گرمی میں در در پھرتے ہمیں اس ظلمت میں ایک فرشتہ صورت دکھائی دی۔ ایک خاتون جو ہمیں گھر کی بیسمنٹ دکھانے آئیں، مگر فلور دکھانے سے پہلے ہمیں اتنی توجہ اور اصرار سے دھکیل کے اندر لے گئیں کہ باہر اتنی گرمی ہے پانی تو پی لیں۔ ہماری پور پور سے ان کے لیے دعا نکلی۔
پورا دن نوابوں کے اس شہر اور نوابی بستی میں کسی نواب یا بیگم صاحبہ نے کوئی مہربان لفظ تک نہیں بولا تھا، پانی تو بہت دُور کی بات تھی۔ ان خاتون کا ہم نے نمبر لیا کہ ان سے پھر رابطے میں رہیں گے۔ اگرچہ انہی آنیوں جانیوں میں وہ نمبر گما بیٹھے، مگر تپتی دھوپ میں سائے کی طرح ان کا نظر کرم شاید ہی ہم بھول سکیں۔ سو ہزاروں میں کہیں کوئی ایک آدھ ایسا ابھی باقی ہے جنہوں نے کسی نہ کسی طرح انسانیت کو خود میں زندہ کر رکھا ہے۔
ایک کرنل صاحب نے گھر دکھاتے فرمایا کہ اگر آپ کے ساتھ گھر کا فائنل ہوا تو میں آپ کے شوہر سے بات کرنا چاہوں گا۔ میں نے ان کو نمبر ملا دیا کہ لیجیے ابھی بات کر لیجیے۔ تو صاحب ذرا سا معزرتانہ لہجے میں بولے 'دراصل بعض اوقات طلاق یافتہ خواتین آجاتی ہیں جو جھوٹ بولتی ہیں کہ ہمارے میاں باہر رہتے ہیں'۔
مجھے شدید حیرت ہوئی کہ عورت کا طلاق یافتہ ہونا کیا زمانے میں اس قدر بڑا جرم ہے؟ اگر کوئی بے چاری خاتون بیوہ یا طلاق یافتہ ہو تو کیا اس بیچاری کو اختیار نہیں کہ شریفوں کے محلے میں گھر کرائے پر لے سکے؟ اگرچہ کسی بھی مطلقہ اور بیوہ کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اور تقاضا یہی ہوسکتا ہے کہ اسے شریفوں کے محلے میں کوئی جگہ مل جائے جہاں وہ اور اس کے بچے ہر شر سے محفوظ رہ سکیں۔
اس بات کے تناظر میں اگلے دن ہم نے صرف بیٹی کو عزیز فیملی کے گھر چھوڑا اور بیٹے کو ساتھ لے لیا تاکہ ایسے مردوں کی تشفی ہوسکے۔ اگرچہ اکیلی بیٹی کو کسی کے گھر اکیلا چھوڑنا ایک رسک تھا اسی لیے پہلے دن دونوں بچوں کو ساتھ چھوڑا تھا کہ ایک دوسرے کا آسرا ہوں گے، مگر دوسرے دن یہ رسک بھی لینا پڑا کہ لوگوں کی نگاہوں میں ہم معتبر رہیں۔ اسی تجربے کے بعد اگلے دن ڈیلر کو بھی صاف منع کردیا کہ مغرب کے بعد کوئی گھر نہیں دیکھوں گی۔ وقت چونکہ کم تھا اس لیے دو تین دن کی خواری کے بعد بالآخر میں نے پہلا اچھا آپشن ہاتھ لگتے ہی بات طے کرلی اور سیکیورٹی دے کر گھر کا قبضہ لے لیا تاکہ اگلے ہی دن ہم ڈراؤنے خواب جیسے گھر سے نکل کر محفوظ مقام پر پہنچ سکیں۔
تبصرے (12) بند ہیں