افغان صدر کا طالبان سے جنگ ختم کرنے، اقتدار میں شامل ہونے کا مطالبہ
افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو جنگ کا خاتمہ کرنے پر اقتدار میں حصہ لینے کی پیشکش کردی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے انادولو کی رپورٹ کے مطابق 'مجاہدین' کے جانب سے کابل میں سوویت حکومت کے خاتمے کی 29 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے پیغام میں افغان صدر نے کہا کہ امن عمل میں ماضی کے تلخ تجربات اور دانشمندی سے سبق سیکھنا چاہیے۔
اشرف غنی نے ٹیلی ویژن سے خطاب میں کہا کہ 'افغانستان میں کوئی بھی جنگ اور تشدد کے ذریعے عوام پر اپنی مرضی کا نفاذ نہیں کرسکتا، اب وقت آگیا ہے کہ طالبان جنگ ترک کریں اور اقتدار میں اشتراک کے لیے جمہوری طریقہ کار اپنائیں'۔
انہوں نے یاد دلایا کہ افغانستان سیاسی اور سلامتی کے انتشار میں ڈوب گیا ہے اور یہاں ریڈ آرمی کے خلاف کامیاب 'جہاد' کے بعد تباہی دیکھی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: پینٹاگون کے سربراہ کا غیراعلانیہ دورہ کابل، اشرف غنی سے ملاقات
ان کا کہنا تھا کہ 'افغانستان ایک مرتبہ پھر سنگین حالات کا سامنا کر رہا ہے، جہاد کی کامیابی عوام میں ہم آہنگی اور قومی اتحاد کی وجہ سے تھی اور اسی ہم آہنگی اور متحد آواز کے ذریعے ہم پائیدار اور انصاف پسندی تک پہنچ سکتے ہیں'۔
واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں سال 11 ستمبر سے قبل امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کا اعلان کرچکے ہیں۔
امریکی سفیر کا انخلا کے منصوبے کا دفاع
دوسری جانب افغانستان کے لیے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے سینیٹ کی خارجی تعلقات کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے جو بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کا دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر طالبان افغانستان میں فوجی قبضہ کرتے ہیں تو واشنگٹن اور اس کے حلیف اس پر پابندیاں عائد کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ 40 سال سے جاری افغانستان تنازع کا فوجی حل ممکن نہیں ہے، علاقائی قوتوں کے تعاون سے ملک میں مذاکرات طے پانا اور پائیدار استحکام واحد راستہ ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی تجویز مسترد، اشرف غنی 6 ماہ میں نئے صدارتی انتخاب کی پیشکش کریں گے
زلمے خلیل زاد نے امن کی حمایت میں پاکستان کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے پاکستان کے رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد کو کم کرنے اور مذاکرات کے ذریعے حل کی حمایت کے لیے طالبان پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں'۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے رہنماؤں نے عوامی سطح پر اور امریکی عہدیداروں کو باور کرایا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے فوجی قبضے کی حمایت نہیں کرتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نہ صرف افغانستان بلکہ ان کے ملک کو بھی وسیع تر خانہ جنگی کی صورت میں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا'۔
ان کی تقریر سے چند گھنٹے قبل امریکی محکمہ خارجہ نے امریکی شہریوں کو تجویز دی تھی کہ 'جو افغانستان سے جانا چاہتے ہیں وہ جلد از جلد وہاں سے چلے جائیں اور غیر ضروری امریکی سفارت خانے کے ملازمین کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کہا کہ 'افغانستان کے تمام علاقوں کا سفر غیر محفوظ ہے'۔