شریک حیات کے ساتھ چہل قدمی سے گریز کرنا کیوں فائدہ مند؟
تیزرفتاری سے چہل قدمی ہماری صحت کے لیے کسی سپرفوڈ سے کم نہیں تاہم اگر یہ جسمانی سرگرمی اپنے معمولات کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اسے اکیلے ہی کریں۔
کم از کم ایک تحقیق میں تو دعویٰ کیا گیا ہے کہ شریک حیات کے ساتھ چہل قدمی کرنے کی عادت اس کے طبی فوائد کو گھٹانے کا باعث بنتی ہے۔
امریکا کی پورڈیو یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جب ایک جوڑا اکٹھا چہل قدمی کرتا ہے تو ان کے چلنے کی رفتار اکیلے چہل قدمی کرنے کے مقابلے میں کافی سست ہوتی ہے، بالخصوص اگر انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ہوئے ہوں۔
اس تحقیق میں 25 سے 79 سال کی عمر کے 72 جوڑوں کو شامل کیا گیا تھا، جن کو پہلے تنہا اور پھر اکٹھے چہل قدمی کرنے کو کہا گیا۔
اس کا مقصد تنہا چہل قدمی اور شریک حیات کے ساتھ چلنے کی رفتار کا موازہ کرنا تھا اور محققین نے دریافت کیا کہ جوڑوں کے لیے اکٹھے چہل قدمی کرتے ہوئے تیزرفتاری سے چہل قدمی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، بالخصوص ہاتھ تھام کر چلتے ہوئے۔
اس کے مقابلے میں تنہا افراد زیادہ تیز چہل قدمی کرتے ہیں اور اگر شریک حیات کے ساتھ بغیر ہاتھ پکڑے چہل قدمی کرتے ہیں تو بھی ان کی رفتار معمول سے کافی کم ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ تیز چہل قدمی کی عادت دل کی صحت کو بہتر بنانے، بلڈ پریشر اور جسمانی وزن میں کمی جیسے فوائد کا باعث بنتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ چہل قدمی کے دوران اپنی رفتار کو کسی دوسرے فرد کے لیے کم کرنے سے اس جسمانی سرگرمی سے حاصل ہونے والے طبی فوائد گھٹ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چلنے کی رفتار بھی کچھ سائنسدنوں کی نظر میں جسمانی صحت کے حوالے سے نبض جتنی اہم ہوتی ہے۔
سست رفتاری سے چلنے سے 40 سال سے زائد عمر کے افراد میں بڑھاپے کے سفر کی تیزی کا اشارہ ملتا ہے جبکہ اس عمر میں تیز چہل قدمی کرنے والوں کے دماغ اور جسم زیادہ جوان ہوتے ہیں۔
تاہم محققین کا کہنا تھا کہ چہل قدمی نہ کرنے سے تو بہتر ہے کہ سست رفتاری سے چہل قدمی کرلی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس عادت سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے بہتر ہے کہ تنہا گھر سے باہر جائیں اور ہوسکے تو اپنے چلنے کی فی گھنٹہ رفتار کو ٹریک کریں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل Gait & Posture میں شائع ہوئے۔