شوکت ترین ملکی معیشت کو کس سمت لے جانے والے ہیں؟
ابھی چند ہفتے پہلے ہی جب حماد اظہر کو وزیرِ خزانہ بنانے کا اعلان ہوا تو اس سے متعلق ایک تحریر لکھی تھی۔ ابھی اس کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ شوکت ترین کو وزیرِ خزانہ بنادیا گیا۔
شوکت ترین سے میری شناسائی بطور رپورٹر سال 2005ء سے ہے کہ جب وہ یونین بینک کے صدر ہوا کرتے تھے۔ کسی دوست نے شوکت ترین کا فون نمبر دیا۔ فون پر بات ہوئی اور انہوں نے انٹرویو کے لیے اپنے دفتر بلا لیا۔ اس پہلی ملاقات کے بعد شوکت ترین کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا اور کئی مرتبہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ملنے کا موقع ملا۔
شوکت ترین نے ایم بی اے کرنے کے بعد سٹی بینک میں ملازمت اختیار کی اور 22 سال تک بینک سے وابستہ رہے۔ بعدازاں انہوں نے فلپائن میں سٹی بینک کے کنٹری ہیڈ کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔
شوکت ترین کو نواز شریف نے 1997ء میں حبیب بینک کو بحال کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ ان کے ساتھ ہی سٹی بینک کے زبیر سومرو کو یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ (یو بی ایل) اور محمد میاں سومرو کو نیشنل بینک کا صدر بنایا گیا۔ شوکت ترین نے حبیب بینک کو بحال کرنے کے لیے کروڑ پتی اسکیم جاری کی جس میں انہوں نے مالی مشکلات کے شکار بینک کو سنبھالنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ اکٹھا کیا۔
آج سے 11 سال قبل 2008ء میں جب طویل عرصے بعد پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام کا حصہ بنا تو شوکت ترین نے پروگرام میں شمولیت کے حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد اختر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں شوکت ترین نے معیشت درست کرنے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے حوالے سے بہت سے دعوے کیے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’حکومتِ پاکستان کا آئی ایم ایف کے پاس جانا دوسرا آپشن تھا۔ اس سے قبل پاکستان نے فرینڈز آف پاکستان فورم سے 6 ارب ڈالر حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں ناکامی کے بعد آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرض حاصل کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی مگر اب معیشت کو اس قدر مستحکم کردیں گے کہ آئندہ ہمیں فنڈ سے قرض لینا ہی نہیں پڑے گا‘۔
اس دعوے پر ہمارے دوست ریاض اینڈی نے سوال کیا کہ 'میں کیوں آپ کی بات پر یقین کرلوں؟ آپ تیسرے وزیرِ خزانہ ہیں جو ایسے دعوے کررہے ہیں۔ آپ نے جن دعووں کی فہرست یہاں گنوائی ہے اگر ان میں سے آپ 50 فیصد پر بھی عمل کرلیں تو میں شرط لگاتا ہوں کہ پاکستانی معیشت سنبھل جائے گی'۔
ریاض اینڈی کا سوال سُن کر شوکت ترین غصے میں آگئے اور کچھ ایسے الفاظ کہے جو میں یہاں لکھنا نہیں چاہتا۔ اس کے بعد شوکت ترین نے یہ کہا کہ ’اگر میں یہ کام نہ کرسکا تو وزارت چھوڑ جاؤں گا‘۔ اس پریس کانفرنس کے بعد وہ مزید تقریباً ایک سال وزیرِ خزانہ رہے اور فروری 2010ء کو ملکی خزانے کی باگ ڈور چھوڑ کر اپنا بینک بچانے چلے گئے۔
ماضی میں شوکت ترین کو جو سب سے بڑا مسئلہ رہا وہ تھا افراطِ زر یا قیمتوں میں اضافہ۔ مالی سال 2009ء-2008ء میں افراطِ زر موجودہ صدی کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اس عرصے میں میں افراطِ زر 20.29 فیصد ریکارڈ کیا گیا، جس میں فوڈ انفلیشن کی شرح 23 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ افراطِ زر کی اس بلند ترین شرح کے باعث اس وقت کی گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد اختر نے بنیادی شرحِ سود میں تیزی سے اضافہ کرتے ہوئے شرحِ سود کو 15 فیصد کردیا تھا۔
شرحِ سود میں اس اضافے پر تاجر برادری کی جانب سے کڑی تنقید کی جارہی تھی اور کراچی کے ایوانِ تجارت و صنعت نے شوکت ترین کے اعزاز میں ایک پُرتکلف دعوت کا اہتمام کیا جس میں تمام تر زور اس بات پر دیا گیا کہ بنیادی شرحِ سود کو کم کیا جائے۔ اس مطالبے پر شوکت ترین کا کہنا تھا کہ اگر افراطِ زر کو قابو نہیں کیا گیا تو ملک میں انقلاب آجائے گا اور نہ صرف آپ کی فیکٹریاں بلکہ گھر بھی جل جائیں گے۔
شوکت ترین کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے صوبوں کے ساتھ مل کر قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کو تشکیل دیا جس میں قابلِ تقسیم پول میں صوبوں کا حصہ بڑھا دیا گیا۔ تقسیم کے فارمولے میں تبدیلی سے وفاق کو مسائل کا سامنا ہے اور اس کے پاس اخراجات کے لیے رقم کم رہ جاتی ہے۔ اس این ایف سی ایوارڈ پر عمران خان کڑی تنقید بھی کرچکے ہیں اور اسے واپس پرانی سطح پر لے جانے کے حق میں ہیں۔
شوکت ترین کو وزارتِ خزانہ کی باگ ڈور ایسے وقت میں دی گئی ہے جب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو معاشی سیاست کے میدان میں کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
بچت کی بنیاد پر بنائی گئی پالیسیوں کے تقریباً ڈھائی برسوں میں اگرچہ عوام کی چیخیں تو نکل گئی ہیں مگر معیشت میں نہ تو ٹیکس وصولی بہتر ہوئی ہے اور نہ ہی معیشت میں ڈالر کمانے کی صلاحیت کو پیدا کیا گیا ہے۔
شوکت ترین نے گزشتہ ڈھائی سال سے جاری بچت کی پالیسی کے بجائے معیشت میں توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ عہدے کو سنبھالا ہے۔ وہ معیشت میں سرمایہ کاری کرکے توسیع دینے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے وزیرِ خزانہ بننے سے قبل وزیرِاعظم ہاؤس میں معاشی ماہرین کے ساتھ ہونے والی ایک میٹنگ میں اپنے چند اہداف کا اظہار بھی کیا تھا۔ ان اہداف سے ہم یہ سمجھ پائیں گے کہ ملکی معیشت کس سمت میں بڑھ رہی ہے۔ آئیے ان چند اہداف کا جائزہ لیتے ہیں۔
آئی ایم ایف سے متعلق معاہدے پر تحفظات
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی گزشتہ معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو درست طور پر مرتب نہیں کیا ہے۔ ایسی باتوں پر اتفاق کیا گیا جس سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کے فیصلوں پر تنقید
شوکت ترین کے مطابق جب افراطِ زر 7 فیصد تھا تو اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرحِ سود 13.25 فیصد کردی اور ڈالر کو 168 روپے تک لے گئی جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں تو کمی ہوئی مگر ساتھ بجلی، گیس، پیٹرول اور دیگر اجناس کو بھی مہنگا کردیا۔ اگر یہ اقدامات اٹھانا تھے تو انہیں بتدریج کیا جاتا اور آہستہ اہستہ بوجھ کو عام آدمی پر منتقل کیا جاتا۔
شوکت ترین کی یہ تنقید براہِ راست گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر پر تنقید تصور کی جاسکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا شوکت ترین معیشت کی موجودہ صورتحال اور معاشی فیصلوں میں 180 درجے کے تضاد پر گورنر اسٹیٹ بینک کو راضی کر پائیں گے؟ کیا رضا باقر معیشت کے حوالے سے سکڑاؤ اور بچت کی پالیسی کے برخلاف معیشت میں توسیع اور شرحِ سود میں کمی اور روپے کی مضبوطی کو تسلیم کریں گے یا نہیں؟
جی ڈی پی کو بڑھانے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
معاشی ترقی کے حوالے سے شوکت ترین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے آئندہ 20 برسوں میں ملک کی اجتماعی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں 6 سے 8 فیصد تک ترقی کرنا ہوگی۔
دوسری جانب اگر پی ٹی آئی کے معاشی منشور کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ عمران خان کی ٹیم نے قوم سے معاشی ترقی کا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں تھا۔ شوکت ترین کے مطابق گزشتہ ڈھائی سال کی پالیسیوں نے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کیا ہے جبکہ منفی شرحِ نمو سے ایک سال میں ملازمتی مارکیٹ میں آنے والے 45 لاکھ افراد کو روزگار نہیں ملا ہے۔ اگر معیشت کو بغیر کسی ترقی کے چلانا ہے تو جی ڈی پی میں کم از کم 2 فیصد اضافہ کرنا ہوگا۔
افراطِ زر کو معاشی ماہرین بدترین ٹیکس قرار دیتے ہیں کیونکہ افراطِ زر میں ایک تو پیداوار بڑھتی نہیں دوسرا لوگوں کو اضافی قیمتوں کی وجہ سے اضافی ٹیکس دینا پڑجاتا ہے۔
موجودہ حکومت کے دور میں افراطِ زر اگرچہ بہت زیادہ ہے مگر اس کا اثر ملکی ٹیکس وصولی پر نہیں پڑا ہے۔ 2 سال تک ٹیکس وصولی ایک سطح پر منجمد رہی لیکن رواں برس اس میں تقریباً 10 فیصد کا اضافہ نظر آرہا ہے۔ شوکت ترین کہتے ہیں کہ ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب 10 فیصد ہے جو بہت کم ہے۔
ایف بی آر کے بجائے نئے ادارے کی تجویز
گزشتہ کئی سال سے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں جو اصلاحات ہونا تھیں وہ نہیں ہوپائیں۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ ٹیکس کی وصولی بڑھانے اور نئے ٹیکس دہندگان کو ہراساں ہونے سے بچانے کے لیے نیا ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں ٹیکس دہندگان اور ٹیکس وصولنے والوں میں کم سے کم رابطہ ہو۔ ہر سال ٹیکس اور جی ڈی پی کے تناسب میں سالانہ جی ڈی پی کا 2 سے 3 فیصد اضافہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ شوکت ترین زراعت پر ٹیکس جمع کرنے کے بھی حامی نظر آتے ہیں۔
ملکی خزانے پر اس وقت سب سے بڑا بوجھ غیر فعال اور خسارے کے شکار حکومت کے کاروباری ادارے اور توانائی کا شعبہ ہے۔ اس حوالے سے بھی نئے وزیرِ خزانہ ایک مؤقف رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پبلک سیکٹر انٹر پرائیز کی تنطیمِ نو کیے بغیر حکومتی بجٹ کو ٹھیک نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اضافی بجلی کی کھپت کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
شوکت ترین حکومت کی جانب سے معیشت کی سکڑاؤ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماضی کی حکومت نے 5.8 فیصد معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرلیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے تیزی سے بجلی کے پیداواری یونٹس لگائے۔ تاہم معیشت اچانک منفی ہوگئی جس سے بجلی طلب کے مقابلے میں اضافی ہوگئی ہے۔ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ بجلی کے شعبے میں فی یونٹ قیمت بڑھانے کے بجائے اضافی بجلی کی کھپت کو بڑھانا ہوگا جس سے کیپیسٹی ادائیگی کے مسائل کم سے کم ہوجائیں گے۔
ترقیاتی فنڈز کا استعمال کیوں ضروری؟
مگر شوکت ترین ملکی خزانے میں مختص فنڈز کو جی ڈی پی کی ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں مختص کیے گئے ترقیاتی فنڈز کو استعمال کیا جائے گا اور ترقی کے لیے پلاننگ کمیشن کو فعال کیا جائے گا تاکہ وہ مؤثر ترقیاتی منصوبے تشکیل دے سکے۔
زراعت سے متعلق کیا ہونا چاہیے؟
وزیرِ خزانہ زراعت کو بھی معاشی پالیسی کا مرکز بنانے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان میں 68 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ مگر گزشتہ 2 سال سے زراعت کا شعبہ ترقی نہیں کررہا۔ پاکستان کو گندم اور چینی بڑے پیمانے پر درآمد کرنا پڑی ہے۔ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں ترقی کرنا ہوگی اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے کسانوں کو مراعات دینا ہوں گی تاکہ وہ اپنی زرعی پیداوار زیادہ سے زیادہ بڑھا سکیں۔
شوکت ترین صنعتی ڈھانچے سے ناخوش کیوں؟
نئے وزیرِ خزانہ کے نزدیک معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور زرِمبادلہ کمانے کے لیے صنعتی ترقی کو بحال کرنا ہوگا۔ مگر وہ موجودہ صنعتی ڈھانچے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان میں صنعتیں خاندانوں نے لگائی ہیں اور تقسیم کی وجہ سے صنعتی ہاؤس بڑھنے کے بجائے سُکڑ رہے ہیں۔
ان صنعتی گھرانوں کو کارپوریٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ صنعتی ترقی کے حوالے سے شوکت ترین کی نظریں چین پاکستان اقتصادی راہداری پر جمی ہوئی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سی پیک کے ذریعے چینی صنعتوں کو پاکستان لایا جائے۔ اس حوالے سے اہم پیش رفت ہوچکی ہے اور رشکئی کے خصوصی صنعتی زون میں پہلی چینی کمپنی نے اپنے یونٹ کو قائم کرنے کے لیے کام شروع کردیا ہے اور وہاں بجلی کی فراہمی کے لیے حکومت نے بھی اقدامات شروع کردیے ہیں۔
دوسری جانب چین کا کہنا ہے کہ وہ ہائی گروتھ ریٹ سے بڑھ کر ہائی ٹیک گروتھ ریٹ کی جانب جانا چاہ رہا ہے اور متعدد صنعتیں ایسی ہیں جن کو چین اپنی مین لینڈ سے منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اب پاکستان کو جلد از جلد ان صنعتوں کو پاکستان لانے کی کوششیں کرنا ہوں گی۔
کیا پی ٹی آئی کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا؟
شوکت ترین کی بطور وزیرِ خزانہ تقرری سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو احساس ہوچکا ہے کہ اس نے گزشتہ ڈھائی سال میں اصلاحات و بچت کے نام پر معیشت میں جو گراوٹ اور سکڑاؤ پیدا کیا ہے اس کے نتیجے میں بڑھنے والی بے روزگاری اور افراطِ زر نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ شاید حکمراں جماعت اپنی باقی ماندہ مدت میں اپنی اس غلطی کو ٹھیک کرنے کے لیے تیزی سے معاشی ترقی کرنا چاہتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ شوکت ترین کب تک موجودہ حکومت کے وزیرِ خزانہ رہتے ہیں اور کیا وہ ان تمام وعدوں اور دعوؤں پر عمل درآمد کرواسکیں گے جن کا اظہار انہوں نے وزیرِ خزانہ بننے سے قبل کیا تھا؟
یہاں پر ریاض اینڈی کا وہی جملہ صادق آتا ہے کہ اگر آپ 50 فیصد پر بھی عمل کرلیں تو مسائل بڑی حد تک حل ہوجائیں گے۔
تبصرے (3) بند ہیں