• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

مسلم لیگ (ن) نے مشترکہ قرارداد کی تیاری کیلئے حکومت سے ‘وضاحت' مانگ لی

شائع April 22, 2021
—فائل فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر
—فائل فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ناموس رسالت اور فرانسیسی سفیر کو ملک سے بے دخل کرنے کے معاملے پر حکومت کو ایک سوالنامہ ارسال کیا ہے تاکہ مذکورہ مسئلے پر فوری طور پر اپنی قرارداد تیار کرسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما مرتضیٰ جاوید عباسی نے پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان کو ایک مراسلے کے ساتھ سوالنامہ بھجوایا جس میں کہا گیا کہ ایوان میں پیش کی جانے والی مشترکہ قرارداد کو تیار کرنے کے لیے ان کی پارٹی کو 'وضاحت اور معلومات' کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی سے 'غیر معقول' معاہدہ کرنے پر اپوزیشن کی حکومت پر تنقید

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)، ناموس رسالت کے لیے پوری طرح پرعزم ہے اور مشترکہ قرارداد کی تیاری کر رہی ہے۔

بعد ازاں چھ نکات پر مشتمل خط کی کاپی مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے میڈیا کو جاری کی۔

مراسلے میں کہا گیا کہ 'ایوان کے قائد ناموس رسالت کے بارے میں ایوان میں بحث شروع کرنے اور اس معاملے پر اپنی حکومت کی پالیسی پیش کرنے کے لیے کب پیش ہوئے؟'

مسلم لیگ (ن) نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر کلیدی وزارتوں اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ سے ریاست کی پالیسی کے بارے میں بریفنگ بھی طلب کی۔

مسلم لیگ (ن) کے خط میں کہا گیا کہ 'قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا کہ بین الاقوامی تعلقات ریاست کا واحد ڈومین ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی کوٹ لکھپت جیل سے رہائی کی متضاد خبریں

اس ضمن میں خط میں مزید کہا گیا کہ 'وزیر اعظم، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ اور آئی ایس آئی، فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر ریاست کی پالیسی پر ایوان کو آگاہ کرسکتے ہیں جس کے لیے قرارداد ایوان میں بحث کا مطالبہ کرتی ہے'۔

کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا حوالہ دیے بغیر مسلم لیگ (ن) نے حکومت سے کہا کہ وہ ان تمام معاہدوں کی کاپیاں فراہم کرے جو 'حال ہی میں حکومت نے ایک تنظیم کے ساتھ' کیے۔

خط میں کہا گیا کہ 'وزیر اطلاعات سمیت وفاقی وزرا نے میڈیا میں متعدد مرتبہ یہ بیان دیا کہ حکومت صرف ایوان میں قرارداد پیش کرنے کے لیے پرعزم ہے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اس معاملے پر مزید کسی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتی؟'

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی پر سے پابندی ختم ہوجائے گی، علی محمد خان

وزیر اعظم عمران خان کے 19 اپریل کو قوم سے خطاب کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) نے وزیر سے کہا کہ کیا وزیر اعظم کے خطاب میں پیش کردہ خیالات کو اس مسئلے پر حکومت کے پالیسی بیان کے طور پر لیا جائے؟

مسلم لیگ (ن) نے مراسلے میں سوال اٹھایا کہ 'اگر ایسا ہے تو ایوان میں پیش کی جانے والی قرارداد کا مقصد کیا تھا کیونکہ یہ وزیر اعظم کے بیانات سے متصادم ہے؟'

وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں اشارہ دیا تھا کہ حکومت، ٹی ایل پی کے مطالبے پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہیں کرسکتی کیونکہ فرانس کے ساتھ اس طرح کے اقدامات اور تعلقات کو توڑنے سے پاکستان میں معاشی بحران، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) نے اپنے خط میں پوچھا ہے کہ 'کیا امن و امان کی صورتحال پر حقائق کا تعین کرنے اور گزشتہ 10 دن کے واقعات میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی تفتیش شروع کی گئی؟'

فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے بے دخل کرنے کے معاملے پر حکومت اپوزیشن اراکین مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے شور شرابے کے باوجود کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ 'معاہدے' کی رو سے ایک قرارداد پیش کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

تاہم مشاورت کے بغیر ایوان میں قرارداد لانے پر اپوزیشن نے حکومتی اقدام پر احتجاج کیا اور اس ناموس رسالت کے معاملے پر مکمل بحث کا مطالبہ کیا۔

اسپیکر اسد قیصر نے میانوالی سے پی ٹی آئی کے قانون ساز کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کو ووٹ کے لیے نجی ممبر کے ایجنڈے کے طور پر پیش نہیں کیا۔

اسد قیصر نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپوزیشن کو مشاورت میں شامل کرے اور جمعہ کی صبح تک اجلاس ملتوی کرنے سے قبل قرارداد کے مسودے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے منگل کے اواخر میں لاہور میں حکومت اور ٹی ایل پی کی قیادت کے مابین ’کامیاب مذاکرات‘ کے بعد اپنے اسپیکر کی جانب سے مختصر نوٹس پر طلب کیے جانے والے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔

اپوزیشن رہنماؤں نے اپنی تقریروں میں اس طرح کے حساس معاملے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کارروائی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرنے پر حکومت پر شدید تنقید کی تھی اور ایسے اہم موقع پر وزیر اعظم خان کی ایوان سے غیر موجودگی پر بھی احتجاج کیا تھا۔

اپوزیشن نے حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے کو ووٹ کے لیے قرار داد دینے کے بجائے ایوان کے سامنے پیش کرے۔

قومی اسمبلی میں پیش کردہ اس قرار داد میں گزشتہ سال ستمبر میں فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور فرانسیسی صدر کی جانب سے 'ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا جس سے سیکڑوں لاکھوں مسلمانوں کے جذبات مجروح' ہوئے ہیں۔

قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر منعقدہ اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن پارلیمنٹ امجد علی خان نے فرانسیسی میگزین کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے خلاف قرارداد پیش کی تھی۔

قرارداد کا متن پڑھ کر سناتے ہوئے امجد علی خان نے کہا تھا کہ مذکورہ معاملے پر ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے پر بحث کی جائے، تمام یورپی ممالک کو اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے، تمام مسلمان ممالک کو شامل کرتے ہوئے اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا جائے۔

اجلاس کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ 'اگر حکومت نے قرارداد لانی تھی تو اپوزیشن سے بات کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ قرارداد لائی جارہی ہے، میری گزارش ہوگی کہ ایک گھنٹہ دیا جائے ہم اس کا مطالعہ کرکے اس میں جو اضافہ کرنا ہے وہ سب کے سامنے رکھیں گے'۔

ٹی ایل پی کے مطالبات

تحریک لبیک نے حکومت کے سامنے چار شرائط رکھی تھیں جس میں کہا گیا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کے بعد فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔

انہوں نے مزید مطالبات کیے کہ پارٹی کے امیر سعد رضوی کو رہا کیا جائے، پارٹی پر پابندی ختم کی جائے اور گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف درج ایف آئی آرز بھی ختم کی جائیں۔

ٹی ایل پی کا حالیہ احتجاج

گزشتہ برس اکتوبر کے دوران فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر ٹی ایل پی نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا۔

جس پر حکومت نے 16 نومبر کو ٹی ایل پی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب 16 فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا۔

چنانچہ ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی 20 اپریل تک اپنے احتجاج کو مؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

بعد ازاں گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز، مرحوم خادم حسین رضوی کے بیٹے اور جماعت کے موجودہ سربراہ سعد رضوی نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کے لیے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں 12 اپریل کو گرفتار کرلیا تھا۔

ٹی ایل پی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگئے تھے جنہوں نے بعض مقامات پر پرتشدد صورتحال اختیار کرلی تھی۔

جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے اور سڑکوں کی بندش کے باعث لاکھوں مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

بعد ازاں حکومت پاکستان کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے اعلان کیا گیا تھا، اس دوران ملک کے مختلف احتجاجی مقامات کو کلیئر کروا لیا گیا تھا تاہم لاہور کے یتیم خانہ چوک پر مظاہرین موجود تھے جہاں اتوار کی صبح سے حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ اس نے نواں کوٹ تھانے پر حملے کے بعد مظاہرین کے خلاف آپریش کیا، اس کارروائی کے نتیجے میں کم از کم 3 افراد جاں بحق اور 15 پولیس اہلکاروں سمیت سیکڑوں افراد زخمی ہوگئے تھے۔

دوسری جانب ٹی ایل پی نے ڈی ایس پی سمیت 11 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنالیا تھا جنہیں مذاکرات کے پہلے دور کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے 15 اپریل کو تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا تھا، بعد ازاں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جماعت کی میڈیا کوریج پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

مذکورہ معاملے پر 20 اپریل کی صبح یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ گزشتہ رات کوٹ لکھپت جیل میں ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی اور حکومتی ٹیم کے مابین 7 گھنٹے طویل مذاکرات کے تینوں ادوار بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے تھے۔

جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اعلان کیا تھا کہ حکومتِ پاکستان، فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرارداد آج قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024